لیبیا پرمغربی ممالک کے فضائی اور میزائل حملوں سے 48 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئے ۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ایڈمرل ولیم گورٹنے نے کہا ہے کہ ہفتے کو امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں اور آبدوزوں سے 110 سے زائد ٹاما ہاک کروز میزائل فائر کئے گئے اور لیبیا میں20 سے زائد دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا یا گیا اور فضائی دفاعی نظام ناکارہ بنادیا گیا
ایڈمرل ولیم گورٹنے کا کہنا تھا کہ میزائل حملہ کثیرالجہتی”آپریشن اوڈیسی ڈان “کا پہلا مرحلہ ہے۔ پپینٹاگون کے مطابق کارروائی میں امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور اٹلی حصہ لے رہے ہیں ۔ اتحادی افواج نے طرابلس کے علاوہ زوارہ، مصراتہ، سِرت اور بن غازی پر بھی حملے کئے
لبيا کے سرکاری ٹی وی کے مطابق حملوں میں ایک اسپتال اورمصراتہ شہر کے قریب فوجی کالج کو بھی نشانہ بنایا گیا
لیبیا نے طرابلس میں ایک فرانسیسی طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے تاہم فرانس کا کہنا ہے کہ تمام طیارے بحفاظت اپنے اڈوں پر واپس آگئے ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ لیبیا میں امریکی زمینی فوج نہیں بھیجی جارہی
افریقی یونین نے لیبیا کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے حملے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے کہا ہے کہ مغربی طاقتیں لیبیا میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں
لبیا میں فتنہ کھڑا ہی اسی مقصد کیلئے گیا تھا۔۔۔مسلمان زیادہ آزاد ہوئے تو اسرائیل کو خطرہ ہے۔اس لئے لبیا میں فتنہ کھڑا کرکے لبیا کو کھڑکا دیا گیا۔۔۔دوسرے عرب مسلمان ٹھنڈے ہو جائیں گے۔۔۔اور دوبارہ روٹی روٹی کے چکر میں پھنس جائیں گے۔
قذافی کی فضائیہ جو اپنے عوام پر بمباری میں پیش پیش تھی اب ان امریکیوں اور فرانسیسیوں وغیرہا کے مقابلہ کے لئے میدان میں کیوں نہیں آرہی؟
ایک معمولی بات کو جسطرح بہانہ بنا کر جس پھرتی سے اقوام متحدہ سے قراردادیں منظور کروا کر جس پھرتی سے امریکہ اور اسکے اتحآدی میدان میں اترے ہیں اس سے امریکہ کی روایتی بدنیتی کی بُو آتی ہے۔یہ لیبیا اور بالفاظ دیگر مسلمانوں کے واسئال اور ممال پہ قبضہ کرنے کے نیو ورلڈ آدر نامی ڈرامے کی ایک تازہ قسط ہے۔
وکی لیکس کا یوں ان خفیہ پیغامات کا تواتر سے چھاپنا جن سے مسلمان ممالک میں اپنے آمروں جدی پشتی بادشاہوں اور حکمرانوں کے خلاف بے چینی پیدا ہو اور وکی لیکس کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی طرف سے قانونی یا کوئی غیر قانونی کاروائی جسکا وہ عادی ہے نہ کرنا ہی وکی لیکس کو مشکوک کرتا ہے۔
اسی وکی لیکس کے مبینہ انکشافات سے قبل لیبیا کے باغیوں کا چند ماہ قبل تک وجود نہ تھا۔ لیبیا کی باغی کون ہیں؟ ابھی تک خود مغرب کو پتہ نہیں کہ لیبیا کے باغی کون ہیں- انکی تعداد کتنی ہے۔ انکا اثر رسوخ عام عوام پہ کتنا ہے۔ انکے مطالبات اور نظریات کیا ہیں۔ انکے لیڈرز کون ہیں؟ آیا واقعی یہ باغی کسی قسم کیآزادی چاہتے ہیں؟۔ کیا یہ باغی اپنے ملک اور عوام کی اتحادیوں کے ہاتھوں بربادی کی قیمت پہ قزافی سے نجات چاہتے ہیں؟۔ تو پھر وہ عوام یا قبیلے جو قذافی کے وفادار ہیں اور غالبا واضح اکثریت میں بھی ہیں اور اکچر و بیشتر وہ اسکا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ تو کیا عوام کی اکثریت اور قبائل کی کوئی رائے نہیں۔ کیا وہ عوام نہیں؟۔ یا تعداد میں کم ہونے کے باوجود باغیوں کو ہی اسلئیے لیبیا کے اصل عوام مانا جارہا کہ وہ لیبیا مغرب کے مفادات کی تکمیل پہ پورا اترتے ہیں؟
چند سال پہلے اسی افریقہ میں روآنڈہ اور برونڈی میں نیزوں بھالوں تلواروں اور گولیوں سے ملینز کی آبادی کو متواتر دو سال تک تہ تیغ کرنے پہ جس کا آغاز فرانس وغیرہ کی وجہ سے ہوا مگر بہت سے کمزور ملکوں کی بارہا استدعا کے بواجود کہ اس اندھی قتل غارت کو روکا جائے اتحادیوں نے اسے روکنے کے لئیے ذرہ برابر دلچسپی نہ دکھائی جبکہ جنگی جہاز اور افواج علاقے میں بیجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔
لیبیا کے چند باغیوں کے ساتھ جن کے وجود کے بارے میں درست معلومات کسی کے پاس نہیں،امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی اسقدر ہمدردی عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اور خاص کر اس وقت جب امریکہ اور اتحادی سخت کساد بازای اور مالی بحران کا شکار ہیں۔ اور دوسرے بر اعظم میں جنگ پہ جو لاگت آتی ہے وہ سب کے علم میں ہے۔ اتحادیوں کے اکثر ممالک بے روزگاری صورت میں اپنے عوام کو دی گئی کئی ایک سہولیات محض مالی اخراجات کی وجہ سے ختم کر رہے ہیں۔ ایسے میں کیا انھیں ایک گولی۔ گولے۔ میزائل اور جہازوں میں جلنے والے ایندھن کی قیمت کا اندازہ نہیں؟
چند سال قبل تک قذافی سرکوزی حکومت کا پیرس میں مہمان تھا جس کا شاندار اہتمام سرکوزی نے کیا تھا۔ اطالیہ میں قذافی اپنے خیموں اور دودھ دینے والی اونٹنی سمیت سرکاری دورے پہ آیا۔ مغرب نے پچھلے دنوں تک اسے اسلحہ فروخت کیا۔ اربوں ڈالر اینٹھے۔ آج مغربی افواج جس اسلحے کو تانک کر تباہ کر رہی ہیں اس اسلحے اور توپوں ٹینکوں کے دام مغرب نے کھرے کئیے ہیں یہ انہی ممالک کا ساختہ جو آج اسے تباہ کر رہے۔
اگر محض قذافی کو ہٹانا مقصود ہوتا تو اس پہ مالی اور فوجی پابندیاں لگائی جاتیں۔اگر تو باغی واقعی عام عوام ہیں تو انکی حکومت تسلیم کرنے سے اور قذافی حکومت کو اقوام متحدہ سے خارج کردینے سے ہی قذافی حکومت گھٹنے ٹیک دیتی۔ مگر لگتا یہ ہے کہ حملہ آوروں نے باغیوں کا بہانہ بنا یا ہے لیکن درحقیقت انکے مقاصد وہی ہیں جو عراق و افغانستان پہ قبضے کے لئیے تھے۔ دیر یا بدیر لیبیا کے “باغی” بھی یہ بات سمجھ جائیں گے مگر تب تک لیبیا پہ غیر ملکی قبضہ مکمل ہوچکا ہوگا۔ ابھی تو فی الحال لیبیا کا اسلحہ ، وام اور اسکے اثاثے پھونکے جارہے ہیں۔ جو کسی حاکم یا حکمرانوں کے نہیں بلکہ ملک و قوم کی جائیداد ہوتے ہیں۔ اگر باغیوں کی حکومت وجود میں آتی ہے تو کیا وہ ایک تباہ شدہ ملک پہ حکموت کریں گے؟ اسکے لئیے وہ کس سے مدد لیں گے۔ وہ اپنے وسائل یعنی تیل کو اونے پونے کسے بیچیں گے۔؟
البتہ امریکہ اور اتحادیوں کو سعودی عرب کی محتاجی اور بعض عرب ممالک کی طرف سے تیل پہ اجارہ داری سے نجات مل جائے گی۔فوجاں ای فوجاں تے موجاں ای موجاں۔
لیبیا پہ امریکہ اور اتحادی افواج کا حملہ اور قبضہ خطے کا نقشہ بدل دے گا۔ آج اس حملے کے لئیے امریکہ کی حمایت کرنے والے عرب شیوخ اور حکمرانوں نے ماضی میں عراق کے امریکہ کے حملے اور قبضے سے کچھ نہیں سیکھا۔ آنے والے وقتوں میں یہ حملہ خود انکے اپنے وجود کے لئیے سخت مسائل پیدا کردے گا۔
اس حملے سے لیبیا کے عوام کی آزادی ہر گز مقصود نہیں۔ آج کا دن پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئیے اور دنیا میں آزادی سے جینے کا خواب دیکھنے والے انسانوں کے لئیے انتہائی افسوسناک دن ہے۔
جاوید گوندل صاحب نے بہت بہترین تجزیہ کیا ہے، ابھی تو لیبیاء کی باری آئی ہے اگر مسلم دنیا میں علم اور ٹیکنالوجی سے دوری کی یہ ہی حالت رہی تو وہ دن بھی دور نظر نہیں آرہا جب نت نئے بہانے بنا کر ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک پر قبضے کر لئیے جائیں گے۔
خرم صاحب
آپ جديد تعليم کا گڑھ کہلانے ملک ميں رہتے ہيں مگر بات آپ نے بے تعليم والی کر دی ۔ رام اور کرشن قديم زمانہ [مگر بہت قديم بھی نہيں] ميں لکھی گئی کہانيوں کے کردار ہيں ۔ اتنی بڑی بات کرنے سے پہلے رامائن ۔ مہا بھارت وغيرہ کا مطالعہ کر ليا ہوتا
فکر پاکستان صاحب
آپ کا اندازہ درست ہے ۔ مگر ہماری قوم کے کئی پڑھے لکھے لوگ بغليں بجا رہے ہين ۔ انہيں يہ احساس نہيں کہ دُشمن ان کے جسم کو ايک ايک عضوء کر کے کاٹتا جا رہا ہے ۔ کبھی ميں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کيا امريکا ہی دجال ہے ؟ کيونکہ مسلمانوں کی حالت کچھ ويسی ہی ہے جيسی دجال کے وقت ہونا بيان کی گئی ہے
اجمل چاچا اگر آپ مجھے ای میل کر سکیں میری ای میل آی ڈی پر تو بہت مہربانی ہو گی ، مجھے آپسے کچھ معلومات درکار ہیں تاریخ کے حوالے سے
Pingback: جمہوريت اور انسانی حقوق ؟؟؟؟؟ | Tea Break