ميں نے آزاد جموں کشمیر اور صوبہ سرحد کے ساتھ اسلام آباد میں 15 اکتوبر رات 12 بج کر 37 منٹ 42 سیکنڈ تک آنے والے رخٹر سکیل پر 4 سے زیادہ شدت والے زلزلوں اور جھٹکوں (آفٹر شاکس) کا ریکارڈ پیش کر دیا تھا ۔ اس کے بعد مزید مندرجہ ذیل زلزلے آۓ ۔رخٹر سکیل پر 4 سے کم شدت کے بھی کئی زلزلے آئے مگر ان کا ریکارڈ نہیں ہے ۔
15 اکتوبر
صبح 9 بج کر 24 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا
صبح 9 بج کر 32 منٹ 21 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 شدت کا
صبح 11 بج کر 52 منٹ 14 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 4 شدت کا
17 اکتوبر
صبح 3 بج کر 5 منٹ 33 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 3 شدت کا
بعد دوپہر 3 بج کر 43 منٹ 8 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا
18 اکتوبر
رات 11 بج کر 32 منٹ 3 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا
19 اکتوبر
رات 2 بج کر 20 منٹ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا
رات 2 بج کر 20 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 3 شدت کا
صبح 7 بج کر 33 منٹ 30 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 8 شدت کا
صبح 8 بج کر 16 منٹ 22 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 4 شدت کا
بعد دوپہر 5 بج کر 47 منٹ 28 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 2 شدت کا
کچھ خبریں
جھٹکوں یا آفٹر شاکس کے علاوہ 80 زلزلے بھی آۓ
کراچی یونیورسٹی کے جیالوجسٹ ڈاکٹر نیئر ضیغم نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور شمالی علاقوں میں اتنے شدید زلزلے کی وجہ زمین کی سطح سے صرف دس سے بیس کلو میٹر کی گہرائی پر توانائی کی بڑی مقدار کا اخراج تھا ۔ پاکستان میں اکتوبر کی آٹھ تاریخ کو سات عشاریہ آٹھ اور اس کے بعد چھ عشاریہ چار کی شدت سے آنے والے دو زلزلوں میں جتنی توانائی خارج ہوئی ہے وہ ایک میگا ٹن کے ساٹھ ہزار ایٹم بموں کے دھماکوں کے برابر تھی۔ انہوں نے کہا کہ اتنے شدید زلزلے نے ایک ڈگری سکوائر کے علاقے میں دوسری فالٹ لائنز کو بھی متحرک کر دیا ہے اور ماضی میں غیر متحرک یا سوئی ہوئی فالٹ لائنز بھی زلزلوں کا باعث بن رہی ہیں ۔
ڈاکٹر نیئر نے کہا کہ پندرہ تاریخ تک اس علاقے میں پچہتر زلزلے ریکارڈ کیے گئے جن کو سائنسی اصطلاح میں آفٹر شاک یا جھٹکے کہنا ٹھیک نہیں بلکے یہ علیحدہ علیحدہ زلزلے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ماہرین کا خیال یہی تھا کہ یہ بڑے زلزلے کے بعد آنے والے جھٹکے ہیں لیکن اس زلزلوں کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ الگ الگ زلزلے تھے اور کسی ایک جگہ نہیں آ رہے۔ انہوں نے کہ ہمالیہ پہاڑیوں کے تھرسٹ سسٹم میں ارتعاش پیدا ہوگیا ہے۔
متاءثرین کے شب و روز
بی بی سی کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زلزلے کے باعث ہزاروں خاندان پاکستان کے مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ یہ خاندان یا تو اپنے طور پر رہ رہے ہیں یا حکومت کی طرف سے قائم چند خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر ہیں یا وہ اسلام آباد میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تعمیر کیے گئے فلیٹس میں رہتے ہیں ۔ یہ فلیٹس اسلام آباد میں آبپارہ میں واقع ہیں ۔ ایسے ہی ایک مقام پر بہت سے بچے ڈھیر میں سے کپڑے تلاش کر رہے تھے۔ ایک بچی نے کہا کہ اس کو کچھ نہیں ملا۔ ایک بچہ ہنستےہوئے بولا کہ اس کو ایک جیکٹ مل گئی لیکن وہ اسے چھوٹی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کو یہ کپڑے پسند نہیں ہیں اور یہ سارے بچے کھلکھلاتے ہوئے بیک آواز بولے کہ یہ لنڈا بازار ہے۔
ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کے رہائشی ہلال پیرزادہ کا کہنا ہے کہ یہ کپڑے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھیجے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑی خوبصورتی سے پیک کیے گئے تھے لیکن جب ان کو کھولا گیا تو اندر سے پھٹے پرانے کپڑے نکلے جو بالکل ناکارہ اور ناقابل استعمال تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ کشمیری اس مشکل حالات میں بھی اس سے کئی بہتر چیزیں عطیے میں دے سکتے ہیں۔
لگ بھگ تین سو فلیٹس میں کچھ دنوں سے مقیم چھ سات سو خاندان خاصی مشکل زندگی گذار رہے ہیں۔
ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کی خاتون نبیلہ حبیب کا کہنا ہے کہ ان کے تین خاندان دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں اور گزر اوقات کر رہے ہیں۔ یہ زندگی نہیں ہے۔ ‘کہاں اپنا گھر اور گھر کا آرام اور کہاں یہ’۔ انہوں نے جذباتی ہو کر کہا کہ ان کے پرانے گھر کا سٹور ان کمروں سے بہتر تھا جس میں وہ اب سوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم دوسروں کے محتاج ہوگئے ہیں کہ وہ کھانا لائیں گے اور ہم کھائیں گے جب ہمیں شاپر میں پیک کرکے کھانا دیا جاتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے پہلے ہم روتے ہیں پھر کھاتے ہیں۔ ہماری عزت نفس مجروح ہورہی ہے ۔ہمیں ساری رات نیند نہیں آتی ہے ہمیں کوئی سکون نہیں ہے’۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیر کو بچوں کی کچھ چیزیں خریدنے کے لیے بازار گئی تو وہاں دوکانیں دیکھ کر انہیں اس لیے رونا آرہا تھا کہ کبھی وہ بھی ایسی ہی دوکانوں کے مالک تھے۔
نبیلہ کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگوں نے ان کی بہت مدد کی لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے شہر میں عزت سے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے لیکن ہم یہاں چوروں کی طرح رہ رہے ہیں’۔
ان فلیٹس میں رہنے والے بےگھر کشمیری اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔
آصفہ جو پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھتے تھے لیکن یہاں بچوں کو کوئی سہولت نہیں ہے۔ اب بچوں کا مستقبل کیا ہے، وہ خود گریڈ سولہ کی ملازم ہیں ان کا مستقبل کیا ہے۔ ان کی بہنوں کا کیا مستقبل ہے ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے وہ سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ آصفہ تین بچوں کی ماہ ہیں اور ان کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کب تک وہ اپنے بچوں کو خشک بسکٹ اور ٹھنڈا دودھ دیں گے۔ اس سے بچے بیمار ہوجائیں گے جو آدھے بچے بچ گئے ان کو تو نہ ماریں۔
پروفیسر عبدالمجید کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان فلیٹوں میں بجلی، پانی اور گیس میسر نہیں ہے جبکہ یہاں تینوں کے کنکشن پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی حکومتی اہلکار نہیں آیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لوگوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے ملاقات کرکے انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کیا تھا اور انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مسائل حل کریں گے لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔
حکومت نے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں امدادی کام شروع کیا ہے لیکن یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ خاندان کتنے عرصے تک مشکلات کا شکار رہیں گے اور کب ان کی معمول کی زندگی بحال ہوگی۔