اس غريب مُلک اور قوم کے مال پر پلنے والوں بلکہ گُلچڑے اُڑانے والے کہاں کہاں ہيں اور کيا خدمتِ خلق کر رہے ہيں ؟
يہ سرکاری اعداد و شمار ہيں ۔ کسی نے پنجاب کو گالی دينا ہے تو ضرور دے [ميرے بابا يا چاچا يا ماموں کی حکومت نہيں ہے پنجاب ميں] ليکن پہلے اپنے گريبان کے اندر اور اپنی چارپائی کے نيچے اچھی طرح نظر مار لے
اسمبلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعداد اراکين ۔ ۔ ۔ وزراء و مشيران ۔ ۔ ۔ وزراء و مشيران فی
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100 اراکين اسمبلی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 342 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 19.00
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 371 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 16 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.31
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 168 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 70 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 41.67
خيبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ 124 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26.16
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72.30
سندھ حکومت نے اپنے بارہ مشیروں کو فارغ کردیا ہے اور اس فیصلے کے بعد مشیروں کی تعداد سترہ سے گھٹ کر پانچ رہ گئی ہے۔
فارغ ہونے والوں میں مشیر اطلاعات شرمیلا فاروقی، سابق مشیر اطلاعات جمیل سومرو، امتیاز شیخ، صدیق ابو بھائی، جہانگیر خانجی، ڈنشا انکل سریا، غلام قادر ملکانی، بابر لغاری، محمد کامران بھن، مفتی فیروز الدین ہزاروی، سردار عامر بھٹو اور وقاص ملک شامل ہیں۔
حکومتِ سندھ کا یہ فیصلہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مطابق ہے۔
عبدالمالک مگسی صاحب
تشريف آوری کا شکريہ اور اچھی اطلاع کا بھی شکريہ
ميں نے 12 مشير و سپيشل اسسٹنٹ وغيرہ گنے تھے ۔ اس حساب سے 7 کی کمی ہوئی ہے ۔ اتنا بھی بہت ہے ۔ اب فيصد تناسب 34.52 ہو گيا
پنجاب کو گالی صرف اسلئیے دی جاتی کہ میڈ ان لنڈن انقلاب کے راہ میں پنجاب عمودی رکاوٹ ہی نہیں بلکہ کراچی میں لنڈن مارکہ انقلابی مافیا کو لگام دینے کی بات کرتاہے۔ جب کہ جعلی انقلابی ویسے تو ساری دنیا کا درد سینے میں پالے بیٹھے ہیں اور پاکستان کی باقی قومیتوں کا ماں باپ بننے کو تیار بیٹھیں ہیں مگر صرف اس صورت میں جب انکے لنڈن مارکہ انقلاب کی صورت میں تمام زمام کار انھیں تھما کر ان کے سامنے دو زانو ہو کہ ٹیلیفونک مر ثئیے کان لگا سنیں جو کہ پاکستان کے غیور عوام، ایک کیو ایک کی مافیا سے آزاد مہاجرین سمیت اسے خلاف عقل اور فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ تو ایسے میں حمد و ثناء سے اپنا تاثر پیدا کرنے والے اچھی اچھی باتیں کہنے والے ، انقلاب انقلاب کا ورد کرنے والے۔ سارے پاکستان کا درد سینے میں پالنے والے۔ ایک دم اپنی اصلیت یعنی مغلظات پہ اتر آتے ہیں۔ کچھ نمونہ بارہ سنگھا فیملی انٹرنیت کے اردو بلاگز پہ پیش کرتی رہتی ۔ جو انکی دوغلی سوچ کا عشر عشیر بھی نہیں۔
جناب گوندل صاحب … پتا نہیں آپ پنجابی ہیں یا نہیں …
لکن یہاں تو کہیں MQM کا ذکر ہی نہیں ہوا تھا ،،،
پتا نہیں آپ لوگوں کو mqm سے ایسی کیا دشمنی ہے ……
میں MQM کو سپپورٹ نہیں کرتا … لیکن مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک دوسرے سے نفرت دیکھ کے یہ یقین ضرور ہو جاتا ہے کے ہم ایک قوم نہیں بلکہ مختلف نسلی گروہوں کا ہجوم ہیں … جس کے لئے دوسری نسل کے لوگ قبل نفرت ہیں … چاہے کوئی وجہ ہو ….. جیسے MQM کے لئے ایک وجہ ہے …… یا کوئی وجہ نہ ہو ….. جیسے بلوچ نہ قابل برداشت ہیں …
جناب بھوپال صاحب …
یہ ضرور کہوں گا کہ حکومت پنجاب اچھے کام کرنے میں باقی سارے صوبوں سے آگے ہیں ….
پہلے بھی آگے رہی تھی .. ابھی بھی آگے ہے …. اور اگر مقابلہ PPP ، ANP ی، MQM وغیرہ سے رہا تو آگے ہی رہے گی …..
لیکن اس میں ایک factor وسائل کی غیر مساوی تقسیم بھی ہے ….
لکن پھر بھی باقی حکومتیں موجودہ وسائل میں بھی کچھ نہیں کر پاتیں …. تو زیادہ لیکر کیا کر لیں گی ….
نعمان صاحب
باقی باتيں تو درست ہوں گی مگر “وسائل کی غيرمساوی تقسيم” کو ذرا واضح کيجئے مصدقہ اعداد و شمار کے ساتھ ۔ جو پچھلی مالی تقسيم ہوئی تھی اس ميں متفقہ فيصلہ کے بعد وفاقی حکومت نے سندھ کو اپنے حصے ميں سے 10 ارب روپيہ فاضل ديا تھا ۔ ٹيکس جو وفاقی حکومت وصول کرتی ہے ان کی شرح اسلام آباد اور باقی 3 صوبوں کی نسبت پنجاب ميں بہت زيادہ ہے