مندرجہ ذيل خبريں پڑھيئے اور اپنی قيمتی رائے کا اظہار کيجئے
لاہور ۔ امریکی قونصلیٹ سے منسلک امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس جمعرات کو اپنی گاڑی نمبر ایل ای جی 5445-10 پر کھانا کھانے کیلئے بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع ایک ہوٹل جا رہا تھا جب وہ قرطبہ چوک پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ دو موٹرسائیکل سوار جنہوں نے اپنے جسم کے ساتھ اسلحہ لگایا ہوا ہے اور جیسے ہی ان کی موٹرسائیکل امریکی باشندے کی گاڑی کے سامنے آئی تو ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک شخص موقع پر ہلاک ہوگیا اور دوسرا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال ميں چل بسا
ان میں سے ایک کی شناخت فیضان حیدر کے نام سے کی گئی اور وہ ٹمبر مارکیٹ راوی روڈ کا رہائشی تھا جبکہ اس کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ فیضان کبھی بھی ڈکیتی کے مقدمات میں ملوث نہیں رہا ہے ۔ شاہدرہ میں اس کا بھائی کچھ عرصہ قبل قتل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے فیضان اپنے پاس پستول رکھتا تھا وہ پستول لائسنس پر تھا
ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والا دوسرا نوجوان 17 سالہ مزدور فہیم شمشاد بیگم کوٹ کا رہائشی تھا ۔ اس کی شادی 6 ماہ قبل ہوئی تھی ۔ اس کی بیوی شمائلہ ہلاکت کا سنتے ہی بیہوش ہو گئی ۔ فہیم سیکورٹی گارڈ شمشاد علی کے 5 بیٹوں اور 2 بیٹیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ فہیم کے والد شمشاد اور بھائی وسیم کا کہنا ہے کہ فہیم کسی غلط کام میں ملوث نہیں تھا ۔ اسے بے قصور مارا گیا اور ان کے ساتھ انصاف کیا جائے
بعد ازاں امریکی باشندے ریمنڈ ڈیوس نے فوری طور پر امریکی قونصلیٹ کوا طلاع دی جس پر اس کی حفاظت کیلئے ایک گاڑی میں سوار امریکی قونصلیٹ کے دو افراد تیز رفتاری سے قرطبہ چوک کی طرف آنے لگے تو ٹریفک بلاک ہونیکی وجہ سے ڈرائیور نے گاڑی ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسری سڑک پر ڈال دی جس سے امریکی شہری کی گاڑی سامنے سے آنے والے موٹرسائیکل سوار سے ٹکرا گئی موٹر سائيکل سوار شدید زخمی ہوگیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال ميں چل بسا ۔
امریکی قونصلیٹ کی جس گاڑی کی ٹکر سے نوجوان عباد الرحمان جاں بحق ہوا اس پر جعلی نمبر پليٹ لگی تھی جس پر نمبر ایل زیڈ این 6970 لکھا تھا ۔ ذرائع کے مطابق یہ جس کار کا نمبر ہے وہ ساہیوال کے ایک شہری محمد ولدصوفی منور حسین کے نام رجسٹرڈ ہے
گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے موٹر سائیکل سوار عبادالرحمن کا تعلق گلشن راوی سے ہے ۔ وہ شاہ عالم مارکیٹ میں پلاسٹک کی بوتلوں کا کاروبار کرتا تھا اس کے سات بہن بھائی ہیں
موقعہ پر موجود لوگ مشتعل ہوگئے جنہوں نے اس گاڑی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو گاڑی میں سوار ایک شخص نے اپنی گن نکال لی جس سے لوگ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے
اس دوران سو سے زائد افراد موقع پر جمع ہوگئے جنہوں نے دونوں کاروں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کو روکا ۔ مشتعل ہجوم نے پرانی انارکلی تھانے کا گھیراؤ کیا اور امریکا اور پولیس کیخلاف نعرے لگائے اور ٹائروں کو آگ لگا کر ٹریفک بلاک کر دی
پولیس نے امریکی باشندے کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا
پولیس ذرائع کی ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ موٹر سائیکل سوار افراد نے امریکی شہری کو لوٹنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے فائرنگ بھی کی پولیس کو جائے وقوعہ سے دو پستول ملے ہیں جس میں ایک کی میگزین خالی جبکہ دوسرے کی میگزین میں گولیاں تھیں
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے واقعہ کی مکمل تحقیقات کا حکم دیدیا
لاہور میں امریکن کونسل خانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو 2 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے الزام میں آج عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی آر نمبر 48/11کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔ آج ریمنڈ ڈیوس کو ماڈل ٹاؤن کچہری میں سول جج کے سامنے پیش کیا جائے گا
ھم اپنے اپ کو بدنام زیادہ کرتے ھین، اصلاح کی طرف دھیان کم ہی دیتے ہیں۔ واقعے کی نشاندھی خوب کی گئی ہے۔
اسماء صاحبہ
درست کہا آپ نے کہ ہم لوگ خود اپنے آپ کو بدنام کرتے ہيں
جس طرح میڈیا پہ حالات کی نشاندہی کرکے امیریکی سفارت کار کوبے قصور ثابت کیا جا رہا ہے شاید سب کچھ ایسا نہیں ہے
بالکل صحیح ہے یہ بات کہ ہماری معمولی غلطیاں بھی قابل معافی نہیں
اور شاید امریکنز کے لئے یہ محاورہ ہے کہ سات خون بھی معاف ہیں –
یہ زمیں کی بہتری ہے، تن من ہر ایک لگادو
دنیا کے بیکسوں کو تدبیر حق سنادو
روٹی تو شے نہیں کچھ ، یہ غریب کو ہے دھوکہ
ہو غریب کی حکومت، اس کی ہوا چلا دو
سرمایہ دار کا تو سیدھا علاج اک ہے
حلقے غریب کے سب اس سے الگ ہٹادو
یہ طبقات کی جنگ ھے ایک طبقہ قانون سے بالاتر ھے اور دوسرے طبقے پر ہر قانون لاگو ھوتا ھے روٹی چور ڈاکو کہلاتا ھے اور کڑوڑوں روپئے لوٹنے والا دودھ کا دھلا بن جاتا ھے
اخباری اطلاعات کے مطابق امریکی شہری کے پاس واکی ٹاکی یعنی وائرلیس، ٹیلی فون، اور جائز یا ناجائز اسلحہ کی سہولت موجود تھی۔ اور وہ کسی جنگل یا ویرانے میں سفر نہیں کر رہا تھا بلکہ لاہور جیسے بڑے شہر میں اپنی گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی گاڑی کسی اور طرف کیون نہ بھگا لی؟۔ امریکی قونصل خانے اور پاکستانی پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے بذات خود قانون کو ہاتھ میں لینے کو کیوں جائز سمجھا؟۔ دو ڈاکو جو مسلح بھی تھے اور اچانک حملہ کر کے مد مقابل کو بد حواس کر دینے کا امر بھی ڈاکوؤں کے حق میں جاتا ہے۔ کہ ڈاکو ذہنی طور پہ واردات اور اسلحے کے استعمال کے لئیے پہلے سے تیار تھے۔ ایسے میں ڈاکوؤں کے اچانک چھاپ لینے سے مد مقابل بد حواس ہوجاتا ہے کہ وہ ذہنی طور پہ ایسی ناگہانی واردات کے لئیے تیار نہیں ہوتا تو بجائے ڈاکوؤں کی کوئی گولی امریکی شہری کو گزند پہنچاتی۔ الٹا امریکی قونصلیٹ کے ملازم نے دو پاکستانیوں شہریوں قتل کر ڈالا۔ امریکی قونصلیٹ کا ملازم، پاکستان جیسے ملک میں جہاں پاکستانی عام آدمی امریکہ کے حوالے سے خاصا جذباتی اور حساس ہو رہا ہے۔ وہاں ایک امریکی سرکاری و سفارتی ملازم اس وقت؟ اور ایسی جگہ پہ کیا کر رہا تھا؟۔ جب کہ امر یکی حکومت بالواسطہ یا بلاواسطہ اکثر و بیشتر اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر نہ کرنے اور اپنے شہریوں کو پاکستان میں محتاط رہنے کی ہدایات جاری کرتے ہیں۔ اسکی پوری تشہیر کرتے ہیں۔
سبھی قانونی تقاضے پورا ہونے چاہئیں۔ اگر تو دونوں پاکستانی شہری واقعتا بے گناہ تھے اور امریکی قونصل جنرل لاہور کے امریکی ملازم جسکے پاس نے محض اپنے شک کی بنیاد پہ ایک دوسرے ملک پاکستان میں قانون کو ہاتھ میں لیا ہے۔ اور اس بات کا بھی پتہ چلایا جانا ضروری ہے کہ وہ کس مقصد کے تحت وہاں گھوم رہا تھا۔ اسکے علاوہ موٹر سائکل پہ سوار مارے جانے والے تیسرے پاکستانی شہری کو روندنے والے امریکیوں کا بھی پتہ چلایا جانا ضروری ہے۔ مانا کہ ہم امریکن دہشت گردی کے خلاف ہروال دستہ ہیں مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان میں کوئی غیر ملکی یوں دندناتے ہوئے پاکستانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔
پاکستانی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئیے شفاف تفتیش ہونی چاہئیے۔ اگر پاکستانی شہری قصور وار تھے تو واضح کیا جانا چاہئیے اور اگر امریکی شہری قصوروار ہے تو بھی سب حالات عوام کو آگاہ کیا جائے۔ یہ خود امریکہ کے اپنے مفاد میں بھی بہتر ہے۔ تانکہ پاکستان میں ڈورون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ پاکستانیوں کی وجہ سے امریکہ مخالف بڑھتا ہوا رحجان شدت اختیار کر جائے امریکی اور غیر ملکی سفارتکاروں کو پاکستان میں کسی قانون قاعدے کا پابند کیا جانا ضروری ہے۔وہ امریکہ میں اپنے قوانین کی پابندی کرتے ہیں تو پھر پاکستان میں پاکستان کے قوانین کی پابندی کیوں نہیں کی جاتی؟
ذرا تصور کریں یہ واردات امریکہ میں ہوتی۔ مارنے والا پاکستانی ایمبیسی یا ہائی کمیشن کا کوئی ملازم ہوتا اور مرنے والے امریکی شہری ہوتے۔
تانکہ پاکستان میں ڈورون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ پاکستانیوں کی وجہ سے امریکہ مخالف بڑھتا ہوا رحجان شدت اختیار کر جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو اس جملے میں ۔۔۔ “نہ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے آجافے کے ساتھ یوں پڑھا جائے۔
تانکہ پاکستان میں ڈورون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ پاکستانیوں کی وجہ سے امریکہ مخالف بڑھتا ہوا رحجان شدت۔۔۔ نہ۔۔۔ اختیار کر جائے۔
کولیٹرل ڈیمیج ہے بھائی۔
حفاظت خود اختیاری کا حق بنیادی انسانی حق ہے اور دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ امریکی سفارت کار کو ویسے بھی ڈپلومیٹک امیونیٹی حاصل ہوگی سو زیادہ سے زیادہ اسے ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ اس کی جگہ کسی اور ملک کا سفارت کار ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جانا تھا۔
امریکی سفارت کار کو ویسے بھی ڈپلومیٹک امیونیٹی حاصل ہوگی۔خرم۔
@خرم! ویسے تو پاکستان میں ہر امریکی کو امیونٹی حاصل ہے۔ کہ ہم تو ٹہرے غلام پیشہ مگر مزکورہ شخص سفارتکار نہیں اور اسکے پاس اسلحہ بھی غیر قانونی تھا۔ اور وہ بغیر پیشگی اجازت یا اطلاع ایک ایسے علاقے میں موجود تھا جہاں جانے کا کی اس نے پاکستانی متعلقہ اداروں کو اطلاع نہیں دی تھی۔ اور پھر اس میں اسکی ناجائز اسلح کی گن سے دو پاکستانی شہریوں کو ناحق قتل کر ڈالا جبکہ پاکستانی اپنے ملک اور اپنے شہر میں موٹر سائیکل پہ جارہے تھے جہاں امریکی اور دیگر سفارتکاروں بشمول انکے ملازمین کو تو گھومنے کی اجازت نہیں مگر پاکستانی شہری بلا تغرض آزادانہ گھوم سکتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی شہری کا پستول وغیرہ جس سے موصوف امریکی “کُہندق” کھا گئے یعنی برہم ہو گئے ۔ وہ پستول لائسنس یافتہ تھا۔
اب صورت یوں بنتی ہے کہ ایک غلط جگہ پہ ۔ غیور قانونی طور پہ غلط طریقے سے ناجائز اسلحے سے لیس ایک غیر ملکی موجود تھا جس نے ایسے دو پاکستانی شہری مار ڈالے جو اپنے ہی ملک، اپنے شہر ہی شہر میں ایک ایسے علاقے میں جہاں پاکستانی شہریوں کو جانےکی ممانعت نہیں ۔ وہاں موجود تھے اور مار ڈالے گئے۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ پاکستانی حکومت اس امریکی سفارتکار کا کیس کیسے ہینڈل کرتی ہے۔۔۔
کیا اسے بھی ڈاکٹر عافیہ کی طرح عمر قید کی سزا دی جائے گی، جس پر امریکی فوجیوں پر”صرف” گولی چلانے کا الزام ہے۔۔۔ یا اسے بھی صدر پاکستان کی طرح امیونٹی حاصل ہے کہ تین قتل کے بعد بھی معافی مل جائے گی۔۔۔
اگر وہ کچھ ہوا جو پاکستانی عوام نہیں چاہتے تو یا انقلاب آنے کو ہے یا یہ بات کنفرم ہونے کو ہے کہ بس اب اور کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ہم مر چکے ہیں اور مرتے رہیں گے۔۔۔
عمران اقبال صاحب
مجھے اُميد ہے کہ پنجاب حکومت قانون سے ما وراء کوئی قدم نہيں اُٹھائے گی ۔ جس نے فائرنگ کر کے دو آدمی ہلاک کئے اُس کے خلاف قتل کی ايف آئی آر درج کرنے کے بعد آج اُسے عدالت ميں پيش کر کے 6 دن کا ريمانڈ لے ليا گيا ہے
جو آدمی موٹر سائيکل سوار کو ٹکر مار کر بھاگ گيا تھا اس کے خلاف بھی قتل کی ايف آئی آر کاٹی گئی ہے ۔ سُنا ہے کہ حکومت پنجاب نے امريکن کونسليٹ سے مانگ ليا ہے
خرم صاحب
اقوامِ متحدہ کی جنيوا کنوينشن کے مطابق ڈپلوميٹ کو بھی کرِمِنل کيس ميں اِميونِيٹی حاصل نہيں ہے ۔ مزيد يہ کہ اس شخص کے پاس ڈپلوميٹ کا ويزہ نہيں ہے بلکہ وِزِٹ ويزہ ہے ۔ البتہ امريکنی حکومت پورا زور اُسے حاصل کرنے کا لگا رہی ہے ۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ “پاکستان کے قانون کے مطابق کاروائی ہو گی”۔ اسلام آباد ميں کئی بار امريکيوں نے قانون کی صريح خلاف ورزی کی مگر اُنہيں کچھ نہ کہا گيا ۔ اب ديکھتے ہيں پنجاب حکومت کيا کرتی ہے
دولت اور طاقت کا قانون پاکستان مں نافذ ہے
اور اس کی پاسداری میں حکمران اور عوام سب مل کر اسے پروان چڑھا رہے ہیں
طارق راحيل صاحب
درست کہا آپ نے ۔ صرف حکومران نہيں عوام بھی اسے پروان چڑھا رہے ہيں