میں لیبیا میں پونے سات سال قیام کے بعد واپسی پر عمرہ کرکے یکم فروری 1983ء کو پاکستان پہنچا ۔ ان دنوں ہماری رہائش سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں تھی ۔ والدہ ماجدہ 1980 میں وفات پا گئی تھیں اور والد صاحب میرے چھوٹے بھائی کے پاس سعودی عرب میں تھے مگر ہم سے دو دن پہلے راولپنڈی پہنچ چکے تھے ۔ ہم نے والد صاحب کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ۔ اور میں روزانہ واہ میں اپنے دفتر راولپنڈی ہی سے جاتاآتا رہا ۔
والد صاحب کے حکم پر ہم اکتوبر 1984 میں واہ سرکاری کوٹھی میں چلے گئے اور میری سب سے چھوٹی بہن اپنے خاوند اور بچوں سمیت والد صاحب کے ساتھ رہنے لگی ۔ہم ہر ہفتہ وار چھٹی والد صاحب کے ساتھ راولپنڈی میں گذارتے اور روزانہ ٹیلی فون پر والد صاحب کی خیریت دریافت کرتے ۔ جون 1987ء میں ایک دن میں نے والد صاحب سے بات کی تو مجھے ان کی آواز میں معمولی سی لڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی ۔ میں نے اسی وقت اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں اور واہ ہی میں رہتی ہیں کو ٹیلیفون کیا اور تیار ہونے کو کہا ۔ میں میری بیوی اور باجی راولپنڈی گئے اور والد صاحب کو زبردستی واہ لے گئے (بوڑھوں کے لئے اپنا گھر چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے) ۔
میرا اندازہ ٹھیک تھا والد صاحب کو ہلکا سا سٹروک (برین ہیموریج) ہوا تھا ۔ علاج سے الحمدللہ وہ ٹھیک ہو گئے ۔ 1988ء میں میری ایک اور چھوٹی بہن جو اسلام آباد میں رہتی ہے خدمت کے جذبہ میں والد صاحب کو اپنے گھر لے گئی ۔ کچھ ماہ بعد والد صاحب کو پہلے سے زیادہ شدّت والا سٹروک ہوا اور میں پھر انہیں اپنے پاس واہ لے گیا ۔
ان دنوں واہ میں کوئی نیوروسرجن نہ تھا اس لئے علاج کے لئے میں انہیں ہفتہ میں ایک بار اسلام آباد لے کر آتا ۔ حالانکہ میری کار بہت آرام دہ تھی پھر بھی آنے جانے سے والد صاحب کو تھکاوٹ ہو جاتی تھی ۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی جو سرجن ہے وہ ان دنوں سکاٹ لینڈ میں تھا ۔ میں نے 1990 کی گرمیوں میں اسے ٹیلیفون کر کے ساری بات بتائی اور کہا کہ کمائی کافی ہو گئی اب آؤ اور اسلام آباد والے مکان میں رہو اور والد صاحب کو اپنے پاس رکھ کر ٹھیک طرح سے علاج کراؤ چنانچہ وہ اگلے ہی ماہ آ گیا اور سیٹیلائیٹ ٹاؤن سے سامان اسلام آباد شفٹ کر کے والد صاحب کو اسلام آباد لے آیا ۔
جون 1991 میں وہ کہنے لگا بھائی جان میں تو اسی طرح چھوڑ چھاڑ کر آ گیا تھا میری نئی گاڑی بھی وہاں ایسے ہی کھڑی ہے میں جاکر تین ماہ میں سب کچھ کلیئر کر کے آ جاؤں گا ۔ سو میں والد صاحب کو پھر واہ لے گیا ۔ والد صاحب کی صحت کافی کمزور ہو چکی تھی ۔ کھانا ہم ان کو اپنے ہاتھ سے ہی کھلاتے تھے ۔ 2 جولائی کو صبح میری بیوی ان کو ناشتہ کرانے لگی انہوں نے ناشتہ نہ کیا ۔ میں دفتر جانے کے لئے کار میں بیٹھا ہی تھا کہ میری بیوی بھاگتی ہوئی آئی اور مجھے بتایا ۔ میں والد صاحب کے کمرہ میں پہنچا ۔ مجھے والد صاحب بہت کمزور محسوس ہوئے چنانچہ میں دفتر نہ گیا اور والد صاحب کے پاس ہی رہا ۔
بارہ بجے کے قریب میں نے ہسپتال میں کئی جگہ ٹیلیفون کر کے اپنی بڑی بہن کو تلاش کیا اور والد صاحب کے متعلق بتایا ۔ ایک بجے وہ ہمارے گھر پہنچ گئیں ۔ سب جتن کئے گئے مگر والد صاحب بعد دوپہر دو بج کر بیس منٹ پر اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون ۔
چھوٹا بھائی سکاٹ لینڈ ۔اس سے بڑا سعودی عرب اس سے بڑا ابو ظہبی اور ایک بہن لاہور میں تھی سب کو اسی وقت ٹیلیفون کئے ۔ ایک بھائی دوسرے دن صبح سویرے پہنچا باقی سب اسی رات پہنچ گئے ۔ تین جولائی کی صبح والد صاحب کے جسد خاکی کو نیو کٹاریاں قبرستان میں ان کی وصیّت کے مطابق سپرد خاک کر دیا کیونکہ میری والدہ ماجدہ کا جسد خاکی بھی وہیں مدفون ہے ۔
والد صاحب نے اسلام آباد والے پلاٹ پر چار ملحقہ مکان بنوائے تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم چاروں بھائی اکٹھے رہیں سو الحمدللہ ہم نے ان کی خواہش پوری کی اور ماشاءاللہ چاروں بھائی اکٹھے رہ رہے ہیں ۔ کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہوتی ہے ۔