نامعلوم کيوں ميں اپنے وطن کے معاشرے ميں مدغم نہ ہو سکا ۔ ميرے لئے ميرے ارد گرد کا ماحول ناقابلِ فہم ہی رہا ۔ شايد مجھ ميں خامياں بہت زيادہ ہيں يا ميں کم علم ہوں يا ميں ترقی نہ کر سکا ۔ ميرے بہت کم دوست بنے ليکن اللہ کی مہربانی ہے کہ جو آدھی درجن حضرات ميرے دوست ہيں ان پر ميں بھروسہ کر سکتا ہوں کہ بوقتِ ضرورت ميرے کام آئيں گے اور کام آتے رہتے ہيں
آج جو کچھ ميں لکھنے جا رہا ہوں بھِڑوں کے چھتے ميں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہو سکتا ہے يا کم از کم تُند و تيز جملوں کا حملہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے ليکن ميں اپنے ہموطنوں کی صرف ايک عادت جو وہ کہيں بھی چلے جائيں عام طور پر ان کا پيچھا نہيں چھوڑتی کی صرف چند مثاليں نقل کر رہا ہوں
1 ۔ تين چار دوست جب اکٹھے ہوتے تو جو دوست موجود نہ ہوتا اس کی غلطياں بيان کی جاتيں اور اس پر تبصرے کئے جاتے اور اس کی بيوقوفيوں پر قہقہے لگائے جاتے ۔ اگر ان ميں سے ايک چلا جاتا تو جانے والے کے متعلق وہی کچھ کيا جاتا ۔ اور اگر کوئی اور آ جاتا تو وہ بھی اسی لايعنی گفتگو ميں شامل ہو جاتا
2 ۔ ايسی باتيں بڑے وثوق کے ساتھ بيان کی جاتيں ہيں جو عملی طور پر ممکن نہ ہوں
طرابلس لبيا ميں تھا تو ايک ہموطن سينيئر انجيئر صاحب نے کہا “يہ ليبی انتہائی بيوقوف لوگ ہيں ۔ ايک دن ميں نے ديکھا کہ ايک ليبی اپنی بند فيملی کار ميں اُونٹ بٹھا کر لے جا رہا تھا “۔ ميں نے ان سے کہا “پک اپ ميں ليجا رہا ہو گا”۔ مگر وہ مُصِر تھے کہ پيجو فيملی کار ميں لے کر جا رہا تھا [جو کہ ممکن ہی نہ تھا]
3 ۔ ايک ہموطن جو اعلٰی عہديدار تھے نے بتايا “يہ عرب بہت جاہل قوم ہيں ۔ ايک پاکستانی بنک ميں اکاؤنٹ کھلوانے لگا تو
اسے کہا “اسماء ثلاثہ”
اُسے سمجھ نہ آئی تو کسی نے بتايا کہ “اپنا ۔ اپنے باپ کا اور اپنے دادا کا نام بتاؤ”
اس نے کہا ” نويد سن آف”
تو عرب کہنے لگا “بس بس ہو گئے تين”
کچھ دن بعد مجھے اُسی بنک ميں جانے کا اتفاق ہوا تو ميں نے ديکھا کہ وہاں سب اہلکاروں نے ميرے ساتھ شُستہ انگريزی ميں بات کی
4 ۔ ميں مسجد نبوی ميں نماز کيلئے بيٹھا تھا کہ ايک ہموطن ميرے پاس آ کر بيٹھ گئے
تھوڑی دير بعد گويا ہوئے ” آپ کب سے يہاں ہيں ؟”
ميں نے بتايا “دو ہفتے کيلئے عمرہ کرنے آيا ہوں ۔ 5 دن گذر گئے ۔ 10 دن بعد واپس چلا جاؤں گا”
بولے “چھوڑيں جی ۔ سب ايسے ہی کہتے ہيں ۔ واپس کوئی نہيں جاتا ۔ ميں بھی عمرہ کرنے آيا تھا تين سال قبل”
5 ۔ جو ہموطن لبيا ۔ سعودی عرب يا متحدہ عرب امارات جاتے ۔ پاکستان آنے پر يا وہاں ملاقات ہو تو کہتے ” عرب بہت بُرے لوگ ہيں ۔ ميں تو اس سال کنٹريکٹ ختم ہونے کے انتظار ميں ہوں ۔ واپس چلا جاؤں گا”۔ مگر يہ سب حضرات بيس بائيس سال بعد ريٹائرمنٹ پر ہی وطن واپس آئے
6 ۔ ايک صاحب پاکستان ميں ايک دھوکا دہی ميں ملوث قرار ديئے گئے مگر قبل اسکے کہ انہيں فارغ کيا جائے ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ۔ لوگوں کو بتايا کہ متحدہ عرب امارت ميں ملازمت مل گئی ہے ۔ ايک سال بعد انگريزی سوٹ پہنا ہوا اور ہاتھ ميں بريف کيس پکڑے ادارے ميں آئے اور کسی کو بتايا پچاس لاکھ روپيہ جمع کر ليا ہے کسی کو کچھ بتايا اور انہيں پاکستانی سرکار کی نوکری کے طعنے دے کر چلے گئے ۔ کچھ ماہ بعد ميرا سابقہ ماتحت افسر اور سکول کے زمانہ کا ہمجماعت جو تين سال کی چھٹی لے کر متحدہ امارات ميں ملازمت کر رہا تھا واپس آيا ۔ وہاں کے حالات کے متعلق بات کرتے ہوئے متذکرہ بالا افسر کا بھی ذکر کيا کہ “بے چارہ بُرے حال ميں تھا ہموطنوں نے مدد کی اور واپسی کا ٹکٹ خريد کر ديا”
7 ۔ جو ہموطن دساور ميں ملازمت وغيرہ کر کے آتے ہيں کوئی وہاں کی تعرفيں کرتے نہيں تھکتا اور بتاتا ہے کہ وہ وہاں بادشاہ ہے اور کوئی وہاں کی برائياں بيان کرتے نہيں تھکتا ۔ بہت کم ايسے ہيں جو اصل صورتِ حال بتاتے ہيں
8 ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے وطن سے باہر درجن بھر ممالک ميں رہنے کا موقع ديا ۔ وہاں ديکھا کہ جہاں دو چار ہموطن اکٹھے ہيں وہ ايک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہيں ۔ جبکہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ ايک دوسرے کی مدد کرتے نظر آئے ۔ ميں نے 1975ء میں متحدہ عرب امارات ميں ديکھا تھا کہ بھارت سے آئے لوگوں نے ايک ايسوسی ايشن بنا رکھی تھی ۔ جو نيا شخص بھارت سے آتا روزگار ملنے تک اس کا کھانا پينا رہنا اور اس کے روزگار کيلئے کوشش کرنا اس ايسوسی ايشن کے ذمہ ہوتا ۔ جب وہ برسرِ روزگار ہو جاتا تو وہ بھی اپنی آمدن کا شايد 5 فيصد اس ايسوی ايشن کو دينے لگ جاتا
9 ۔ تمام ممالک کے سفارتخانے اپنےملک کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہيں ۔ ان کے برعکس ہمارے سفارتخانوں کے متعلق کچھ ہموطنوں نے کہا “بھارت کے سفارتخانہ جانے کيلئے ويزہ نہيں لينا پڑتا مگر اپنے سفارتخانہ ميں جانے کيلئے ويزہ کی ضرورت ہے”
10 ۔ ہموطنوں ميں کسی کو تنگ کرنا يا چھيڑنا يا اس کے خلاف افواہيں پھيلانا عام طور پر شايد عقلمندی کی علامت سمجھا جاتا ہے
11 ۔ دوسرے کا حق مارنے يا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا ہموطنوں ميں شايد ذہانت سمجھا جاتا ہے
12 ۔ وعدہ کر کے نہ نباہنا شايد مہارت اور ہوشياری سمجھا جاتا ہے
13 ۔ راہ جاتی جوان لڑکيوں کو چھيڑنا يا ان پر آواز کسنا کئی جوان لڑکے اور مرد شايد اپنا حق سمجھتے ہيں ۔ ميں نے صرف کراچی ميں جوان لڑکيوں کو نو وارد لڑکوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ديکھا ۔ دسمبر 1960ء ميں ڈی جے سائنس کالج کی طالبات نے مجھے گھير ليا اور فرسٹ ايئر کا طالب علم سمجھ کر بيوقوف بنانے کی کوشش کی ۔ ميں اُن کی باتيں سُن کر محظوظ ہوتا رہا پھر ميں نے کہا “آپ نے مجھے اپنے پرنسپل صاحب کے دفتر کا راستہ بتانے کی پيشکش کی ہے بہت شکريہ مگر اس وقت مجھے اپنے ہمجماعت لڑکوں سے ملنا ہے جو اين ای ڈی انجنيئرنگ کالج ميں ٹھہرے ہيں”۔ يہ کہتے ہی جھُرمٹ چھَٹ گيا ۔ اس کے بعد ميں نے 1984ء ميں کراچی يونيورسٹی ميں ايک نوجوان لڑکے کے ساتھ لڑکيوں کا حُسنِ سلوک ہوتے ديکھا۔ وہ بيچارہ پريشان تھا کيونکہ اُسے بھاگنے بھی نہيں ديا جا رہا تھا
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » ہم ۔ ۔ ۔ يا ۔ ۔ ۔ ہم ہی ہم -- Topsy.com
آپ نے، اپنے ہموطنوں کا چھوٹتے ہی انٹرویو لینے کا ذکر نہیں کیا۔ جو کچھ یوں ہوتا ہے۔
بھائی صاحب کیا نام ہے؟
کیا کرتے ہیں؟
تنخواہ کتنی ہے؟
اچھا تنخواہ نہیں لیتے اپنا بزنس ہے، تو کتنا کما لیتے ہیں؟
ملازم نہیں چاہئیے؟
پاکستان میں کہاں کے رہنے والے ہیں؟
یہ جگہ کہاں پہ واقع ہے؟
اور اسطرح کے سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے۔ آپ کسی ضروری کام سے ہین آپ کے پاس وقت نہیں مگر آپ کو زبردستی دیر کروا دیں گے۔ اگر دلچسپی سے جوابات نہ دئیے جائیں تو برا مان جاتے ہیں۔
ایک علت اور بھی بہت ہے کہ بغیر بتلائے اور پیشگی اطلاع ، کہیں بھی آپ کو گھیر لیں گے ۔ کہ بھائی صاحب ہمارا یہ کام تو کروا دیں ۔۔۔بس یہ ہمارا کام بہت ضروری ہے۔ اور کوئی کروانے والا نہیں ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر کسی وجہ سے ان سے معزرت کر لیں تو برا مان جائیں گے۔
کاغزات اور اپنی انتہائی اہم دستاویزات میں ہیر پھیر کریں گے اور آفیسر متعلقہ خواہ کوئی پاکستانی آفیسر ہی کیوں نہ ہو ۔ اس سے بضد ہوں گے کہ ان کے ساری دستاویزات درست ہیں۔ جب دستاویزات جعلی ثابت ہوجائیں تو سفارز ڈھونڈنے نکل پڑیں گے۔ کوئی شناسا کہیں بھی مل جائے اسے اسی وقت سفارش کے لئیے ساتھ جانے پہ بضد ہونگے۔اصل واقع سے آپ کو کبھی آگاہ نہیں کریں گے۔ آپ کو ساتھ لے جائیں گے ۔ متعقلہ اتھارٹی یا آفیسر مجاز سے ان کے کیس پہ بات کی جائے تو وہ اصل واقع پتہ چلنے پہ الٹا آپ کو شرمندگی ہو گی۔
مگر پھر بھی میں نے ہمیشہ خود بھی اور اپنے جاننے والوں سے بھی ایسے لوگوں کی مدد کرنے کی استدعا کی ہے۔ کیونکہ ان بے چاروں کا بھی کوئی قصور نہیں۔ پاکستان میں اکثریت جو نابلد ہے اور جس کے بارے ریاست کا کوئی ادارہ ماں کا کردار کرنے کو تیار نہیں۔ وہ جیسے تیسے باہر کے ممالک میں پہنچ جاتی ہے۔ اور اکچریت نہایت پر امن اور جانفشانی سے محنت کرتی ہے کہ مقامی لوگ بھی انکے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کو پاکستان کی وگرگوں معاشی حالت کے لئیے قیمتی غیر ملکی سرمایہ بلا قیمت مہاء کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا معیار زندگی بھی بلند کرتے ہیں۔
پاکستان سے باہر جس جس کو جہاں جہاں مناسب ماحول، موسم اور نمی میسر آجاتی ہے وہیں پہ تناور درختوں کی طرح جڑیں پکڑ لیتے ہیں۔ جس میں پاکستانی حکومتوں کو آنے بہانے سے ایسے لوگوں کو لوٹنے کے علاوہ کوئی کام یا کردار نہیں۔
جاويد گوندل صاحب
آپ نے يہ پہلو درست اُجاگر کيا ہے ۔ يہ ميرے علم ميں بھی ہے اور يہ وہ خصلت ہے جو کہ کئی لوگوں کی مجبوری بن جاتی ہے ملکی حالات اور غلط مشوروں کی وجہ سے ۔ لوگ پيٹ بھرنے کی خاطر اس ميں مبتلاء ہوتے ہيں اور بعد ميں محنت سے روزی کماتے ہيں ۔ مگر ميں نے اس تحرير ميں صرف ايک خاص پہلو کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ درست نہيں ہو پا رہا ۔ 1967ء ميں جرمنی ميں پاکستان کے سفير عبدالرحمٰن خان صاحب سے اس موضوع پر پہلی بار بات ہوئی تھی ۔ وہ اچھے آدمی تھے ۔جہاں تک ہو سکتا غريب پاکستانيوں کی مدد کرتے ۔ اس کے بعد جب ميں 1976ء سے ساڑھے چھ سال ليبيا ميں اپنی حکومت کی طرف سے آنريری چيف کوآردینيٹر رہا تو سرکاری کے علاوہ سفير صاحب نے غير سرکاری طور پر وہاں پہنچے ہوئے پاکستانی باور ان کے تمام معاملات بھی ميرے ذمہ لگا ديئے ۔ اس عمل نے مجھے بہت سے حقائق س روشناس کرايا ۔ اللہ نے اتنی عزت بخشی کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز پاکستانی مجھ سے مدد لينے کيلئے آتے رہتے تھے
میں پچھلے ٥ پانچ سال سے یورپ میں ہوں …
لیکن مجھے کوئی ایسا پاکستانی نہیں ملا جو اوپر بتاۓ ہوئے کام نہیں کرتا ہو …
یہ جو لوگ تبصرہ کر رہے ہیں …… یہ سب بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے … فرق یہ ہے کہ اپنی غلطی محسوس نہیں ہوتی …
ہن کچھ استثنیٰ بھی ہوتا ہے ….
رہی پاکستانیوں کی آپس میں مدد نہیں کرنے والی بات یہ تو بہت محسوس ہوتی ہے اور برا بھی لگتا ہے ……
آج ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا جہاں کچھ دوسری قوموں کے لوگوں کے ساتھ پاکستانی بھی تھے …. لیکن انڈین انڈین سے بات کر رہا تھا اور باقی سب بھی ایسے ہی تھے سواۓ پاکستانی کے سب ایک دوسرے سے کترا رہے تھے …حال آنکہ سب ا علیٰ تعلیم یافتہ تھے …
بہت دکھ ہوتا ہے ایسا رویہ دیکھ کے
محمد نعمان صاحب
ميرے ساتھ اتفاق کرنے کا شکريہ ۔ ميں نے اپنے ساتھ بيتے واقعات کی صرف چند مثاليں دی ہيں ۔ درست کہ پڑھے لکھوں کی بات ہو رہی ہے ۔ اَن پڑھ پاکستانيوں کو ميں پڑھے لکھوں کی نسبت بہتر پايا