اطلاع ۔ آج کی تحرير ميں جنگِ 1965ء اور کشمير ميں مداخلت کے متعلق مصدقہ حقائق يکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ميری 15 سال کی محنت اور مطالعہ کا نچوڑ ہے
خیال رہے کہ 1965ء تک کشمیر کے لوگ بآسانی جنگ بندی لائین عبور کر لیتے تھے ۔ میں 1957ء میں پلندری میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دو جوان سرینگر میں دکھائی جارہی فلم کے متعلق بحث کر رہے تھے میرے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ پچھلے اتوار کو فلم دیکھ کر آئے ہیں ۔ میں نے یقین نہ کیا تو دو ہفتے بعد وہ نئی فلم دیکھنے گئے اور واپس آ کر سرینگر کے سینما کے ٹکٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ میں نے اچھی طرح پرکھا ٹکٹ اصلی تھے سرینگر کے سینما کے اور ایک دن پہلے کے شو کے تھے
آپریشن جبرالٹر 1965ء کے متعلق جموں کشمیر بالخصوص مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے خیالات مختصر طور پر قلمبند کرتا ہوں
آپریشن جبرالٹر اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ یہ سول سروس کے لوگ تھے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے آفیسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ پاکستان کی خدمت اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل میں مقبول بٹ پہلے پاکستان میں پکڑا گیا لیکن بھارتی ہوائی جہاز “گنگا” کے اغواء کے ڈرامہ کے بعد نامعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مجاہد بنا کر رہا کروا لیا مگر بعد میں وہ لندن میں گرفتار ہو کر بھارت پہنچا اور اسے سزا ہوئی ۔ اس کے پیروکار اسے شہید کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جے کے ایل ایف بنائی ۔ مقبول بٹ کے بعد اس کا صدر امان اللہ بنا ۔ مقبوضہ کشمیر والی جے کے ایل ایف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
خیر متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے آفیسران کو باور کرایا کہ جموں کشمیر کے لوگ بالکل تیار ہیں ۔ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے تمام مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے نام نہاد مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ نجانے پھر نومبر 1947ء کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے چنانچہ انہیں پناہ نہ دی نہ ان کا ساتھ دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو بات سمجھتے بہت دن لگے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا
جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گیا تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتا تھا
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رک جانے کا حُکم مل گیا ۔ اگر منصوبہ کے مطابق پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد پر قبضہ کر لیتے اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھا ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا
آپریشن جبرالٹر کے متعلق کچھ واقف حال اور ماہرین کی تحریروں سے اقتباسات
سابق آفیسر پاکستان پولیس جو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون میں ریسرچ فیلو اور ٹَفٹس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اُمیدوار تھے کی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” سے :
ترجمہ: جب وسط 1965ء میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965ء کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں علاقہ میں طاقت کا توازن کتنی تیزی سے بھارت کے حق میں مُنتقِل ہو رہا تھا ۔ اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ لے کر گفت و شنید کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں ساری جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ پھر بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اس طرح مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965ء کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائیں عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑا حملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستوں پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھاتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی اور بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمانڈ بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔
پرانے زمانہ کے ایک بریگیڈیئر جاوید حسین کے مضمون سے اقتباس
ترجمہ: “جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبصہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965ء میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پلان کے پہلے حصّہ کا یہ حشر ہوا ”
جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965 کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی” ۔
ايئر مارشل ريٹائرڈ محمد اصغر خان نے اپنی کتاب “My Political struggle” ميں لکھتے ہيں
In 1965 Zulfikar Ali Bhutto, at the time Ayub Khan’s foreign minister, had advised the president to embark upon a military adventure by launching an armed attack in the Indian-held part of Jammu in the Akhnur sector. This he said was based on the foreign-office assessment that India would not react by attacking Pakistan. Ayub Khan had accepted this assessment and the attack was launched on September 1. He was therefore totally unprepared for the Indian attack that took place on the early morning of September 6 in the Lahore sector of Punjab. Bhutto’s logic, with which Ayub Khan agreed, was that Pakistan would thus cut off India’s road-link with Srinagar and be in a position to capture most of Jammu and Kashmir without having to resort to an all-out war with India. Although I had by then relinquished command of the Pakistan Air Force, I asked to see President Ayub Khan on the morning of September 3 and expressed my opinion that India would react by launching an attack in Punjab, if we continued with our action in the Akhnur sector of the Indian-held territory of Jammu and Kashmir. I was amazed when the president expressed his conviction that India would not do this and said that Zulfikar Ali Bhutto had assured him that there was no such possibility.
Bhutto was too shrewd a person to really believe that India would not react and one is therefore left with the inevitable conclusion that he thought that India would react in an all-out offensive and thought that a military defeat would result. He thought that he could then make some arrangement with the Indian leadership and take over from Ayub Khan. In a conversation that I had after the 1970 elections with Abdul Hamid Khan Jatoi, an eminent People’s Party leader of Sindh, I was told that after the success of the PPP in the 1970 elections, he had asked Bhutto what he proposed to do to curb the power of the armed forces in national affairs. He told me that Bhutto had replied, “Don’t worry about that. By the time I have finished with them they will be fit only for Guards of Honour.” Earlier in 1969, after being released from prison when he had asked me to join his ‘Pakistan People’s Party’, I had wanted to know what his programme was. He had replied in all seriousness that the people are fools and his programme is to make a fool of them. He had said, “Come join with me and we will rule together for at least twenty years. No one will be able to remove us.”
نيچے پاکستان کے ايک سابق پوليس آفيسر حسن عباس کی کتاب
” Pakistan’s Drift Into Extremism: Allah, The Army, And America’s War On Terror ”
۔ حسن عباس نے جب يہ کتاب لکھی ہارورڈ لاء سکول ميں ريسرچ فيلو [Research fellow at the Harvard Law School]
اور فليچر سکول آف لاء اينڈ ڈپلوميسی ٹفٹس يونيورسٹی سے پی ايچ ڈی کے اُميدوار تھے [Ph. D candidate at the Fletcher School of Law and Diplomacy, Tufts university]
“When the Pakistan Army inflicted a short, sharp reverse on the Indians in the Rann of Kutch in mid-1965, Ayub’s spirits got a boost.
Bhutto, in his letter to Ayub of May 12, 1965, drew his attention to increasing Western military aid to India and how fast the balance of power in the region was shifting in India’s favor as a result. He expanded on this theme and recommended that “a bold and courageous stand” would “open up greater possibility for a negotiated settlement.”
Ayub Khan was won over by the force of this logic, and he tasked the Kashmir Cell under Foreign Secretary, Aziz Ahmed, to draw up plans to stir up some trouble in Indian-held Jammu and Kashmir, which could then be exploited in Pakistan’s favor by limited military involvement.
The Kashmir Cell was a ondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the12th Division of the Pakistan Army. This division was responsible for the defense of the entire length of the Cease-fire Line (CLF) in the Kashmir region.
The plan of this operation (Gibraltar) as finalized by General Akhtar Malik and approved by Ayub Khan was to infiltrate a sizable armed force across the CFL into Indian Kashmir. Later, grand slam was to be launched. This was to be a quick strike by armored and infantry forces from the southern tip of the CFL to Akhnur, a town astride the Jammu-Srinagar Road. This would cut the main Indian artery into the Kashmir valley, bottle up the Indian forces there, and so open up a number of options that could then be exploited as the situation demanded. Having no reserves for this purpose, General Akhtar Malik decided that the only option for him was to simultaneously train a force of Azad Kashmiri irregulars (mujahids) for this purpose. Operation Gibraltar was launched in the first week of August 1965, and all the infiltrators made it across the CFL without a single case of detection by the Indians. The pro-Pakistan elements in Kashmir had not been taken into confidence prior to this operation, and there was no help forthcoming for the infiltrators in most areas. Overall, despite lack of support from the local population, the operation managed to cause anxiety to the Indians, at times verging on panic. On August 8 the Kashmir government recommended that martial law be imposed in Kashmir. It seemed that the right time to launch operation Grand Slam was when such anxiety was at its height. But it was General Akhtar Malik’s opinion that this be delayed till the Indians had committed their reserves to seal off the infiltration routes, which he felt was certain to happen eventually. On August 24, India concentrated its forces to launch its operations in order to seal off Haji Pir Pass, through which lay the main infiltration routes. By early afternoon of the first day (September 01, 1965) all the objectives were taken, the Indian forces were on the run, and Akhnur lay tantalizingly close and inadequately defended. “At this point, someone’s prayers worked” says Indian journalist, MJ Akbar: “An inexplicable change of command took place.”Loss of time is inherent in any such change . . . . And this was enough for the Indians to bolster the defenses of Akhnur and launch their strike against Lahore across the international frontier between the two countries. This came on September 6 while the Pakistani forces were still three miles short of Akhnur.
When the Special Service Group (SSG), the army’s unit that specializes in special operations, was taken into confidence, they pointed out that the Kashmiri Muslims would cooperate only when they were assured of protection against the inevitable Indian retribution. However, when it became clear that the planners’ belief in their plan had blinded them to the faults in it, the SSG warned, them in writing that the operation as planned would turn out to be Pakistan’s Bay of Pigs. The Kashmir Cell was a nondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the 12th Division of the Pakistan Army. On the night of August 5/6 1965, 5,000 lightly armed men slipped across the ceasefire line into occupied Kashmir from multiple points. They were the hastily recruited and trained Azad Kashmir civilians with a sprinkling of Azad Kashmir and Pakistani soldiers. They were the Gibraltar Force. In the early stages of the operation, while the surprise lasted, they conducted a series of spectacular raids and ambushes, which caused great alarm and trepidation in the Indian high command. Then the expected happened. Indian retribution against Muslim villages was swift and brutal; as a result, the locals not only refused to cooperate with the raiders but also started to assist the Indian forces to flush them out. Suddenly, from hunters the raiders had become the hunted. To make matters worse, the Indian forces went on the offensive capturing Kargil, Haji Pir pass and Tithwal and threatening Muzaffarabad.
With its fate sealed, the Gibraltar force disintegrated within three weeks of the launch and its few survivors limped back to Azad Kashmir hungry, tired and defeated. Phase-I of the field marshal’s plan had backfired.
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » آپریشن جبرالٹر اور دوسری جنگ بندی -- Topsy.com
اس سے بیشتر امریکن سی آئی اے نے انتہائی ناقص معلومات کی بناء پہ نے کیوبا کے فیڈل کاسترو کا تختہ الٹنے کے لئیے کچھ کیوبن باغی لوگوں کو معمولی اور تربیت اور اسلحہ دے کر ایک غیر فطری آپریشن کے لئیے بے آف پگز میں اتارا تھا۔ جہاں کاسترو کے فوجی دستے انکا انتظار کر رہے تھے۔ جہاں سی آئے کے تربیت یافتہ اور سی آئی کے ورغلاوے میں آئے ہوئے باغی کیوبن لوگوں کا حشر نہائت عبرتناک ہوا تھا۔ اسی بناء پہ ایس ایس جی یعنی اسپیشل سروسز گروپ نے کسی ایسے آپریشن کی معقول تیاری نہ ہونے کی وجہ سے آپریشن جبرالٹر کی مخالفت کی تھی اور اسے بے آف پگز سے تشبہہ دی تھی کہ جانوں کا نقصان ہوگا اور ممکنہ مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔
اس زمانے کے ایک مشہور کردار ایک کرنل طارق کے فرضی نام سے مشہور ہوئے۔ ۔طارق ایک فرضی نام تھا۔ جنہیں کچھ افراد کے ساتھ آپریشن جبرالٹر کی تیاری کے لئیے مقبوضہ کشمیر بیجھا گیا۔ مقبوضہ میں مقامی معاونت کے لئیے جن دس افراد کی فہرست تھمائی گئی۔ ان دس افراد میں سے تین کے پتے غلط تھے ۔ باقی کچھ نمبردار وغیرہ کے قسم کے غیر متعلقہ لوگ تھے، معلومات یا تو غلط تھیں یا انتہائی ناقص۔ الغرض کرنل طارق اور انکے ساتھیوں کو پھنسانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی گئ۔ انھیں وہاں محض زندہ رہنے کے لئیے غذا کے حصول کے لئیے غیر معمولی اقدامات کرنے پڑے۔اور وہ نہائت مایوس اور بڑی مشکل سے واپس آئے۔
کچھ لوگوں نے آپریشن جبرالٹر کی ناقص منصوبہ بندی اور جان بوجھ کر آپریشن جبرالٹر میں مبینہ غفلت اور ناکامی کی منصوبہ بندی کے راز کو ایک مختلف پس منظر میں بیان کیا ہے۔ دراصل جنرل ملک کی جنرل ایوب خان کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ایوب خان سے ممکنہ بغاوت کے بعد جنرل ملک کی خود کو پاکستان کے نئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پہ پیش کرنے کے لئیے جنرل ملک آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کا ملبہ یوب خان پہ دالتے ہوئے۔ ایوب خان کی ناقص حکمت عملی کے طور پہ اپنے حق میں کئیش کروانا چاہتے تھے۔ اس ساری مہم میں جنرل اختر ملک اور کچھ دیگر جنرل بھی شامل تھے اور جنرل ملک کی اہلیہ کا اس سزاش کے تاے بانے بننے میں اور کچھ جرنیلوں کو جنرل اختر ملک کے ساتھ اکھٹا کرنے میں بنیادی کردار تھا۔ یہ کچھ ایسی ہی سازش تھی جیسی جنرل مشرف نے بعین اسی طرح کرگل وغیرہ پہ چڑھائی کر کے نواز شریف کی حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا۔
یہ ایک الگ موضوع ہے کہ جنرل ایوب خان کو اس سازش کا بروقت پتہ چل گیا اور یہ سازش پکڑی گئی اور اسے ناکام بنا دیا گیا۔ تب سے پاک فوج میں سنئیر رینک کے جرنیلوں میں “ملک” قبیلے کے جرنیل نظر نہیں آتے۔آپریشن جبرالٹر ایک بے مقصد اور فوجی و سیاسی نقطعہ نظر سے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔
بات صرف آپریشن جبرالٹر پہ نہیں رکتی بلکہ پاکستانی افواج کا چھمب جیسی بند وادی میں گھسنا جس کے آگے ناقابل تسخیر عمودی پہاڑ ہیں جن پہ بھارت کے پیرا ماونٹین فوجی دستے پاکستانی فوج کی نسبت فوجی حکمت عملی کی نسبت سے ھزار گنا بہتر پوزیشنز پہ تھے۔
انیس سو پینسٹھ میں سیالکوٹ سیکٹر پہ جموں کھٹوہ روڈ جو بھارت کی مقبوضہ کشیر کے لئیے واحد زمینی سپلائی لائن ہے۔ جو سارا سال کھلی رہتی ہے۔فوجی لحاط اس سپلائی لائن کو فوجی نکتہ نظر سے ممکن ہونے کے باوجود نہ کاٹا جانا وغیرہ۔ قادیانی جرنیلوں کی مبینہ غفلت اور بی آر بی کے اس پار پاکستانی جونئرز افسران اور جوانوں کے یونٹس کا متواتر دودن تک بغیر کسی کمک کے سر دھڑ کی بازی لگا کر بھارتی فوج کو روکے رکھنا۔جس میں پاک آرمی کے کئی یونٹس مکمل طور پہ گوشت کی بوٹیوں میں بدل گئے۔ جن کا نام و نشان نہ رہا یہ ان کے خون اور شہادت تھی جو بھارتی فوج کا لاہور پہ قبضے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
کچھ محقیقن اسے پاکستان کے مشرقی بازو کو انیس سو پینسٹھ میں ہی الگ کر دینے کی سازش قرار دیتے ہیں جس میں مبینہ طور پہ کچھ پاکستانی عناصر کی رضا مندی شامل تھی۔لاہور اور پاکستان کی کچھ اہم علاقون کے بدلے میں مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کی عملادستبرداری شامل ہوتی۔ جو بہر حال چھ سال بعد الگ کر دیا گیا۔ کیونکہ مغربی پاکستان میں فوجی حکمت عملی کے طور پہ یہ تصور تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ اگر بھارت مشرقی پاکستان میں شرارت کرتا ہے تو اسکا جواب مغربی پاکستان کی سرحدوں سے بھارت کو جوابی کاروائی کر کے دیا جائے گا۔
چھ ستمبر کی رات اقوام متحدہ کے کچھ لوگ بھارت سے بائی روڈ لاہور کے لئے پاکستان آئے انھوں ٹینکوں کی نقل حرکت کرتے چینوں کی آوازیں سنیں تو انھیں مبینہ طور پہ پاکستانی ٹینکوں کی آوازیں اور پاکستان کی طرف سے فوجی نقل و حرکت سمجھا اور پاکستانی فوجی اہلکاروں سے اس بارے استفسار کیا۔پاکستانی فوجی اہلکاروں کے کان کھڑے ہوئے۔ کانوں کان خبر آگے منتقل کی گئی۔ ہر طرف ٹیلی فون کھڑکھائے گئے۔ فوج بیرکوں اور کیمپوں میں سو رہی تھی۔ جو جوان جس حالت میں تھا وردی یا بغیر وردی کے چل پڑا۔ جوں جوں یونٹوں کو خبر ملی وہ فورا نعرے لگاتے محاذ کو روانہ ہوگئے۔ پہلے چند دن آپس کے رابطے اور ایک مکمل نظم کے بغیر گزرے۔فوج کے کلیدی عہدوں پہ فائز قادیانی افسروں نے فوجی حکمت عملی اور دفاع پاکستان کے خلاف اقدام کئے۔
مغربی پاکستان میں تقریبا سبھی محاذوں پہ فوج نے اسلحے اور تعداد میں کمتر ہونے کے باوجود اپنی جانیں دے کر بھارتی فوج کا غیر اعلانیہ حملہ پسپا کیا اور کچھ بھارتی علاقہ فتح کیا۔
اسکے باوجود ہم نے کچھ نہ سیکھا تقریبا چھ سال بعد مشرقی پاکستان الگ کر دیا گیا۔ اور بدستور ہم آنکھیں بند کئے فال نکالنے والے طوطوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ان پہ یقین کئے بیٹھے ہیں۔
جاويد گوندل صاحب
آپ ماشاء اللہ باعلم شخص ہيں ۔ ميں چونکہ جموں کا رہنے والا تھا اسلئے اس سلسلہ ميں بہت مطالعہ کيا ۔ ميں لاہور ۔ چونڈہ اور چھمب جوڑياں کے محاذ پر لڑنے والے جونيئر افسروں سے ملا اور صورتِ حال دريافت کی ۔ ميں چونکہ محکمہ دفاع ميں تھا اسلئے مجھے معلومات حاصل کرنے ميں دوسرے لوگوں کی نسبت آسانی تھی ۔ بہت سی ايسی باتيں ہيں جو مجھے اپن سرکاری حيثيت کی وجہ سے معلوم ہوئيں جنہيں ميں اپنی زبان پر نہيں لا سکتا ۔
کٹھوعہ روڈ کو نہ کاٹنا ۔ اکھنور کی طرف پيش قدمی کو روکنا يہ سب ايوب خان کے خلاف بلکہ پاکستان کے خلاف سازش تھی جس ميں مرزائی بريگيڈيئر اور جرنيل شامل تھے اور ذولفقار علی بھٹو ان کا ليڈر تھا ۔ سازش کامياب ہونے کو تھی مگر چھ ستمبر کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ايوب خان خود آپريشن روم ميں بيٹھ کر ہدايات دينے لگ گيا اور پھر عوام کو مظاطب کرتے ہوئے اللہ نے اُس کے منہ سے وہ کلمے نکالے جو ايک مسلمان کے منہ سے نکلتے ہيں ۔ “ہماری فوجيں جن کے لبوں پر کلمہ لا الہ الاللہ کا ورد ہے سرحدوں کی طرف روانہ ہو گئی ہيں “۔
خدا کا خوف ہی کر لیں جناب۔ جنرل اختر ملک کی حب الوطنی کی گواہی ان کے سارے ہم عصر دیتے ہیں۔ ان کا ایک خط پیش ہے۔ ذرا بتائیں کہ یہ کون سی سازش اپنے بھائی سے شیئر کر رہے ہیں۔ ان کے بھائی، عبدالعلی ملک بھی پاک فوج کے ہیرو اور فاتح جرنیل تھے۔ انہوں نے بھی بھارت کو ایک قدم بڑھنے نہیں دیا۔
Pakistan’s Permanent Military Deputy
Embassy of Pakistan
Ankara
23-11-67
My Dear brother,
I hope you and the family are very well. Thank you for your letter of 14 Oct. 67. The answers to your questions are as follows:
a. The de facto command changed the very first day of the ops [operations] after the fall of Chamb when Azmat Hayat broke off wireless communications with me. I personally tried to find his HQ [headquarters] by chopper and failed. In late afternoon I sent Gulzar and Vahid, my MP [military police] officers, to try and locate him, but they too failed. The next day I tore into him and he sheepishly and nervously informed me that he was ‘Yahya’s brigadier’. I had no doubt left that Yahya had reached him the previous day and instructed him not to take further orders from me, while the formal change in command had yet to take place. This was a betrayal of many dimensions.
b. I reasoned and then pleaded with Yahya that if it was credit he was looking for, he should take the overall command but let me go up to Akhnur as his subordinate, but he refused. He went a step further and even changed the plan. He kept banging his head against Troti, letting the Indian fall back to Akhnur. We lost the initiative on the very first day of the war and never recovered it. Eventually it was the desperate stand at Chawinda that prevented the Indians from cutting through.
c. At no time was I assigned any reason for being removed from command by Ayub, Musa or Yahya. They were all sheepish at best. I think the reasons will be given when I am no more.
d. Not informing pro-Pak Kashmiri elements before launching Gibraltar was a command decision and it was mine. The aim of the op was to de freeze the Kashmir issue, raise it from its moribund state, and bring it to the notice of the world. To achieve this aim the first phase of the op was vital, that is, to effect undetected infiltration of thousands across the CFL [cease-fire line]. I was not willing to compromise this in any event. And the whole op could be made stillborn by just one double agent.
e. Haji Pir [Pass] did not cause me much anxiety. Because [the] impending Grand Slam Indian concentration in Haji Pir could only help us after Akhnur, and they would have to pull out troops from there to counter the new threats and surrender their gains, and maybe more, in the process. Actually it was only after the fall of Akhnur that we would have encashed the full value of Gibraltar, but that was not to be!
f. Bhutto kept insisting that his sources had assured him that India would not attack if we did not violate the international border. I however was certain that Gibraltar would lead to war and told GHQ so. I needed no op intelligence to come to this conclusion. It was simple common sense. If I got you by the throat, it would be silly for me to expect that you will kiss me for it. Because I was certain that war would follow, my first choice as objective for Grand Slam was Jammu. From there we could have exploited our success either toward Samba or Kashmir proper as the situation demanded. In any case whether it was Jammu or Akhnur, if we had taken the objective, I do not see how the Indians could have attacked Sialkot before clearing out either of these towns.
g. I have given serious consideration to writing a book, but given up the idea. The book would be the truth. And truth and the popular reaction to it would be good for my ego. But in the long run it would be an unpatriotic act. It will destroy the morale of the army, lower its prestige among the people, be banned in Pakistan, and become a textbook for the Indians. I have little doubt that the Indians will never forgive us the slight of 65 and will avenge it at the first opportunity. I am certain they will hit us in E. Pak [East Pakistan] and we will need all we have to save the situation. The first day of Grand Slam will be fateful in many ways. The worst has still to come and we have to prepare for it. The book is therefore out.
I hope this gives you the gist of what you needed to know. And yes, Ayub was fully involved in the enterprise. As a matter of fact it was his idea. And it was he who ordered me to by-pass Musa while Gibraltar etc. was being planned. I was dealing more with him and Sher Bahadur than with the C-in-C. It is tragic that despite having a good military mind, the FM’s [Foreign Minister Z.A. Bhutto’s] heart was prone to give way. The biggest tragedy is that in this instance it gave way before the eruption of a crisis. Or were they already celebrating a final victory!!
In case you need a more exact description of events, I will need war diaries and maps, which you could send me through the diplomatic bag.
Please remember me to all the family.
Yours,
Akhtar Hussain Malik
http://books.google.com/books?id=GbgoBGFSMRQC&pg=PA50&lpg=PA50&dq=Haji+Pir+%5BPass%5D+did+not+cause+me+much+anxiety&source=bl&ots=uP-gxcZD0T&sig=d2aECre1nqFFIxODhR7JWvdMt1Q&hl=en
لطف الاسلام صاحب
يہ کيسا محبِ وطن ہے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے راز کی بات کو خط ميں لکھ کر بھيجتا ہے جبکہ وہ اس وقت بھی حکومتِ پاکستان کا ہی ملازم تھا
پھر اگر ايسی ہی بات تھی تو اس نے کمان يحیٰ کے حوالے کرنے ميں کئی دن کيوں لگائے ؟
بھوپال صاحب، یہ ایک ذاتی خط تھا جو ایک عرصہ بعد منظرعام پر آیا ہے۔ اور دو حاضر سروس افسران کے درمیان بات ہے۔ راز افشا تب ہوتا جب یہ باتیں اس دور میں منظر عام پر آ جاتیں۔ جنرل صاحب نے خود ہی پوائنٹ “جی” میں لکھا ہے کہ ان باتوں کو افشا کرنا ان کے جذبہ حب الوطنی کے خلاف ہو گا۔
اصل سوال یہ ہے کہ جنرل یحییٰ کو کمانڈ دی ہی کیوں۔ اختر ملک کو کام ختم کرنے دیا جاتا۔ ساری دنیا یہی سوال کر رہی ہے اور آپ جنرل یحییٰکی طرفداری میں مصروف ہیں۔
لطف الاسلام صاحب
آپ ہيں تو بڑے ہوشيار مگر بعض اوقات بچوں کی سی باتيں کرتے ہيں ۔ محکمہ دفاع ميں بھی اپنے کسی سرکاری کام کی کسی بہترين عزيز کو بھی اطلاع کرنے کی اجازت نہيں اور فوجی افسر کيلئے تو اور بھی زيادہ سخت احکام ہيں ۔ وہ تو ليفٹننٹ جنرل ريٹائر ہوا تھا اور اس وقت سول سروس ميں کنٹريکٹ پر ملازم تھا ۔
کم از کم اتنا تو خيال رکھيئے کہ ميں محکمہ دفاع کی ملازمت ميں رہا ہوں اس سلسلہ ميں آپ سے بہت بہتر جانتا ہوں
آپ يہ بھی بھول رہے ہيں کہ کمانڈ کا فيصلہ آرمی چيف کرتا ہے آپ يا آپ کا کوئی بڑا اس کا مجاز نہيں ہے