آج 2 جون ہے۔ آج سے ٹھیک آدھی صدی قبل میرے دادا جان (اللہ جنت عطا کرے) اس دار فانی سے رخصت ہوے۔ میرے دادا اور دادی نے حج اس زمانہ میں کیا جب مکہ مکرمہ سے منی۔ عرفات اور واپسی پیدل اور مکہ مکرمہ سے مدینہ اور واپسی اونٹ پر ہوتی تھی۔بعد دوپہر اور رات کو میں دادا جان کے بازو اور ٹانگیں سہلایا کرتا تھا۔ (عام زبان میں دبانا کہتے ہیں) اس دوران دادا جان مجھے اچھی اچھی باتیں اور اپنی تاریخ سنایا کرتے۔ ایک فقرہ وہ عموما کہتے ” نیکی کر اور دریا میں ڈال؛ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ دادا جان نے بتایا۔” یعنی نیکی کرو اور بھول جاؤ۔ اپنی نیکی نہ یاد رکھو نہ جتاؤ۔” پھر بھی بات مجھےپوری طرح واضح نہ ہوئی۔ بعد میں قرآن شریف کے تفسر کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہے کہ کسی پر احسان کر کے جتاؤ نہیں۔ بڑی عمر کو پہنچنے پر دوسرے بزرگوں سے معلوم ہوا کہ دادا جان اس کی عملی مثال تھے۔ وہ ہر کسی سے حتہ کہ بغیر جان پہچان کے بھی بھلائی کرتے تھے احسان سمجھ کر نہیں بلکہ فرض سمجھ کر۔ اس لئے برادری کے تمام بزرگ اور شہر کے لوگ ان کی بہت عزّت کرتے تھے اور اہم کاموں میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ نیکی کر دریا میں ڈال انسانیت کا ایک عمدہ پہلو ہے۔
ایک طرف تو وہ پچھلے وقتوں کے لوگ اور ایک آجکل کے ہم لوگ کہ بھلائی تو کرنے کا سوچتے بھی نہیں اور دوسروں کو دکھ دینے۔ ان سے ان کے بیٹے ۔ بھائی ۔ خاوند ۔ باپ چھیننے کے لئے ہر وقت تیار۔ آپ سب نے سنا یا پڑھا ہو گا گہ کراچی کی عبادت گاہ میں دھماکہ اور اس کے بعد نہ صرف دو پٹرول پمپ اور کے ایف سی جلائے گئے بلکہ شریف لوگوں کو گاڑیوں میں سے نکال کر ان کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ کیا ہم لوگ بھڑیوں سے بھی بد تر ہو گئے ہیں ؟
اللہ آپ کے دادا جان، دادی جان اور تمام مسلمانوں کو جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں جنت میں اعلیٔ مرتبے دے۔ اور ہمیں “اھدناالصراط المستقیم،صراط الذین انعمت علیہم” پر عمل کرنے کی تو فيق دے۔
آج کل اس طرح کی سوچ کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ اوٌل تو کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا [آسان لفظوں میں : کوئی کسی کے کام میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ اور آجکل سڑکوں پر حادثات میں اس سوچ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ سب کے سب “تماشبین” بنے ہوتے ہیں۔۔]۔ اور اگر کوئی مدد کر بھی دے تو ساری عمر اپنے کئۓ کی “کمائی”کھانا چاہتا ہے۔ اور احسان مند تمام عمر کے لیے اپنے محسن کو سود بھرتا رہتا ہے۔۔ ہم لوگ دراصل دجال کی گرفت میں ہیں اور وہ جو چاہتا ہے ہم سے کرواتا ہے۔ اور مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سیدھے سادھے لوگ جو کے مذہبی رہنماؤں کی اندھی تقلید کرتے ہیں یھ نھیں جانتے کے جس کی وھ تقلید کر رہے ہیں وھ کھیں دجال کا آلھ کار تو نہیں۔ کیونکھ مغرب یھ جان چکی ہے کے مسلمانوں کو فرقے بنانے کا بہت شوق ہے۔
اب اللہ سے یہی دعا ہے کھ ہمیں اس دجل و فریب سے بچائۓ۔۔
ہممم زيادہ تر تو لوگ اب مدد کرنے کے تصور سے يا تو نا آشنا ہيں يا جديديت کے سيلاب ميں اسے دوسروں کی زندگی ميں دخل اندازی نہيں کرنا چاہتے۔
اور اس پر اب يہ بھی ڈر کہ پتا نہيں جس کی مدد کر رہے ہو کل کو اسکی مدد کرنے کے الزام ميں دھر ليے جاؤ
حارث اور جہانزیب۔ آپ دونوں کا خیال ٹھیک ہے۔ ہم سب کو اپنے اعمال کا بغور اور منصفانہ خودغرضی سے پاک تجزیہ کرنا ہو گا۔ جب تک ہر فرد دوسروں کی بجائے اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرے گا یہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ ورنہ مشیّت کا لکھا تو یہ ہے کے انتہا مکمل تباہی ہے۔