نہرمیں خون
ہمارے ساتھ جموں چھاؤنی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹے میں اور کرنل عبدالمجيد صاحب کا بيٹا 10 سال کے ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئےجمعرات 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا اُنہوں نے اٹھایا اور ہم لڑکوں نے اُن کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کُنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اُسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا
مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بہانے قتلِ عام
ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔
نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔
بسوں کا پہلا قافلہ بُدھ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول اُبالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا -- Topsy.com
تاریخ کو ازسر نو سامنے لانے پر شکریہ۔۔۔۔
فرحان ظفر صاحب
تشريف آوری کا شکريہ
بہت ہی خونچکاں داستان ہے اس قتل عام کی۔ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کو یاد رکھنے اور انہیں نئی نسلوں کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان قربانیوں کو ضائع نہیں جانا چاہیے۔
ایک نکتہ بہت اہم ہے۔ جس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔جن لوگوں نے اسطرح کا ظلم دیکھا نہیں۔ یا کسی معتبر زرئعیے سے انہیں آگاہی نہیں ہوئی ۔ وہ پاکستان کی روشن خیال حکومتوں کی طرف سے بھارت کی شان میں رطب السان ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کو افسانہ سمجھتے ہیں۔ یا اسے ماضی کا ایک دردناک باب سمجھ کر اسے ہمیشہ کے لئیے بھلا دینا چاہتے ہیں۔
اسطرح کا طرز عمل درست نہیں۔دوسروں کو دہوکہ دینے کے لئیے ۔ بھارت نے تہذیب واخلاق کا جو ملمع اپنے اوپر چڑھا رکھا ہے اور جس قدر بھارت امن کی آشا کا جعلی پرچارک ہے۔ اس سے دہوکا کھانے کی بجائے پاکستانی قوم کو ہشیار رہنا چاہئیے۔ کہ خدانخواستہ اگر پھر کبھی انیس سو سنتالیس کی طرح بھارت سے کوئی دیگر مسئلہ حل پذیر ہوا تو بھارتی ایک دم سے پہلے تہذیب و اخلاق کا ملمع اترا پھینکیں گے۔اور انہیں دوبارہ سے پاکستانی اور مسلمان عوام سے اس بھی بڑھ کر ظلم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ ہوگا۔
ایسے کسی بحران سے نمٹنے کے لئیے پاکستان اور عوام کو ہمیشہ تیار رہنا چاہئیے۔ اسکے لئیے ضروری ہے کہ اپنے ماضی سے اپنی تاریخ سے ۔ پاکستان کی خونچکاں آزادی کو آگاہ رہا جائے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔ بھارت یا چین یا سعودی عرب یا کوئی اور بھی ملک آپ کا صرف اس وقت تک دوست اور ہمدرد ہے جب تک ان کا آپ سے یا تو کوئی مفاد ہے یا آپ ان سے طاقتور ہیں۔ حکومتی معاملات میں دیگر جذبات کا عمل دخل رکھنا یا اس کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ بھارت سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک نہ آپ کا دوست ہے اور نہ ہمدرد۔ اگر کوئی بظاہر ہے بھی تو درپردہ اس کے اپنے مقاصد ہیں۔ پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک مسلمان ہیں لیکن ان کی حکومتوں سے ہمیں ہمیشہ جو خدشات رہے ہیں وہ جاننے والے جانتے ہیں۔ تقسیم کے وقت جو کچھ ہوا، وہ غلط تھا لیکن اس میں دوش صرف بھارتیوںکا ہی نہیں ہے۔ میرے ساتھ یہاںایک صاحب کام کرتے ہیں جن کا خاندان میانوالی سے نقل مکانی کرکے چندی گڑھ آباد ہوا اور ان کے دادا فسادات میں مارے گئے۔ افتخار انکل کی طرح ان کےابا بھی دن رات اپنے شہر میانوالی کو یاد کرتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے دنوںمیںان کے بیٹے کے مطابق وہ انکل بہت مضطرب رہے کہ ان کے علاقے کے لوگ مصیبت میںہیں۔ تو یہ جذبات تو دونوںجانب کے لوگوںکے ہیں اور ان کی قدر کرنا چاہئے۔ امن اچھی چیز ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے دفاع سے غافل ہوجائیں یا دوجے کے سامنے سپر ڈال دیں۔ میدان جنگ میںاس بات کی اہمیت نہیںہونا چاہئے کہ سامنے ہندو ہے، کہ بودھ، کہ دہریہ یا عیسائی اور یا مسلمان۔ میرے نزدیک ایک غلطی یہ بھی ہے کہ ہم نے بھارت کو اپنا دشمن سمجھا ہے۔ ہمیں ہر اس کو اپنا دشمن سمجھنا چاہئے جو ہمارے مفاد کے خلاف ہو۔ اگر کسی سے دوستی ہمارے قومی مفاد میںہے تو اس وقت دوستی کرنا چاہئے اور اگر کبھی اس سے لڑائی ہمارے مفاد میں ہے تو لڑائی میں بھی پس و پیش نہیںکرنا چاہئے۔ نام چاہے کوئی بھی ہو، ملکوںسے تعلقات تو اسی نہج پر استوار رکھنے چاہئیں۔
آہ ۔۔
مگر ہم ۔۔۔
سب بھول بھال کر تقلیدِ غیری میں سر کھپاتے ہیں ۔
تف بر ۔۔۔
تف۔۔
خرم صاحب
کافی باتيں آپ کی درست ہيں ليکن آپ ميری مندرجہ ذيل تحرير کا آخری بند پڑھيئے
انگریزوں کی عیّاری اور قتلِ عام کی ابتداء ۔ https://theajmals.com/blog/2010/10/30/
کتنی خوفناک اور خونچکاہ داستانیں ہیں اس مملکت خداداد پاکستان کی بنیادوں میں کاش یہ داستانیں ہمارے نصاب کا حصّہ ہوتیں. کاش ہندو کی نفسیات پڑھنا ہر مسلمان طالبعلم کے لئے لازمی ہوتا. مگر یہاں تو امن کی آشا ہے، دوستی کے راگ الاپے جا رہے ہیں اورانڈین ہیڈ افس کا جونئیر کلرک بننے کی تربیّت دی جا رہی ہے. پتا نہیں مہلک غلطیوں کے سلسلے کہاں جا کر رکیں گے.
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب
ہمارے ايسے ہموطن ہيں جو کہ خواہ خوا بھارت کو دشمن کہتے ہيں