انسان اپنی زندگی ميں بہت سے مشاہدات اور حادثات سے دوچار ہوتا ہے مگر يہ سب وقت کے ساتھ ذہن سے محو ہو جاتے ہيں ۔ ليکن ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ظہور کے وقت غير اہم محسوس ہونے والا کوئی واقعہ انسان کے لاشعور ميں نقش ہو جائے ۔ پھر ذہن کی ہارڈ ڈرائيو [Hard Drive] چاہے کريش [crash] ہو جائے يہ واقعہ ريم [RAM] ميں موجود ڈاٹا [data] کی طرح گاہے بگاہے مونيٹر [Monitor] کی سکرين [Screen] پر نمودار ہوتا رہتا ہے
آج جبکہ ميں عمر کی 7 دہائياں گذار چکا ہوں بچپن ميں سُنی ايک آواز ہے جو ميرے کانوں ميں گاہے بگاہے گونجتی رہتی ہے اور مجھے سينکڑوں ہمرکابوں اور درجنوں اتاليقوں کی ياد دلاتی رہتی ہے ۔ يہ چار بچوں کی آواز کے بعد سينکڑوں بچوں کی ہم سُر آواز ہے ۔ ميں ايسی صورت ميں موجودہ دنيا سے گُم ہو جاتا ہوں اور اُس دنيا ميں پہنچ جاتا ہوں جس ميں محبت اور ہمدردی چار سُو چھائے ہوئے تھے ۔ آج کی طرح ہر طرف خودغرضی بُغز اور نفرت نہيں تھی بلکہ ان کی معمولی جھلک بھی اُن دنوں پريشان کر ديتی تھی
اپريل 1950ء سے مارچ 1953ء تک ميں مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال راولپنڈی ميں زيرِ تعليم تھا ۔ وہاں صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل ہم دعا پڑھتے تھے اس طرح کہ چار اچھی آواز والے لڑکے سارے سکول کے لڑکوں کے سامنے کھڑے ہوتے ۔ وہ بآوازِ بلند ايک مصرع پڑھتے ۔ ان کے بعد سکول کے تمام لڑکے پورے جوش سے ايک آواز ميں اسے دہراتے ۔ آج سکولوں کے بڑے بڑے اور غيرملکی نام ہيں ۔ عصرِ حاضر کے طالب علم سے اس دعا کا ذکر کيا جائے تو وہ مبہوت ہو کر تکنے لگتا ہے ۔ ہاں ان سے غير ملکی گانے سُنے جا سکتے ہيں
ميں سوچتا ہوں کہ شايد اسی دعا کی بدولت جو ہفتے ميں 6 دن ہم سکول ميں صبح سويرے مانگتے تھے ہم لوگوں کے دل ميں سے خودغرضی کُوچ کر جاتی تھی
شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا لازوال تحفہ
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا ميری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری
دُور دنيا کا ميرے دم سے اندھيرا ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر جگہ ميرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
ہو ميرے دم سے يونہی ميرے وطن کی زينت۔ ۔ جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زينت
زندگی ہو ميری پروانے کی صورت يا رب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت يا رب
ہو ميرا کام غريبوں کی حمايت کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دردمندوں سے ضعيفوں سے محبت کرنا
ميرے اللہ! ہر برائی سے بچانا مجھ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نيک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو
اب کیا یہ دعا نہیں پڑھی جاتی ۔اسی دھائی تک تو ہم نےبھی ہائی سکول میں یہ دعا ایسے ہی پڑھی تھی۔
ياسر صاحب
قوم ترقی کر گئی ہے ” اگے دوڑ تے پيچھا چوڑ”۔
ہم بھی یہی دعا ہوبہو ایسے ہی ماحول میں پڑھا کرتے تھے۔ دعا سے پہلے تلاوت ہوا کرتی تھی، پھر دعا اور بعد میں پریڈ کیلیے بینڈ کی تھاپ پر میدان کا چکر لگا کر کلاس روم میں چلے جایا کرتے تھے۔
السلام علیکم،
آپ کی چھوٹی چھوٹی باتیں بلکہ یادیں پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ ہم بھی اسکول ٹائمنگز میں یہی دعا پڑھتے تھے۔۔۔
افضل صاحب
آپ نے درست کہا ۔ ايسا ہی ہوتا تھا
مونا سيدّد صاحبہ
تشريف آوری کا شکريہ ۔ اگر ميری ياد داشت درست ہے تو آپ نے پہلے بھی تبصرہ کيا تھا ۔ ميرے خالہ زاد بھائی کی بيٹی کا نام بھی مونا سيّد ہے مگر وہ مُنٰی سيّد لکھتی ہے
ہارڈ درایئو سے لیکرمانیٹر تک جو آپ نے کمپیوٹر کی زبان مین دماغ کی یاد داشت کا خوبصورت تجزیہ کر ڈالا ہے عجیب سا لگتا ہے یعنی میرے جیسوں کو ۔
خیر مجھے آپ نے یاد دلا دیا میں بھی اکثر گنگناتا ہوں
ساگر میں یعنی – سی پی یا آج کا مدھ پردیش- ہندو اکثریت کا علاقہ تھا تو وہاں دو “دعائین پڑھی جاتی تھیں مسلمانوں کی تھی
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
اور ہندو جو بعد میں پڑھتے تھے
بندے ماترم
اس کا ترجمہ ہمیں معلوم نہیں
پنجاب آیا تو وہاں گائوں میں مسلم اکثریت تھی نہ معلوم کیوں اقبال کی نظم نہیں پڑھتے تھے دو مسلمان لڑکے پڑھاتے تھے
ساری تو یاد نہیں ایک دو مصرعے لکھ رہا ہوں کسی صاحب کو پوری معلوم ہو تو میں تو بہت احسان مانوںگا
‘ارض و سما میں دیکھی جلوہ نمائی تیری
تابع ہے تیرے مولا ساری خدائی تیری
بندوں کا خالق تو ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ہندو مسلمان سکھ سب بچے یہی پڑگتے تھے
محترم افتخار اجمل بھوپال صاحب،
بہت خوب یاد دلایا . مجھے بھی آج سے ٢٣ سال پہلے تک کا یہ معمول یاد ہے ابھی تک . کیا ہی انمول دن تھے ، خوشیاں اور اطمنان حلق تک بھرے ہوۓ تھے. لگتا ہی نہیں کہ وہ دن اسی زندگی میں آئے تھے . ضمن تبدیل ہو گیا ہے جدید عالمی تہذیب کا دور دورہ ہے اب اسکولوں میں انسان نہیں پیداواری مشینیں بنائی جاتی ہیں. قومی انتشار فکر تو پیدا ہو ہی گیا کچھ عجب نہیں کہ اگلی دھائی میں نئی نسل اپنی تاریخ مع قومی ترانہ ہی بھول جائے.
یہ نظم 1953 سے چالیس برس بعد 1993 سے تک2002 ہم نے بھی اپنے سکول میں خوب پڑھی تھی لیکن اب اس کی جگہ دوسری روشن خیال چیزوں نے لے لی ہے۔
“ميں سوچتا ہوں کہ شايد اسی دعا کی بدولت جو ہفتے ميں 6 دن ہم سکول ميں صبح سويرے مانگتے تھے ہم لوگوں کے دل ميں سے خودغرضی کُوچ کر جاتی تھی”
یقیناً ایسا ہی تھا۔ اتنی اچھی دعا سے دن کی شروعات کرنے سے اپنے ہونے کا مقصد یاد رہتا تھا۔ میں اب بھی اکثر یہ پڑھتی رہتی ہوں۔
بہت اچھی تحریر ہے۔
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب
آج کا جوان تصور ہی نہيں کر سکتا کہ اُس دور کا ۔ جسے ديکھو باسٹھ تريسٹھ سال کا رونا رو رہا ہے ۔ اللہ انہيں سيدھی راہ دکھائے
کاشف نصير صاحب
آپ نے ميٹرک پنجاب يا صوبہ سرحد سے پاس کيا ہو گا
حرا قريشی صاحبہ
پسند کا شکريہ