ہر سال عیدالاضحٰے پر بکرا ۔ گائے ۔ اُونٹ وغیرہ کی قربانی کی جاتی ہے ۔ اس سلسلہ میں کئی باتیں سُننے اور دیکھنے میں آتی ہیں جن سے کم و بیش ہر ہموطن کو واسطہ پڑتا ہے ۔ کچھ باتیں تو ہمیشہ سے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو کچھ سال قبل نہ تھیں اور اب ہیں اسلئے انوکھی محسوس ہوتی ہیں
ہموطنوں کی بھاری اکثریت قربانی خود اپنے ہاتھ سے نہیں کرتی ۔ ايسا شايد صرف پاکستان بنگلہ ديش اور بھارت ميں ہوتا ہے ۔ ذبح کرنے کیلئے کسی قصائی یا نام نہاد قصائی کو پکڑ کر لایا جاتا ہے کئی جگہوں پر میں نے ایسے شخص کو بکرا ذبح کرتے دیکھا جسے ذبح کرنا تو بڑی بات ہے چھُری پکڑنے کا بھی سلیقہ نہ تھا ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ قربانی دینے والے کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ذبح کرنے والا مسلمان بھی ہے یا نہیں ۔ جو چھُری اور ٹوکہ ہاتھ میں پکڑے نظر آ جائے اُسے پکڑ کر بکرا ذبح کروا لیا جاتا ہے ۔ اب تو 6 سال سے مجھے زمين پر بيٹھنے اور جھُکنے کی بھی اجازت نہيں ہے ۔ اچھے وقتوں ميں اللہ کے فضل سے ميں نے کم از کم 2 درجن قربانی کے جانور ذبح کئے اُن کی کھال اُتاری اور گوشت بھی بنايا
گوشت کی تقسيم
عام طور پر گوشت کے تین حصے کئے جاتے ہیں ایک اپنے لئے ۔ ایک عزیز و اقارب کیلئے اور ایک غُرباء میں تقسیم کرنے کیلئے ۔ یہ مُستحسن طریقہ ہے ۔ اگر سارا گوشت اپنے استعمال میں لایا جائے تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں ۔ اسی طرح سارا گوشت پکا کر عزيز و اقارب کو کھلایا جا سکتا يا سارا گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹا جا سکتا ہے يا سارا مساکين ميں تقسيم کيا جا سکتا يا اُنہيں پکا کر کھلايا جا سکتا ہے ۔ قربانی کے جانوار کے کسی بھی حصہ کے عِوض کچھ لینا حرام ہے ۔ کچھ لوگ اپنے افسر یا کسی اور بڑے آدمی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کافی سارا گوشت یا پوری ران اُسے بھیج دیتے ہیں ۔ یہ مناسب بات نہیں کیونکہ اس میں قربانی کے جذبہ کی بجائے خود ستائشی یا خودغرضی آ جاتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ مساکین اور اپنے عزيز و اقارب بالخصوص جن کی مالی حالت اچھی نہ ہو کا خیال رکھا جائے
عید والے دن کئی لوگ گوشت مانگنے آتے ہیں ۔ ان پر اگر غور کیا جائے تو کچھ لوگ چند گھروں سے گوشت لے کر چلے جاتے ہیں اور کچھ کے پاس پہلے سے ہی چار پانچ کلو گرام یا زیادہ گوشت ہوتا ہے اور وہ مزید گوشت اکٹھا کرتے جاتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے سب افراد گوشت مانگنے نکل پڑتے ہیں ۔ یہ لوگ مستحق لوگوں کا حق مارتے ہیں ۔ اس لئے میں تو بہتر سمجھتا ہوں کہ پہلے سے ہی اہل محلہ پر غور کیا جائے اور ان میں جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو ایک دن کیلئے کافی گوشت دے دیا جائے اور جو باقی بچے وہ مانگنے والوں میں بانٹا جائے ۔ اسلام آباد میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو سارا سال گوشت نہیں کھاتے ۔ اگر ایسے لوگوں کو سال میں ایک دن کیلئے گوشت کھانے کو دیا جائے تو اُن کے دل سے جو دُعا نکلے گی اس کا اندازہ عام انسان نہیں کر سکتا
ايک نيا نعرہ
کچھ سالوں سے سُننے ميں آتا ہے “مسلمان اتنے زيادہ جانور ذبح کر کے ضائع کرتے ہيں ۔ يہی روپيہ زلزلہ يا سيلاب کے متاءثرين کو دے ديں”
يہی بات حج کے معاملہ ميں بھی کہی جاتی ہے
يہ خام خيالی ہے ۔ نفلی حج يا نفلی قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کر دينا بہتر ہے مگر فرض حج کو ملتوی کرنے کی دينی وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے ملتوی کرنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کرنے سے قربانی ساقط نہيں ہوتی ۔ اس طرح کے استدلال ماننے کا مطلب اللہ اور اللہ کے رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے فرمان پر اپنی عقل کو ترجيح دينا ہے
اس بار قربانی کا گوشت سیلاب متاثرین کو دیجیے۔
جزاک اللہ انکل۔ اور آپ کی طبیعیت اب کیسی ہے؟
ہمارے یہاں سے قربانی کسی دوسرے ملک بھیجی جارہی ہے تو میں نے پاکستان بھیجنا پسند کیا کیوںکہ وہاں سیلاب زدگان اور دوسرے غربا کو نہ معلوم کیا اور کیسی سہولتیں ہیں امید کرتا ہوں کہ میری قربانی کا گوشت انشا اللہ غریبوں مین اور حقداروں میں پہںچے گا اللہ تعالےا قبول فرمائیں
آپ ماشا اللہ عوام کی کمزوریوں کے اچھے نباض ہیں
انشا اللہ اگلے ماہ آپ سے ملاقات ضرور ہوگی تو سی ٹی وغیرہ دیکھوںگا
جزاک اللہ بہترین تحریر ھے، اللہ آپ کو اسکا صلہ دیں، آمین۔ آپکی رہنمائی بہت قیمتی ھے اللہ ہمیں آپکی رہنمائی کے سائے میں رکھیں۔ آپکی دائمی صحت کے لئیے دعا گو ھوں۔
خُرم و فکرِ پاکستان صاحبان
جزاک اللہ خيراٌ