ميری بيوی کی والدہ اللہ جنت نصيب کرے ميری بڑی خالہ تھيں مگر ميری والدہ سے چھوٹی تھيں ۔ ميری اور ميری بيوی کے بھائی کی شادی دو دن کے وقفے سے ہوئی تھی ۔ شادی کے بعد ميں خالہ کے ہاں گيا ہوا تھا ۔ وہاں ايک خاتون مہمان آئيں اور شادی شدہ بيٹے بيٹی کا پوچھنے لگيں ۔ ميری خالہ نے ايک دلچسپ کہانی سنائی
دو لڑکياں اکٹھے تعليم حاصل کر رہی تھيں ۔ اُن ميں دوستی ہو گئی ۔ تعليم سے فارغ ہو کر اُن کی شادی ہو گئی ۔ اتفاق سے ايک کا خاوند کسی دوسرے شہر ميں کام کرتا تھا تو وہ وہاں چلی گئی ۔ جب اُس کا خاوند ريٹائر ہو گيا تو وہ اپنے شہر واپس آ گئے ۔ وہ اپنی پرانی سہيلی کو ملنے آئی
سہيلی نے پوچھا “تم نے اپنے بيٹے اور بيٹی دونوں کی شادی کر دی تھی ۔ بال بچے دار بھی ہو گئے ہيں سناؤ اپنے گھروں ميں خوش ہيں ؟”
وہ بولی ” ميرا داماد اچھا ہے ۔ دفتر سے آکر بچوں کو ساتھ لے جاتا ہے اور گھر کا سودا سلف لے آتا ہے ۔ گھر آ کر بچوں کو سنبھالتا ہے ۔ چھٹی والے دن گھر کی صفائی بھی کر ديتا ہے ۔ باورچی خانہ ميں بھی مدد کر ديتا ہے ۔ البتہ ميرا بيٹا بيچارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ديکھو نا ۔ بيچارہ دفتر کا کام بھی تو کرتا ہے نا ۔ بہو اُسے کہتی ہے کہ ميرے لئے بچوں کو چھوڑ کے جانا مشکل ہوتا ہے اور پيدل ساتھ لے کر جانا بھی مشکل۔ دفتر سے واپسی پر سودا سلف لے آيا کرو ”
سہيلی نے پوچھا ” تو کيا گھر کا باقی کام بھی آپ کا بيٹا کرتا ہے ؟”
وہ بولی ” نہيں ۔ کام تو سارا بہو ہی کرتی ہے ۔ پر ديکھو نا”
ہاہاہا بے چارہ بیٹا۔
لیکن ساس تو ساس ہی ہوتی ہیں۔
بڑی ہی دلچسپ اور پر لطف بات کی ہے آپ نے ۔ شکریہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
دراصل یہ ہمارےمعاشرےکی وہ حقیقت ہےجوکہ بدلنےکےلئےایک زمانہ چاہیےدراصل ہم چاہتےہیں کہ ہماری بیٹیاں تواپنےشوہروں پرحکم چلائیں لیکن بہوؤں پرخودحکم چلائيں ۔
والسلام
جاویداقبال
پر دیکھو نا
سارا منظر اس سے واضح ہو جاتا ہے
بظاہر یہ ایک عام سا واقعہ ہے جو ہمارے معاشرے کی عمومی دوغلی سوچ کی عکاسی کرتا ہے مگر درحقیقت قوموں کی تعمیر یا تخریب میں نہائت اہم امر ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ ہم جس شئے کو اپنی دانست میں بہتر سمجھتے ہیں اسے اپنے لئیے تجویز کرتے ہیں۔ جب بعین ویسا معاملہ دوسروں کے ساتھ ہو اور اسمیں ہمیں نسبتاََ کسی وجہ سے نقصان ہو تو ہم اپنے آدرش اور اصول طاق پہ رکھ دیتے ہیں۔
یہ رویہ معاشرے میں پختہ ہو چکا ہے اور ایسے رویے کو معاشرے کی مذید دوسری برائیوں سمیت تبدیل کرنے کے لئیے کسی بھی لیول پہ کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ حال یا مستقبل میں بھی عامۃ الناس کی اخلاقی بہتری کے لئیے حکومت ، میڈیا یا فلاحی تنظیموں کی طرف سے تشہیری یا تنظیمی کوششیں نظر نہیں آتیں۔
آپ کے واقعے سے ملتی جلتی صورت احوال جس بارے بہت سے لوگوں کو علم ہوگا۔ مثلاََ بس کنڈیکٹرز عموماََ بزرگ مسافروں کو انکے مطلوبہ سٹاپ سے کچھ آگے جاکر اتار دیتے ہیں اور جب وہ بزرگ مسافر احتجاج کریں تو عموما کنڈیکٹر بادشاہ کا بدتمیزی سے دیا گیا جواب کچھ یوں ہوتا ہے “بابا! یہ بس ہے گدھا گھوڑا نہیں کہ جہاں چاہا اسکی لگامیں کھینچ لیں” اور ستم ظریفی یہ ہے تانگہ بان بھی جب کسی کو مطلوبہ جگہ نہ اتارنا چاہیں تو اس جملے کو کچھ یوں الٹا دیتے ہیں “باؤ بس تو ہے نہیں کہ جہاں دل چاہا بریک لگا دیے، یہ جانور ہے دوچار میٹر ادہر ادہر ہو ہی جاتا ہے” اور مسافر کو چند گز اُدہ خشک جگہ کی بجائے کیچڑ والی جگہ پہ ہی تانگے سے اترتے بنتی ہے۔
ہم سب بے اپنی دانست میں اپنے مفاد کے لئیے اسطرح کے پیمانے گھڑ رکھے ہیں۔ جبکہ ظلم یہ ہے کہ سبھی متواتر خسارے کا سفر کر رہے ہیں۔
پتہ نہیں کیوں قدرتی طورعورتوں میں داماد کے لئے نرم گوشا ہوتا ہے لیکن ساس بہو کا معاملہ اور ہے۔
جاويد گوندل صاحب
آپ نے درست نشاندہی کی ہے
اللہ کی بڑی کرم نوازی ہے کہ ميری والدہ محترمہ [اللہ جنت نصيب کرے] نے اپنی تينوں بہوؤں کا بيٹيوں سے زيادہ خيال رکھا بالخصوص ميرے بھائی کی بيوی کا کيونکہ ميرے بھائی کی بيوی والد صاحب کی دور کی رشتہ دار ہے اور باقی دو والدہ محترمہ کی بھانجياں ہيں