یہ واقعہ شروع 1994ء کا ہے جب میں ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ تھا ۔ دفتر کی صفائی وغیرہ کیلئے ایک آدمی کی ضرورت تھی جس کیلئے تنخواہ بہت کم رکھی گئی تھی ۔ اخبار میں اشتہار دیا گیا ۔ صرف تین اُمیدوار انٹرویو کیلئے آئے ۔ ان میں ایک چِٹا اَن پڑھ تھا
ایک نوجوان نے ملیشا کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی ۔ وہ ایف اے یعنی بارہویں پاس تھا ۔ اس کے بعد اس نے ٹائپنگ سیکھی تھی ۔ اور بنیادی کمپیوٹر اور ورڈ پروسیسنگ کورس کیا ہوا تھا ۔ اسے پوچھا کہ اتنی کم تنخواہ پر کیوں آ رہے ہو تو جواب دیا “میں آزاد جموں کشمیر کے ایک گاؤں سے ہوں ۔ یہاں ایک رشتہ دار نے مجھے اپنے گھر میں جگہ دے رکھی ہے ۔ میں ایک پھل والے کی ریڑھی پر آواز لگاتا ہوں ۔ جس دن وہ ریڑھی لگائے مجھے دس روپے دیتا ہے ۔ یہاں کچھ پیسے مل جائیں گے تو گھر بھیج سکوں گا
دوسرا تیس پنتیس سال کا تھا ۔ اچھی پتلون قمیض پہن رکھی تھی ۔ میں نے اُسے کہا ” آپ تو مجھے پڑھے لکھے اور اچھے عہدہ پر کام کرنے والے لگتے ہیں ۔ آپ یہاں کیسے ؟” اس نے جواب دیا “جناب آپ نے درست پہچانا ۔ میں نے سویڈش انسٹیٹوٹ سے الیکٹریکل سپروائزر کا ڈپلومہ کے بعد ایک کمپنی میں ملازمت کی پھر ایک کمپنی کے ساتھ متحدہ عرب امارات گیا اور وہاں کام کرتا رہا ۔ کام مکمل ہو جانے پر کمپنی واپس آ گئی ہے ۔ میں بال بچے دار ہوں فارغ بیٹھا اپنی جمع پونجی کھا رہا ہوں ۔ اس طرح تو جتنا بھی مال ہو ختم ہو جاتا ہے ۔ میرا گھر یہاں قریب ہی ٹیکسلا میں ہے ۔ میں اپنے بائیساکل پر آ جایا کروں گا ۔ آپ مجھے کچھ دیں گے ہی نا ۔ اتنا میری جمع پونجی کی بچت ہو جائے گی ۔ مجھے کوئی کام کرنے میں عار نہیں ۔ میں آپ کا پورا دفتر صاف کروں گا جھاڑو دوں گا ۔ آپ کو چائے پکا کر پلاؤں گا اور سب برتن دھوؤں گا ۔ کچھ اور بھی کوئی دفتر کا کام ہوا تو کروں گا”
پھر آپ نے کس کو رکھا؟
پھر آپ نے کس کو رکھا؟
سعد و ياسر صاحبان
اچھا سوال ہے ۔ ميں نے جان بوجھ کر نہيں لکھا تھا ۔ ميں نے 12 پاس کمپيوٹر کا کام جانے والے لڑکے کو رکھا اس نے بہت محنت سے کام کيا اور فالتو وقت ميں وہ ميرے دفتر کا لکھنے کا کام کر ديتا تھا ۔6 ماہ بعد اسے ايک بہت بڑے محکمہ کے کمپوٹر سينٹر ميں اچھے معاوضہ کے عوض بھرتی کروا ديا تھا
دنیا کے رنگ۔۔۔ چھوٹی سی بات مگر بہت سے اسرار لیے ہوئے ۔
یہ تو آپ کی اپنی سوچ تھی انکل ۔ ورنہ تو یہاں اچھی خاصی تعلیم یافتہ کو کوئی نہیں پوچھتا ،،، آپ کوچاہئے تھا دونوں کو رکھ لیتے ایک کا کام تو اسان ہو گیا کمپوٹر کمپنی میں ملازمت مل گئی ،۔ لیکن دوسرے کا کیا ہوا ہو گا۔۔۔
یہی توسوچ ہےاگرہرکوئی ایسےہی سوچنےلگےتوکیابات ہے۔
جتنی ناقدر شناسی ہمارے ہاں ہیں شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ہو۔ میرٹ کا قتل لاکھوں مسائل پیدا کرتا ہے۔ اور یہ رسم پاکستان میں بہت پرانی ہے۔ شاید اسی لئیے سلطان باہو رحمتہ اللہ نے کہا تھا،
۔گلیاں دے وچ رلدے پھردے، لعللاں دے ونجارے ہُو۔
۔لعل یعنی قیمتی یاقوت بیچنے والے گلیوں میں جیسے چوڑیاں بیچنے والے ہوں، خوار ہورہے ہیں اور انکی کوئی قدر شناسی نہیں۔