ميں اتفاق سے 6 اگست کو پيدا ہوا تھا مگر کسی کے وہم و گماں ميں نہ تھا کہ امريکا ايک بڑی طاقت بن کر دنيا ميں بڑے پيمانے پر دہشتگردی کا آغاز کرے گا اور ميں اپنی پيدائش کے دن خوش ہونے کی بجائے مغموم بيٹھا کروں گا
امريکا جو امن کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے نے جب ايٹم بم بنانا شروع کيا تو معاندانہ طور پر اسے خُفيہ رکھا اور اس کا نام مين ہيٹن پروجيکٹ [Manhattan Project] اور کارخانہ کے علاقہ کا نام مين ہيٹن انجيئر ڈسٹرکٹ [Manhattan Engineer District.] رکھا ہوا تھا ۔
ليباٹری ميں پہلا کامياب تجربہ 16 جولائی 1945ء کو کيا گيا
اور
پہلا عملی تجربہ 6 اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہيروشيما پر کيا گيا جہاں کی آبادی اُس وقت 3 اور 4 لاکھ کے درميان تھی ۔
بم گرانے کے بعد آگ کا اايک گولہ اُٹھا جس کا قطر 30 ميٹر تھا
اور درجہ حرارت 3 لاکھ درجے سَيلسيئس ۔
اس تابکاری بادل کی اُونچائی 17000 ميٹر تک پہنچی ۔
اس کے بعد کالی بارش ہوئی جس سے تابکاری فُضلہ [radioactive debris] ايک بہت بڑے علاقہ پر ايک گھنٹہ تک گرتا رہا
اس 3 لاکھ درجے سَيلسيئس حرارت کے نتيجہ ميں
بم گرنے کی جگہ کے گرد کم از کم 7 کلو ميٹر قطر کے دائرہ ميں موجود جانداروں کے جسم کی کھال جل گئی آنکھوں کی بينائی جاتی رہی ۔
2 کلو ميٹر قطر کے اندر موجود ہر جاندار جل کر راکھ ہو گيا ۔
گھروں کے شيشے اور ٹائليں پگھل گئيں ۔
جو کوئی بھی چيز جل سکتی تھی جل کر راکھ ہو گئی
اس دھماکے کے بعد ہوا کا دباؤ يکدم بڑھ کر 35000 کلو گرام فی سکوائر ميٹر ہو گيا
بعد ميں اس کے نتيجہ ميں طوفانی ہوائيں چليں جن کی رفتار 1584 کلو ميٹر فی گھنٹہ تھی ۔
دھماکہ کی جگہ کے گرد 5 کلو ميٹر علاقہ ميں تمام لکڑی کے مکان جل کر فنا ہو گئے
اور کنکريٹ کے مکانوں کے پرخچے اُڑ گئے ۔
6 سے 10 کلو ميٹر کے اندر موجود انسان تابکاری اثرات کی وجہ سے بعد ميں کينسر اور دوسری خطرناک بيماريوں سے ہلاک ہوتے رہے ۔
1976ء ميں اقوامِ متحدہ ميں ديئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 6 اگست 1945ء کو ہيرو شیما کے ايٹمی دھماکہ ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150000 کے قريب تھی
اور 1957ء کے قانون کے مطابق جن لوگوں کے پاس ہيلتھ کارڈ تھے 31 مارچ 1990 کو تيار کئے گئے ريکارڈ کے مطابق ايٹمی دھماکہ سے متاءثر 352550 لوگوں کو علاج کی سہولت مہياء کی گئی
تابکاری اثرات کے تحت کئی سال تک عجيب الخلقت بچے پيدا ہوتے اور مرتے رہے
ہيروشيہ پر ايٹمی دھماکے کے بعد کے چند مناظر
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » امريکا کی پہلی دہشتگردی -- Topsy.com
چچا جی آداب عرض ہے.. آپ کے دونوں بلاگوں پر تلاش کا ڈبہ غائب ہے.. ازراہِ کرم اسے کہیں سے برآمد کریں، سخت ضرورت آن پڑی ہے..
دنیا کو امریکی درندگی کی یاد دلانا بہت ضروری ہے۔ افتخار بھائی آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ پورا دن اور آدھی رات میڈیا میں رہنے والے ہم جیسے لوگوں کو آپ نے یاد دلادی۔
دھماکے کے بعد کالی بارش بھی ہوئی۔
چھ سے دس کلومیٹر سے زیادہ کاعلاقہ اس سےمتاثر ہوا جس کے متاثرین ابھی تک عدالت میں جا رھے ہیں کہ حکومت کے ریکارڈ میں اپنے آپ کو تابکاری کے متاثرین میں شامل کروایں۔ ان کے مطابق ان کی اولاد میں بھی اس تابکاری کے اثرات ہیں۔
جسے گلے کا کینسر وغیرہ۔
میرا خیال ہے کہ جیساے ھٹلر کی ہولوکاسٹ کو یاد کیا اور کروایا جاتا ھے اسی طرح ان تصاویر کو بھی مشتہر کرنا چاہئے تاکہ یہ بھی یاد رہے کہ ایسے بم کو استعمال کرنے والے کون ہیں اوت ایسے ہتھیاروں سے لیس کس کس ملک کو کیا گیا ہے اور پاکستان اور ایران وغیرہ کا در اصل کیا قصور ہے
تصویر تو نہیں ہے مگر ‘گلف وار’ کے بعد ایسی بھیانک تصویریں بچوں کی عراق سے بھی نکلی تھین جو نمعلوم کیوں منظر عام پہ نہیں آئیں
بغیر آنکھ کی گولیوں والے بچے تھے جو ایک آرٹیکل میں میں نے دیکھے اب خدا ہی جانتا ہے کس کس قسم کے کیمیکل ان بموں میں ڈالے گئے تھے جو عراق میں استعمال ہوئے تھے دونوں گلف وارز میں کچھ نہ کچھ ‘تجرباتی’ بم استعمال ہوئے ہیں کسی روز ان کا ذکر کہیں نہ کیں ہوگا
محترم افتخار اجمل صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے سال گرہ مبارک!!!! اللہ کرے کہ آپ اچھی صحت، عافیت اور خوشیوں کے ساتھ تا دیر زندہ و سلامت رہیں۔
جاپان پر امریکی دہشت گردی پر آپ کی یہ پوسٹ خاصی معلومات افزا اور فکر انگیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہہ اس سوپر پاور ریاست کی بنیادوں میں ہی ظلم، ناانصافی، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری شامل ہے۔ گوروں نے اس پر قبضہ کرنے کے لیے کروڑوں کی تعداد میں اصل امریکی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا قتلِ عام کیا۔ اور تو اور ان اصل باشندوں کوبغیر جنگ کے بھوکا مارنے کے لیے کروڑوں بے زبان جنگلی بھینسے (bisons) شوٹ کرے کے انھیں گلنے سڑنے کو چھوڑ دیا۔ صرف اس لیے کہ انھی بھینسوں گوشت اور کھال وغیرہ پر ان نہتے ریڈ انڈنیز کا گزارا تھا۔
پھر افریقہ سے لاکھوں آزاد لوگوں، (زیادہ تر مسلمان قبائل) کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا اور ان سے جانوروں کی طرح مشقت لے کر اس ملک کی معاشی بنیادیں کھڑی کی گئیں۔
میرا خیال ہے کہ چھے اگست کا سانحہ امریکیوں کی اولین دہشت گردی نہ تھا۔ اس کا سلسلہ امریکہ کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ امریکہ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بلا مبالغہ درجنوں ملکوں پر حملہ اور قبضہ کیا ہے۔ جنوبی امریکہ تو کل تک ان کا محفوظ پچھواڑا سمجھا جاتا رہا تھا، اس سلسلے میں امریکیوں نے منرو ڈاکٹرن بھی جاری کر رکھی تھی۔ یہ تو حال ہی میں لاطینی امریکی ملکوں میں جمہوری انقلابوں کے ذریعے امریکہ تسلط کے خاتمے کی شروعات ہو رہی ہیں ورنہ ان ملکوں میں امریکہ مخالف حکومتوں کا قیام اور استحکام ناممکن رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ نے وہاں پنوشے جیسے ڈکٹیٹروں کی خوب پشت پناہی کی۔
امریکہ کی عالمی دہشت گردی کی تاریخ کے حوالے سے کافی مواد اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
بہرحال میرا اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا اصلاً کوئی ارادہ نہ تھا۔ دراصل میں نے چند ہی روز قبل سرزمینِ بلاگستان پرایک قاری کی حیثیت سے قدم رکھا ہے اور یہ جان کر کافی مایوسی اور افسوس ہوا کہ سارے نہیں تو بہت سے پاکستانی بلاگر بھائی بہن اس وطنِ عزیز اور اس کے بنیادی نظریے سے یا تو نا بلد ہیں ، یا بوجوہ اس سے صرف نظر فرماتے ہوئے غیروں کے پراپیگنڈے کی جگالی کرنے میں مصروف ہیں۔
اسلام کو حیلے بہانوںسے دورِ حاضر میں ناقابلِ عمل قراد دینا ان میں سے بعض کا مطمحِ نظر لگتا ہے۔ سیکولرزم، لبرلزم اور نیشنلزم کے لبادوں میں یہ لوگ در اصل امریکہ ایجنڈے کو ہی بڑھاوا دے رہے ہیں اور نتائج سے بے پروا ہو کر اُسی شاخ پر آرا چلا رہے ہیں جس پر خود بیٹھے ہیں۔ ایسے میں آپ جیسے بزرگوں کا دم مجھے غنیمت لگا، جو اس نام نہاد ترقی کے دور میں بھی چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والے دینِ حق وانصاف و عدل کی بات کرتے ہیں۔ جو نام نہاد جدیدیت (در اصل مغربیت) کی آندھیوں کے مقابلے میں اسلامی مشرقی اقدار کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ بقولِ حضرت اقبال
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
میں پاکستان کی دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔قیام ِ پاکستان کے وقت بھارت میں عرصہ حیات تنگ ہونے پر میرے ماں باپ نے اپنے والدین کے ساتھ خون کی ندیاں پار کر کے سرزمینِ پاک پر قدم رکھا۔جو دل خراش کہانیاں ان سے سننے کو ملیں ان کی وجہ سے ہم جیسے گئے گزرے دنیا پرستوں کے دلوں میں بھی اپنی اصل اقدار اور وطنِ عزیز سے محبت کا کم از کم ایک چھوٹا سا ذرہ ضرور موجود ہے۔(عمل کا خانہ بھلے صفر ہی ہے)۔ اس بنا پر جہاں سے بھی ہمیں آوازِ دوست یا بوئے جوئے مولیاں آتی ہے اس طرف طبیعت ضرور لپکتی ہے۔ آپ کے صفحے پر آمد بھی اسی باعث ہوئی۔ ابھی تک مجھے آپ کے جیسا کوئی اور مخلص بلاگر نظر نہیں آیا۔ یقیناً اور بھی بہت سے دین و وطن دوست اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہوں گے اور شاید ابھی میری ان تک میری رسائی نہیں ہو سکی۔ اس سلسلے میں بھی آپ کی رہنمائی چاہوں گا۔ فی الحال میری طرف سےان سب کو یہ پیامِ محبت دے دیجئے
بہ آں گروہ کہ از ساغرِ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ، ہر کُجا ہستند
آخر میں ایک بار پھر آپ کی صحت ، عافیت ، درازی عمر اور نیکیوں کی قبولیت کی دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔
جناب افتخار اجمل صاحب۔
HAPPY BIRTH DAY
آپ کی تحریر واقعی زبردست ہے،
مکی صاحب ۔ السلا عليکم و رحمة اللہ
جناب ميں آجکل دبئی ميں ہوں ۔ جمعہ ہفتہ چھٹی ہوتی ہے تو بيٹا ہميں لے کر نکل جاتا ہے ۔ آج واپس آئے تو آپ سے مخاطب ہوا ہوں ۔ ديگر يہاں ميرے پاس تمام سہوليات نہيں ہيں اسلئے بڑے بيٹے زکريا کو ای ميل بھيج دی ہے ۔ اِن شاء اللہ وہ جلد تلاش ميرے دونوں بلاگز پر ڈال دے گا۔
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
آپ کا کہنا بجا ہے ۔ ميں آجکل دبئی ميں اپنے چھوٹے بيٹے کے پاس ہوں ۔ بڑے بيٹے زکريا کو تو شايد آپ جانتے ہوں گے ۔ کم از کم شبانہ بيٹی تو جانتی ہيں ۔ شبانہ ہی نام ہے نا آپ کی بھانجی کا ؟ ہو سکتا ہے کہ بيٹی عائشہ بھی جانتی ہو ۔
اِن شاء اللہ پاکستان واپس جا کر عراق کے متعلق بھی لکھوں گا
محترمافتخار اجمل صاحب
کل اپنے تبصرے میں کوئی انٹرنیٹ لنک شامل نہ کرسکا۔ فی الحال دو لنک یہا ں دے رہا ہوں۔ پہلالنک ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر زولٹن گروسمین ( (Zoltan Grossman کی تیار کردہ دنیا بھر میں ۱۸۹۰ سے لے کر اب تک کی امریکی فوجی کاروائیوں کی فہرست کا ہے۔اس فہرست میں سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ایسی کارروائیوں کا بیان ہے۔ موصوف نےیہ بھی وضاحت کی ہے کہ اس میں صرف کھلی فوجی کارروائیاں شامل ہیں۔ اور بے شمار ایسی کارروائیاں اور سارشیں شامل نہیں ہیں جن کے ذریعے امریکہ نے پس پردہ رہ کر اپنے مقاصد حاصل کیے۔ یہ فہرست اور اس کے بعد درج بریفنگ خصوصاً باتصویر پاور پوائنٹ شو واقعی لائقِ توجہ ہے۔
http://academic.evergreen.edu/g/grossmaz/interventions.html
یہاں اس پریزنٹیشن میں شامل عظیم امریکی مصنف مارک ٹوین کا مختصر تبصرہ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ تبصرہ فلپائن پر امریکی قبضے کے لیے لڑی جانے والی بارہ سالہ جنگ کے صرف ایک عام واقعے پر ہے، جس میں امریکیوں نے ۶۰۰ نہتے مسلمان(مورو) مردوں ، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو بے دریغ قتل کیا۔
“The completeness of the victory is established by this fact: that of the six hundred Moros not one was left alive. The brilliancy of the victory is established by this other fact, to wit: that of our six hundred heroes only fifteen lost their lives. General Wood was present and looking on. His order had been, ‘Kill or capture those savages.’ Apparently our little army considered that the ‘or’ left them authorized to kill or capture according to taste, and that their taste had remained what it has been for eight years, in our army out there-the taste of Christian butchers. . . .The enemy numbered six hundred-including women and children-and we abolished them utterly, leaving not even a baby alive to cry for its dead mother. This is incomparably the greatest victory that was ever achieved by the Christian soldiers of the United States.”
اس کے علاوہ ویکیپیڈیا پر بھی Timeline of United States military operations کے عنوان سے غالباً کسی امریکی کا لکھا ہوا مضمون بھی موجود ہے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ کسی امریکی قوم پرست کی تحریر لگتی ہے اور ان کے سرکاری نکتہ نظر کی غمازی کرتی ہے۔بلکہ اس کا بیشتر حصہ امریکی کانگرس کی خارجہ امور کمیٹی کے ریکارڈ پر مبنی ہے۔ اس لیے نتائج اخذ کرنے میں احتیاط لازم ہے۔ لیکن پھر بھی واقعات کی فہرست یہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Timeline_of_United_States_military_operations#External_links
والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ابو احمد صاحب ۔ و عليکم السلام و رحمة اللہ و برٰکاة
اتنی معلومات فراہم کرنے کا شکريہ ۔ ميرا خيال ہے کہ عيد الفطر کے بعد اس پر ايک عليحدہ تحرير لکھوں
اللہ ایسی آفات سے اور ایسے عذاب سے دنیا کو نجات دلا دے
استغفراللہ اور آج اس امریکہ نے ہی اپنا امن کا نام نہادعلم بلند کیا ہوا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا بنانے پر تلا ہوا ہے۔