کيا وِکی پِيڈيا اور آل تھِنگز پاکستان قابلِ اعتبار ہيں ؟

اس کالم کا مقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھُلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23 فروری 1949ء کو حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔

اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلباء اور بزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظم پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کوکنفیوز کیا جا سکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یا پھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے

سچ کی تلاش میں، میں جن حقائق تک پہنچا ان کا ذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے تمہید کے طور پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا ۔ وہ 1918ء میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“ نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔

وِکی پیڈیا (Wikipedia) اور All things Pakistanکے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو 9 اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزاد ی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے جگن ناتھ کو 1979ء میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا

میرا پہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ، کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظم سر تا پا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں ۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا

میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظم نے عمر کا معتد بہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا۔ ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیرمعروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ”جئے ہند“ کے ملازم تھے۔ ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا

پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اور کہا کہ قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ء میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam
۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25 اپریل 1948ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔

”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7 اگست شام سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی 3 جون 1947ء والی تقریر کا اردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا تھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا

لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میر ی تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب 7 اگست 1947ء کو قائداعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھر ساتھ ہی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب ان تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی ان کا نام قائداعظم سے سنا۔

اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہوجانا چاہئے تھا کہ جگن ناتھ آزا د کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947ء میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھر رہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ان کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کا تصو ر بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں

عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979ء میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں ہے۔

وہ جھوٹ بول کر سچ کوبھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف… ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا اور 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔

پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو

ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15 اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا

”توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے“

میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14 اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں، میں ریڈیو پاکستان آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14 اگست سے 21 اگست 1947ء تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ ”آہنگ“ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948 سے چھپنا شروع ہوا۔

18 ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبردینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہوجائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ء تک نشر ہوتا رہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکرکیو ں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیں ہیں“ (1982ء) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا ؟ اس کا ذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائداعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں اس کا ذکر کرتا

جگن ناتھ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کہ پہلے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا

قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود ۔ بشکريہ ۔ جنگ

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ, منافقت on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

11 thoughts on “کيا وِکی پِيڈيا اور آل تھِنگز پاکستان قابلِ اعتبار ہيں ؟

  1. سعد

    شکریہ جناب معلوماتی تحریر شیئر کرنے کیلیے۔
    101 بار کوشش کرنے کے بعد آپ کے بلاگ تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس کا کچھ کریں

  2. سعد

    آل تھنگز پاکستان والوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ قادیانی لابی سے تعلق رکھتے ہیں، مجھے کنفرم نہیں مگر کچھ ایسی افواہ سنی تھی میں نے۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سعد صاحب
    ميں شرمندہ ہوں کہ آپ کو ميری ايک تحرير پڑھنے کيلئے 101 بار کوشش کرنا پڑتی ہے ساتھ ہی حوصلہ افزائی بھی ہوئی کہ ايسے مہربان بھی ہيں جو اتنی کوشش کرتے ہيں
    يہ مسئلہ پی ٹی سی ايل کا ہے ۔ ميں اسلام آباد ميں ہوتا تو شايد کچھ کر پاتا ۔ وہاں پر بھی ميرے ساتھی سب ريٹائر ہو چکے ہيں مگر پھر بھی لوگ کچھ عزت کرتے ہيں ۔ يہاں لاہور ميں تو ميری ٹيليفون لائن کا بھی مسئلہ بنا رہتا ہے ۔
    اگر پی ٹی سی ايل استعمال کرنے والے کچھ لوگ ان کے پيچھے لگے رہيں تو شايد مسئلہ حل ہو جائے

  4. وقاراعظم

    حقائق سے پردہ اٹھا تی بہت اچھی تحریر ہے۔ آل تھنگز پاکستان کے بلاگ پر میں نے اس کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نظم یا ترانہ بہت بہت زبردست تھا اور اسے پڑھنے کے بعد میں یہی سمجھا کہ شاید ایسا ہی ہو۔۔۔۔۔۔۔

  5. باذوق

    جس طرح‌ دینی معاملات میں کچھ گروہ من گھڑت روایات کو “حدیثِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم)” باور کرانے کے درپے ہوتے ہیں اسی طرح دنیوی معاملات میں بھی شائد کچھ جماعتوں نے “مفروضات” کو “مستندات” جتانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ آپ کی تحقیق کے حوالے سے تو کچھ ایسا ہی ثابت ہوتا ہے۔
    اتنے اچھے تحقیقی مقالے کی پیشکشی کا بہت شکریہ۔

  6. محمد سعد

    السلام علیکم۔
    میری رائے میں وکیپیڈیا کا ماڈل (کہ جہاں ہر شخص ترامیم اور اضافے کر سکے) سائنس اور جغرافیہ جیسے موضوعات کے لیے تو مفید ہے جہاں غلط بیانی کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے۔ لیکن مذہب، تاریخ، سیاست جیسے موضوعات میں ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ ایک تو لوگوں میں اختلافِ رائے اتنا شدید ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ جھوٹی معلومات پھیلانے کو کوئی برائی نہیں سمجھتے اور پھر ان موضوعات میں دستیاب معلومات کی تصدیق کرنا بھی کافی مشکل ہوتا ہے۔

  7. محمد سعد

    میرے خیال میں پی ٹی سی ایل والا مسئلہ ان کی غیر معیاری ڈی این ایس سروس کی وجہ سے ہے۔ میں پی ٹی سی ایل کی جگہ گوگل کی ڈی این ایس سروس استعمال کرتا ہوں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
    http://code.google.com/speed/public-dns/
    ڈی این ایس کے مسئلے کی تصدیق کے لیے ویب سائٹ لوڈ ہوتے وقت براؤزر کی سٹیٹس بار کو دیکھیں۔ اگر Looking up http://www.theajmals.com پر اٹک رہا ہے تو ڈی این ایس کا ہی مسئلہ ہے۔
    گوگل کے علاوہ اوپن ڈی این ایس بھی موجود ہے۔
    http://www.opendns.com
    اگرچہ ماہرین کہتے ہیں کہ اوپن ڈی این ایس، ڈی این ایس کے رائج معیارات کے مطابق کام نہیں کرتا اور بعض جگہوں پر اپنی “بونگیاں” بھی مارتا ہے جس کی وجہ سے بعض صورتوں میں بڑا تنگ کرتا ہے۔ لیکن اس میں اپنی اضافی سہولیات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آپ کی اپنی مرضی جسے استعمال کریں۔

  8. محمد سعد

    لگتا ہے کہ پی ٹی سی ایل والے مسئلے کے متعلق میرا تبصرہ بیرونی ویب سائٹس کے روابط کی وجہ سے ماڈریشن میں چلا گیا ہے۔

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد سعد صاحب
    آپ کا خيال درست ہے مسئلہ ڈی اين ايس کا ہی ہے ۔ پی ٹی سی ايل والوں نے اپ گريڈ نہيں کيا ہوا ۔ نمعلوم کونسی پرانی ورڎن استعمال کر رہے ہيں
    آپ کا تبصرہ تين روابط کی وجہ سے ماڈريشن ميں چلا گيا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.