ميرے ہموطنوں ميں سے کچھ بڑے زور شور سے آزادی اظہارِ خيال کا راگ الاپ رہے ہيں اور گستاخ خاکوں پر احتجاج کرنے والوں کو طرح طرح کے القاب سے نواز رہے ہيں يہاں تک کہ اُن ميں اعلٰی تعليميافتہ افراد کی موجودگی کے باوجود اُنہيں جاہل اور انتہاء پسند کہا گيا ہے ۔ فرنگيوں کے ممالک ميں اظہارِ خيال کی جتنی آزادی ہے اُس کی چند مثالوں کا حوالہ 23 مئی 2010ء کو ديا تھا ۔ آج ايک تحرير پر نظر پڑ گئی جس ميں صرف سن 2010ء کے 3 ماہ ميں فرنگی حکومتوں جن ميں امريکہ ۔ کينيڈا اور يورپ کے کئی ممالک شامل ہيں نے يہوديوں کے خلاف اظہارِ خيال کرنے کے 21 واقعات ميں 24 افراد کو سزائيں ديں ۔ ان ميں 7 پندرہ سے 17 سال کی عمر کے بچے ۔ ايک پادری ۔ ايک 83 سالہ شخص اور ايک سياستدان ہے ۔ 3 ٹی وی چينل اور ايک اخبار بند کئے گئے اور ايک سياسی جماعت غيرقانونی قرار دی گئی ۔ ملاحظہ ہو مکمل تحرير
تحرير ۔ اوريا مقبول جان بتاريخ 22 مئی 2010ء ۔ بشکريہ ۔ ايکسپريس
يہودی دنيا کی معشيت کا ايک بڑا حصہ کنٹرول کرتے ہيں اسليے وہ ڈّاڈے کے زور سے خوفزدہ ہيں آپ سے وہ کيوں ڈريں
اسماء بتول صاحبہ
وہ يہوديوں سے ڈرتے ہيں اور ميرا دل يہ جو آپ نے نام رکھا ہے اپنا اسے بول بول کے چھلنی ہو چکا ہے ۔ اب مزيد نہيں کہا جاتا مجھ سے ۔ ہر بار ايسے لگتا ہے جيسے بلاوجہ تھپڑ مارا ہے
ہم خود تو کسی قابل بن نہین سکے
احتجاج کر کے ہی ایک الگ شناخت بنا لیتے ہیں
بائیکاٹ تو ہمارا حق ہے نا جی
کیا اب ہم بلاک بھی نہیں کر سکتے ایسی ویب کو
بس ایسے ہی سہی
دل بہلانے کو خیال اچھا ہے
کیا کریں ترقی ابھی ہم سے بہت دور ہے
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
فيس بک ايشو – امريکی حکومت کا موقف
ميں يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت کی پاليسی اور سوچ ايسے کسی بھی اقدام کے خلاف ہے جس کا مقصد دانستہ کسی بھی مذہب يا گروہ کے خلاف مذموم ارادے کے ساتھ نفرت کی تشہير کر کے تشدد کو ہوا دينا ہے۔ ايسے کسی قدم سے کوئ تعميری مقصد حاصل نہيں ہوتا بلکہ اس کے برعکس مختلف کميونٹی سے متعلق افراد کے مابين رائج خليج کو کم کرنے کے لیے بات چيت اور باہمی احترام کی بنياد پر کی جانے والی تعميری اور مثبت کوششوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
صدر اوبامہ نے قائرہ ميں اپنے خطاب کے دوران اپنے موقف کی وضاحت ان الفاظ کے ساتھ کی تھی
“امریکہ کے صدر کی حیثیت سے میں اسے اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں جہاں کہیں گھسے پٹے منفی خیالات پائے جاتے ہیں، ان کے خلاف جنگ کروں۔ مغربی ممالک کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ مسلمان شہریوں پر اپنی مرضی کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے سے روکنے سے گریز کریں ۔ سادہ الفاظ میں، ہم کسی مذہب کی طرف عناد کو ترقی پسندی کی آڑ میں نہیں چھپا سکتے۔”
اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک دشوار اور قابل توجہ ايشو ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ فيس بک پر جو خاکے شائع ہوۓ ہيں وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غير مسلموں کے جذبات بھی مجروح کرنے کا سبب بنے ہيں۔ ہم اس حوالے سے شديد تشويش رکھتے ہيں کہ دانستہ مسلمانوں يا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے جذبات کو ٹھيس پہنچائ جاۓ۔ ہم بھڑکانے والی ايسی کسی راۓ کی حمايت نہيں کرتے جس کا مقصد نفرت اور تشدد کو فروغ دينا ہے۔
فيس بک کے جس صفحے نے اس ايشو کو شروع کيا ہے وہ ايک نجی ادارے کی ويب سائٹ پر پوسٹ کيا گيا ہے۔ اس وقت يہ فيس بک اور حکومت پاکستان کے درمیان ايک قانونی معاملہ ہے۔ ليکن اس سے قطع نظر ہم اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ شر انگيز خطاب يا راۓ کا بہترين جواب ڈائيلاگ اور بحث ہے اور ہم ايسے اشارے ديکھ رہے ہيں کہ پاکستان ميں يہی رجحان فروغ پا رہا ہے۔ حکومتوں کی يہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آزادی راۓ کے اظہار اور معلومات کی دستيابی کو يقينی بنائيں۔
عدم برداشت کا بہترين علاج قابل اعتراض مواد پر پابندی يا سزا نہيں بلکہ امتيازی سلوک اور نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف موثر قانونی تحفظ کو يقينی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اور اقليتی مذہبی گروہوں کے مابين روابط کو فروغ دینا بھی ضروری ہےتا کہ آزادی راۓ کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کے تحفظ کو يقینی بنايا جا سکے۔
ہم پاکستانی قانون کے تحت ايسے کسی بھی عمل کا احترام کرتے ہيں جس کی بنياد لاکھوں افراد کے انٹرنيٹ کے ذريعے آزاد راۓ کے حق اور معلومات تک آزاد رسائ کے حق کو پامال کيے بغير اپنے شہريوں کو قابل اعتراض مواد سے محفوظ رکھنا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
فواد صاحب
اپ نے لکھا ہے “عدم برداشت کا بہترين علاج قابل اعتراض مواد پر پابندی يا سزا نہيں بلکہ امتيازی سلوک اور نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف موثر قانونی تحفظ کو يقينی بنانا ہے”۔ تو پھر اپنی حکومت سے کہيئے کہ قانون بنائے تاکہ آپ کے ملک امريکہ ميں موجود فيس بُک کے سرور پر نفرت انگيز مواد لکھنے پر تاديبی کاروائی کی جائے ۔ تقرير تو ميں آپ سے زيادہ لمبی اور مؤثر کر سکتا ہون ۔ ہميں الفاظ کی نہيں عمل کی ضرورت ہے جيسے آپ کی حکومت کے عمل کی اوپر شائع کئے گئے مضمون ميں نشاندہی کی گئی ہے
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
مختلف فورمز اور بلاگز پر يہ سوال اٹھايا گيا ہے کہ اگر امريکی حکومت فيس بک کی پاليسيوں اور ان کے اقدامات کو سپورٹ نہيں کرتی تو پھر حکومت ان اقدامات کے نتيجے ميں فيس بک کے خلاف قانونی چارہ جوئ کيوں نہيں کرتی۔
امريکی آئين اور قانونی نظام ميں جو قواعد و ضوابط متعين کر ديے گۓ ہیں ان کی روشنی ميں امريکی حکومت کسی بھی نجی ادارے يا فرد کو اس بات پر مجبور نہيں کر سکتی کہ وہ کسی مخصوص نقطہ نظر کی پاسداری کريں يا کسی مذہب يا سياسی نظريے اور ان کے تحت متعين کردہ حدود کی پابندی کو ملحوظ رکھيں۔ کچھ ہفتے قبل امريکی سينيٹرز کے ايک گروپ نے فيس بک کو ايک خط لکھا تھا جس ميں پرائيويسی کے حوالے سے فيس بک انتظاميہ کے قوانين اور متعلقہ کنٹرولز سے متعلق خدشات اور تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔
http://www.politico.com/news/stories/0410/36406.html
يہ طريقہ کار اور اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے آگاہی پيدا کرنے کی کوشش اس رائج نظام اور قوانين کے عين مطابق ہے جس ميں ہر شخص کو اپنے نقطہ نظر کے اظہار کی آزادی حاصل ہے۔ ليکن امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ وہ ايک ايسے ميڈيم پر اپنے خيالات کے پرچار کی پاداش ميں افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئ کرے جس کا بنيادی خيال ہی يہ ہے کہ مختلف مذاہب، ثقافت اور سوچ کے حامل افراد اپنی راۓ کا اظہار کريں۔
اس ضمن میں ميرا بھی ايک سوال ہے۔ کيا پاکستان ميں مختلف ميڈيا پر جس مواد کی تشہير کی جاتی ہے کيا وہ حکومتی پاليسی کے عين مطابق ہے؟ يا پاکستان کے مختلف مذہبی گروہوں اور فرقوں کی مذہبی اور سياسی سوچ سے مکمل ہم آہنگ ہے؟
ايک آزاد اور جمہوری معاشرے ميں ہم ايسے خيالات، نظريات، خبروں اور رپورٹس کو سنتے ہيں جو حکومتی سوچ کے برخلاف ہوتی ہيں اور افراد کی انفرادی سوچ کی آئينہ دار ہوتی ہيں۔
آپ يہ کيوں بھول رہے ہيں کہ ايرانی صدر اور مختلف عرب ليڈروں نے ہالوکاسٹ کے حوالے سے اپنے خيالات کا اظہار امريکی فورمز پر ميڈيا کے سامنے کئ بار کيا۔ ان خيالات کو بغير کسی سنسرشپ کے عوام کے سامنے پيش کيا گيا۔ اس موقع پر بھی کسی بھی ميڈيا کے ادارے کے خلاف امريکی حکومت نے ان نظريات کی تشہير کی پاداش ميں کوئ قانونی کاروائ نہيں کی تھی باوجود اس کے کہ امريکی معاشرے کے مختلف طبقوں نے اس بات پر احتجاج کيا تھا کہ ان نظريات سے ان کے جذبات کو ٹھيس پہنچی ہے۔
آزادی راۓ کے حوالے سے قانونی تحفظ امريکی آئين ميں موجود ہے۔
“Congress shall make no law respecting an establishment of religion, or prohibiting the free exercise thereof; or abridging the freedom of speech, or of the press; or the right of the people peaceably to assemble, and to petition the Government for a redress
of grievances.”
“First Amendment freedoms are most in danger when the government seeks to control thought or to justify its laws for that impermissible end. The right to think is the beginning of freedom, and speech must be protected from the government because speech is the beginning of thought.”—Supreme Court Justice Anthony M. Kennedy, Ashcroft V. Free Speech Coalition
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
فواد صاحب
يہ امريکہ کی دوغلی پاليسی ہے ۔ اگر يہوديوں کے خلاف يا نام نہاد ہالو کاسٹ کے خلاف کوئی بات کرے تو اُس کے خلاف فوری کاروائی کی جاتی ہے اور امريکہ کی ساری مشينری حرکت ميں آ جاتی ہے ۔ فرد ہو تو جيل ميں ڈال ديا جاتا ہے اخبار يا ادارہ ہو تو بند کر ديا جاتا ہے ۔ يہ قوانين کيا امريکيوں نے نہيں بنائے تھے ؟
مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے تو يہ اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی ہے اور اس کے خلاف قانون نہيں بنايا جا سکتا ۔ اسے کہتے ہيں بغل ميں چھری منہ ميں رام رام
ذرا اسرائيل اور جموں کشمير کے متعلق بھی اپنی رائے کا اظہار کر ديجئے تاکہ آپ کی انسان دوستی مزيد واضح ہو جائے
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
يہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہيے کہ امريکی حکومت نہ تو مغربی ممالک ميں رائج قوانين کے لیے ذمہ دار ہے اور نہ اس ضمن میں امريکہ کو مورد الزام ٹھہرايا جا سکتا ہے۔ ايسے بہت سے مغربی اور غير مسلم ممالک ہيں جہاں پر قانونی فريم ورک، آئينی اصول اور آزادی راۓ کے حوالے سے قوانين امريکی معاشرے ميں متعين کردہ بنيادی جمہوری اصولوں سے متصادم ہيں۔
امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور بے شمار نجی تنظيميں ہر سال ايسی بے شمار رپورٹس مرتب کرتی ہيں جن ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے عالمی برادری ميں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جہاں تک اس عمومی تاثر کا تعلق ہے کہ امريکہ ميں يہوديوں يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مواد کی اجازت نہيں ہے تو حقائق اس کے بالکل منافی ہيں۔ حال ہی ميں ايک ايسی ويڈيو گيم منظر عام پر آئ جس کے خلاف امريکہ ميں موجود يہودی کميونٹی ميں شديد اضطراب محسوس کيا گيا اور ان کی جانب سے احتجاج بھی کيا گيا تھا۔
http://www.haaretz.com/jewish-world/jewish-community-takes-on-comedy-central-s-anti-semitic-stereotypes-1.291189
ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکہ ميں ايسی بے شمار مثاليں موجود ہيں جب کسی مخصوص بيان، فلم، ٹی وی شو، کارٹون، کتاب يا کسی بھی اور ميڈيم کے ذريعے دانستہ يا غير دانستہ اظہار راۓ کے نتيجے میں معاشرے کے کسی نے کسی گروہ نے تضحيک محسوس کی اور اپنے ردعمل کا اظہار کيا۔ اسی ضمن ميں ايک مثال حاليہ فلم “اينجلز اور ڈيمنز” کی بھی دی جا سکتی ہے جس کی ريليز پر عيسائيوں کی ايک بڑی تعداد نے شديد منفی ردعمل کا اظہار کيا تھا۔
يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ صرف مسلمان ہی آزادی راۓ کے حق کے قانون کی آڑ ميں نشانہ بناۓ جاتے ہيں۔
ليکن يہ مطالبہ يا توقع غير منطقی اور امريکی آئين کے خلاف ہے کہ ايسے ہر اقدام کے بعد امريکی حکومت ايسے افراد کی گرفتاری شروع کر دے جو کسی بھی میڈيم کے ذريعے اپنی راۓ کے اظہار کے حق کو استعمال کريں۔ اس ضمن ميں سب سے موثر اور تعميری ردعمل يہ ہے کہ معاشرے کی متنوع کميونٹيز کے مابين ڈائيلاگ اور بحث و مباحثے کے ذريعے بہتر شعور اور آگاہی کے رجحان کے فروغ ديا جاۓ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
فواد صاحب
آپ کيوں جھوٹ بول کر اور فضول بحث مین ميرا وقت ضائع کر رہے ہيں ؟
جس مضمون کا ميں نے عکس شائع کيا ہے اسے پڑھيئے ۔ اس میں کم از کم تين واقعات لکھے ہيں جو امريکا ميں وقوع پذير ہوئے ہيں صرف اس سال کے 3 مہينوں میں
اور يہ بھی بتايئے کہ اسرائيل کی دہشتگردی کے خلاف ہر قرارداد کو امريکا ويٹو کيوں کرتا ہے ؟ خواہ اس ميں صرف مذمت کيلئے کہا گيا ہو ۔ يہی ہے انسان دوستی اور اظہارِ رائے کی آزادی جس کا آپ رونا رو رہے ہيں ؟
فواد صاحب
آپ خود حقيقت کو رد کر کے سياسی جھوٹ کو حقيقت کہہ رہے ہيں ۔ آپ اپنی نوکری پوری کر رہے ہيں مگر جھوٹے مفروضے کی بنياد پر ميرا وقت ضائع کر رہے ہيں ۔
مُرغے کی ايک ٹانگ آپ نے کھا لی ہے اور اب باور کرانا چاہتے ہيں کہ مْرغے ہوتے ہی ايک ٹانگ والے ہيں ۔ جس مضمون کا عکس ميں نے اُوپر لگايا ہے وہ فرنگی دنيا کی تين ماہ کی تعصبانہ کاروائی ہے جس ميں سے تين واقعات آپ کے رياستہائے متحدہ امريکا کے ہيں ۔ جھوٹی نيند سے جاگ جايئے اور آنکھيں کھول کر اس مضمون کو پڑھ ليجيئے ۔
نور فورک ميں 6 مئی 2010ء کو ايک شخص کرسٹوفر بروکس کو عدالت نے 5 سال قيد کی سزا اس لئے دی کہ اُس نے يہوديوں کو بُرا کہا تھا
يوجين ميں 25 مارچ 2010ء کو پوليس نے مائيکل رسٹر کو اسلئے گرفتار کيا کہ اُس نے يہوديوں کو بُرا کہا تھا
ٹيکساس ميں 18 مارچ کو ايک فرم برادر سکاٹ کو عدالت نے ايک لاکھ 15 ہزار ڈالر جرمانہ کيا کيونکہ اس فرم کے سربراہ نے “گندھے يہودی” کا لفظ اپنے منہ سے نکالا تھا
يہی ہے آپ کے آقاؤں امريکا کی اظہارِ خيال کی آزادی اور يہی ہے اُن کا قانون ؟