دس بارہ سال قبل جو حالت تھی عوام اُس سے بھی خوش نہ تھے مگر اُس کے مقابلے ميں آج جو حالت ہے اُس کا اندازہ ميں اس سے لگاتا ہوں کہ 1999ء ميں چکی کا آٹا يعنی مکمل گندم چھوٹی چکی پر پِسی ہوئی 10 روپے فی کلو گرام اور ايک سال پرانے چاول سُپر باسمتی 25 روپے فی کلو گرام خريدتا تھا ۔ اب وہی آٹا 35 روپے اور وہی چاول 90 سے 110 روپے ميں خريدتا ہوں
چاروں طرف شور مچا ہے “حُکمران چور ۔ حُکمران کھا گئے ۔ حُکمران کچھ نہيں کرتے”۔ اس شور کو سُن کر مجھے يہ کہانی ياد آتی ہے جو کسی بزرگ نے تين دہائياں قبل سنائی تھی
ہمارے لوگوں کا شغف ہے کہ حکومت کو جب تک بُرا نہ کہا جائے حُب الوطنی اور ذہانت ثابت نہيں ہوتی ۔ ايک محفل ميں اسی طرح حکومت کو باری باری کوسا جا رہا تھا کہ آخر ميں چوہدری صاحب بولے “ميں نے تو ڈی سی کو کھری کھری سُنا ديں”
سب انگشت بدنداں رہ گئے ۔ ايک شخص جو خاموش بيٹھا سب کی باتيں سُن رہا تھا بولا “چوہدری صاحب ۔ اگر آپ پھر کبھی ڈی سی کے پاس جائيں تو مجھے ضرور بتائيں”
اگلے ماہ چوہدری صاحب نے اُسے بتايا اور وہ وقت مقررہ پر چوہدری صاحب کے گھر پہنچ گيا ۔ چوہدری صاحب اُسے ساتھ لے کر ڈی سی کے دفتر کے پچھلی طرف پہنچے ۔ شام کے چھ بجے تھے وہاں کوئی آدم زاد نہ تھا ۔ چوہدری صاحب نے ڈی سی پر لعن طعن شروع کی حتٰی کہ گالی گلوچ تک پہنچ گئے ۔ وہ شخص حيران و پريشان ديکھتا رہا ۔ جب چوہدری صاحب تھک گئے تو اُس شخص سے کہنے لگے “چلو چليں”
اُس شخص نے کہا “چوہدری صاحب ۔ يہاں تو کوئی بندہ ہے نہ بندے کی ذات ۔ آپ نے گالياں کس کو دی ہيں ؟”
چوہدری صاحب جھٹ سے بولے ” کيا تم چاہتے ہو کے ميں ڈی سی کو اُس کے سامنے گالياں دوں ؟ مجھے اندر کروانا ہے ؟”
ہاہا ہمارا قومی مزاج کچھ کچھ ایسا ہی ھے۔ اب آپ کہیں گئے۔کہ ہم ایسے ہی ھیں۔محترم اب صاف ستھرا آئینہ تو نہ دیکھائیں۔ہم تھوڑے کم شکل ہیں۔
واہ جی واہ، آپ نے تو ہمارے قومی مزاج کی بہت اچھی منظر کشی کی ہے۔ ساری قوم چوہدری صاحب کے نقش پاء پرہی چل رہی ہے۔
محترم بھوپال صاحب آپکا یہ بلاگ واقعی بہت پسند آیا اور تبصرہ کرنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ پرسنل نہ ہونے کے وعدے کے ساتھ آپ سے بھی توقع ہے کہ آپ بھی ٹالریٹ کرینگے اور ایسا اب تک آپ کر بھی چکے ہیں ۔
اسر خوامخواہ جاپانی و محمدوقاراعظم صاحبان
حوصلہ افرازی کا شکريہ ۔ ہو سکے تو دعا کيجئے کہ اللہ مجھے صراط مستقيم پر قائم رکھے
ہیلو۔ہائے۔اےاواے صاحب
آپ نے وعدہ کيا اور اُميد ہے کہ ياد رکھيں گے
انکل آپ کو کيسے پتہ چلا آپ صراط مستقيم پر ہيں ميں نے بھی اپنے صراط کا پتہ چلانا ہے مستقيم يا منحني، پل صراط پر پہنچنے سے پہلے پہلے
اسماء بتول صاحبہ
يہ صراط المستقيم کہاں سے آ گيا ؟ اس تحرير ميں ميں اس کا ذکر کہا کيا ہے ؟
تبصرے ميں تو ذکر کيا ہے ناں
اسماء بتول صاہبہ
پہلے آپ يہ بتايئے کہ پُل صراط کيا ہوتا ہے ؟
وہ کيا اکثر ذکر ہوتا ہے کہ روز قيامت بال کی طرح باريک پل سے گزر کر جانا ہو گا اسکا نام پل صراط نہيں تھا کيا؟ يا ميں بھول گئی ہوں آپ بتا ديں امی سے پوچھوں گی تو پہلے ايک تقرير سننی پڑے گی
اسماء بتول صاحبہ
عِلم حاصل کرنے کيلئے بڑے خطرے مُول لينا پڑتے ہيں ۔اور آپ اپنی اماں سے ڈر رہی ہيں ۔ اتنی دور بيٹھے وہ آپ کو ڈنڈا تو مار نہيں سکتيں کيا اُن کا باتيں کرنا بھی آپ کی برداشت سے باہر ہے ؟ ماں کے پاؤں کے نيچے جو جنّت ہے وہ کيسے ملے گی ؟ پُل صراط والی بات ميں نے کسی کتاب ميں نہيں پڑھی اور نہ ميری اماں نے مجھے کوئی ايسی بات بتائی ۔ ميری بيوی نے بھی مجھے ايسی کوئی بات نہيں بتائی ۔ اب ميں آپ کو کيا بتاؤں ؟