چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ عوامی نظریہ ضرورت

ہنری بريکٹن [1210 تا 1268ء] ايک برطانوی ماہرِ قانون تھا جس نے کہا تھا “جو عمل قانونی نہ ہو وہ ضرورت کے تحت قانونی بن جاتا ہے”۔ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل غلام محمد نے من مانی چلانے کيلئے بغير کسی جواز کے پہلے مُنتخب وزير اعظم پھر مُنتخب کابينہ فارغ کر دی اور پھر پاکستان کی مُنتخب اسمبلی کو 24 اکتوبر 1954ء کو اُس وقت چلتا کيا جب اسمبلی پاکستان کا آئين متفقہ طور پر منظور کرنے والی تھی ۔ اس کے خلاف اسمبلی کے سپيکر مولوی تميز الدين صاحب نے سندھ چيف کورٹ [اب ہائيکورٹ] میں پيٹيشن دائر کر دی جو منظور ہو گئی ۔ غلام محمد اور اس کے نامزد نئے وزراء نے اس کے خلاف اپيل دائر کی جس کا فيصلہ مارچ 1955ء ميں عدالت نے جسٹس منير کی سربراہی میں غلام محمد کے حق میں دے ديا ۔ اس کے نتيجہ میں 1950ء سے لے کر اُس دن تک جو بھی کاروائی ہوئی تھی سب غيرقانونی ہو گئی ۔ اس انتشار سے بچنے کيلئے غلام محمد نے اسمبلی توڑنے کے علاوہ تمام احکام کی پرانی تاريخوں سے منظوری کا حکمنامہ جاری کر ديا ۔ اس کالے قانون ‘نظريہ ضرورت” کا استعمال بار بار کيا گيا جس کے نتيجہ میں ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے

يہ تو معاملات حکومتی ہيں جنہيں آج تک سب بُرا کہتے آئے ہيں ليکن “نظريہ ضرورت” کا کُليہ ہماری قوم کی رگوں میں اس قدر حلُول کر چکا ہے کہ جسے ديکھو وہ پورے کرّ و فر سے اس کا استعمال کر رہا ہے ۔ بات چاہے پہاڑوں پر برف پڑنے سے شروع ہو يا درياؤں کا پانی کم ہونے سے ۔ نظامِ تعليم سے يا کھيلوں سے ۔ بات پٹرول اور گيس کی قمتيں بڑھنے کی ہو يا بجلی کی کمی کی ۔ کسی طرح گھسيٹ گھساٹ کر اس میں اسلام اور انتہاء پسندی ضرور لائی جاتی ہے يا کسی طرح مُلا کے اسلام سے ناپسنديدگی کا اظہار ضرور ہوتا ہے

کبھی ان باعِلم اور ہرفن مولا لوگوں نے سوچا کہ يہ مُلا آئے کہاں سے آئے ہيں ؟ اور اِنہيں مسجدوں میں کس نے بٹھایا ہے ؟

جن لوگوں کو مُلا کا اسلام پسند نہيں وہ کونسا اسلام رائج کرنا چاہتے ہيں ؟ وہ اسلام جو اُنہيں من مانی کرنے کی اجازت دے ؟

ايک مسئلے کا حل تو ان لوگوں کے ہاتھ ميں ہے ۔ اگر یہ مُلا بقول ان کے جاہل ہیں تو اپنے محلے کی مسجد کے مُلا کو ہٹا کر وہاں دين اسلام میں اعلٰی تعليم یافتہ آدمی کو مسجد کا امام بناديں ۔ کس نے ان کو ايسا کرنے سے روکا ہے ؟ ليکن وہ ايسا نہيں کريں گے کيونکہ يہی مُلا جس کو وہ اپنی تقريروں اور تحريروں میں جاہل ۔ انتہاء پسند اور نجانے کيا کچھ کہتے ہيں وہ اپنا اور اپنے بيوی بچوں کا پیٹ بھرنے کيلئے محلہ والوں کا دستِ نگر ہے اور اُن کے ہر جائز و ناجائز فعل پر اُن کی مرضی کا فتوٰی ديتا ہے

تعليم يافتہ امام مسجد رکھيں گے تو پندرہ بيس ہزار روپيہ ماہانہ تنخواہ مانگے گا ۔ بات صرف وہ کرے گا جو قرآن و حديث میں ہے اور محلہ والوں کے خلافِ دين افعال پر تنقيد بھی کرے گا ۔ ايسے شخص کو يہ لوگ کيسے برداشت کر سکتے ہيں ؟

ايک اور پہلو ہے جسے شدّ و مد کے ساتھ نظر انداز کيا جاتا ہے ۔ کيا يہ مُلا ہمارے ہی معاشرہ کا حصہ نہيں ہيں ؟ کونسی بُرائی ہے جو ہمارے معاشرے کے ہر طبقہ ميں نہيں ؟ پھر اگر ايک شخص نے داڑھی رکھ لی ہے اور اُس ميں وہی بُرائی ہے جو معاشرے کے دوسرے طبقات جن ميں اکثر مراعات يافتہ ہيں ميں بھی ہے تو مطعون صرف داڑھی والے کو کيوں کيا جاتا ہے ؟

لوگ صرف باتوں پر اکتفا کرتے ہيں کہ آج کی سياست اور کشادہ نظری کی بنياد تقرير و تحرير پر قائم ہے عمل پر نہيں
جبکہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

This entry was posted in روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

10 thoughts on “چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ عوامی نظریہ ضرورت

  1. یاسر خوامخواہ جاپانی

    باعِلم اور ہرفن مولا اور میرے جیسے عام فہم کے لوگ اسی معاشرتی برائی اور اسی طرح کے مسلط کئے ھوئے ملا کے خلاف ھیں۔اور اس ملا کے دین کی پیروی کرنا نہیں چاہتے۔لوگوں کو دین اسلام چاہے دین ملا نہیں۔داڑھی کی برائی میں نے کسی بھی باعِلم اور ہرفن مولا شخص سے نہیں سنی۔میں ملا قتل الدین کا سخت مخالف ہوں۔لیکن ننھی منی سی ھی سہی داڑہی رکھی ھوئی ھے۔میرے خیال میں دس ہزار سے کم پر دور دراز کے مولوی صاحب کے علاوہ کوئی بھی مولوی صاحب ملائیت نہیں کر رہے۔تو پڑھا لکھا عا لم ہمارا رہبروامام کیوں نہیں ھوسکتا؟قبضہ گروپ مولوی سے کیوں کوئی ہماری جان نہیں چھڑاتا۔

  2. ہیلو۔ہائے۔اےاواے

    نظریہ ضرورت ایسی شے کو کہا جاتا جسے بوقت ضرورت برا بھی کہا جاسکے اور ضرورت کے تہت بھلائی کے کاموں کے استعمال بھی کیا جاسکے ۔اگر کسی کو اس میں شک ہے تو وہ جو کچھ بھی کہے گا منہ کی ہی کھائے گا ۔ کوشش تو کرتے ہی رہنا چاہئیے مگر کامیابی مشکل ہے کیونکہ آپ بذات خود ہی اس کام میں سب سے پہلی رکاوٹ ہونگے ۔

  3. جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین

    ہماری حکومتیں پڑھے لکھے ملا کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ پڑھا لکھا ملا جھوٹ اور مکر و فریب پہ قائم حکومتوں کے بہت بڑا سردرد بن جائے گا۔ عام آدمی یعنی عوام کی اخلاقی اور دینی تربیت کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہیرا پھیری ، بدیانتی جھوت ، مکر و فریب، عدم رواداری، قتل و غارت، الغرض ہر اس غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکات اور روئیے کو درست کرے گا جس سے اسلام نے منع کیا ہے اور نتیجے میں ایک بہتر معاشرہ وجود پائے گا۔ جس سے سیاسی پارٹیز کو کاٹھ کے الو ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے۔

    باشعور ملا کے وجود سے قوم کو انقلابی وجود عطا ہوجائے گا مگر مکر و فریب کا وجود پارہ پارہ ہوجائے گا جس کی بنیاد پہ ہمارے بادشاہ لوگ پچھلے باسٹھ سالوں سے عیش کرت آرہے ہیں اور قوم کے کُل جملہ وسائل کے بلاشرکت غیرے یعنی عوام کے مالک و مختار ہیں۔

    ہمارے بادشاہ لوگ اب اتنے بھی بھولے نہیں کہ وہ یوں ہونے دیں۔ باسٹھ سالوں سے انکی کوشش رہی ہے کہ حکومتی و نجی تعلیمی اداروں، مساجد اور دیگر مدرسہ جات میں کسی قسم کے ریفارم مت کئیے جائیں اور ہمارے باشاہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انگریز سے ملے اس وراثتی “اسٹیٹس کو” کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ستم ظریفی مللاحظہ ہو کہ اس کا ساقصور بھی نہائت عیاری سے عام آدمی ، عام مسلمان، اور عام سے مُلا پہ ڈال کر خود باقی سارے معاملے سے ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں۔

  4. افتخار اجمل بھوپال

    [ميرے نام سے مندرجہ ذيل تبصرہ ہیلو۔ہائے۔اےاواے کے نام سے تبصرہ کرنے والے نے مجھے بدنام کرنے کيلئے لکھا ہے ۔ افتخار اجمل بھوپال]

    میرے ساتھ تو تو تو تو تو شائشتگی سے بات کریں ورنہ میری میری میری میری میری ناشائشتگی کی بہت بہت بہت بہت بہت ہی معقول وجہ ہے اور اگر اس معقولیت کا ثبوت مانگا تو تو تو تو تو میں بھی دیکھ لونگا اور اور اور اور اور وہ بھی دیکھ لینگے ۔

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    یاسر خوامخواہ جاپانی صاحب
    سوائے فيصل مسجد اسلام آباد کے حکومتِ پاکستان اسلام آباد ميں مسجد کے امام جس کا عہدہ خطيب کہلاتا ہے کو کل چھ ہزار روپيہ ماہانہ تنخواہ ديتی ہے ۔
    جاہل ملاؤں کو ہٹانا کيوں مشکل ہے ميں نے اُوپر لکھ ديا ہے مزيد جاننے کيلئے
    جاہل ملا کہاں سے آئے پر ميری تحرير ميں کلک کيجئے

  6. محمد سعد

    السلام علیکم۔
    آج کل میرے امتحانات چل رہے ہیں تو نظریہ ضرورت پڑھتے ہی لوگوں (98 فیصد طلباء، ان میں سے تقریباً سب کے والدین اور حتیٰ کہ کچھ نگرانوں تک) کے وہ گھسے پٹے دلائل یاد آ گئے جو وہ نقل کو جائز قرار دینے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ شاید اس کا ذمہ دار بھی یہ لوگ خود نہیں بلکہ ملا ہی ہے۔ ہیں جی؟
    یا پھر۔۔۔
    چھوڑیں جی کیا ملا کو اس کا جائز مقام دلوانے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ علمائے دین کی عزت ہونا شروع ہو گئی تو ضرورت کے وقت ہم خود ناجائز کام کیسے کیا کریں گے؟

  7. محمد سعد

    السلام علیکم چاچا حضور۔
    اوپر جس نے آپ کے نام سے جعلی تبصرہ کیا ہے اس کے ساتھ واضح کر دینا چاہیے کیونکہ ہر قاری اگلی تحاریر تو نہیں پڑھے گا۔
    شاید اس تبصرے کی تدوین کر کے اس میں واقعے کی تفصیل کا لنک ڈالنا مناسب رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.