مسلمان کے مسلمان کو ملنے پر السلام عليکم کہنے کا حُکم اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ديا ہے ۔ السلام عليکم کا مطلب جيسا کہ سب جانتے ہيں “آپ پر سلامتی ہو”۔ ليکن ہمارے معاشرے ميں جو شکُوک کا شکار ہو چکا ہے اتنے اچھے الفاظ کے پسِ پردہ معنی تلاش کئے جاتے ہيں
ديکھا گيا ہے کہ ايک شخص ايک گروہ يا محفل ميں آتا ہے اور پُرتپاک طريقہ سے السلام عليکم کہتا ہے ۔ سلام بھيجنے والے کے دل ميں کيا ہے سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا مگر مختلف مخاطب افراد اس سلام کو مختلف طريقہ ميں وصول کرتے ہيں جس کی کچھ صورتيں يہ ديکھنے ميں آئی ہيں
“اچھا خوش اخلاق شخص ہے”
“آج بہت خوش نظر آ رہا ہے ؟”
“اتنے تپاک سے سلام ۔ ضرور کوئی ذاتی غرض ہو گی”
“دال ميں ضرور کچھ کالا ہے”
کچھ ايسے بھی ہوتے ہيں جن پر سلام کا کوئی اثر نہيں ہوتا
دراصل کسی بھی اطلاع يا خبر رسائی کا ادراک يا شعور سامع کی نہ صرف تعليم و تربيت اور ماحول بلکہ اس خاص لمحہ پر اُس کی ذہنی حالت پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔ سلام بھی ايک اطلاع يا خبر ہوتی ہے ۔ چنانچہ سلام خواہ کتنے ہی پُرخلوص جذبات کا حامل ہو مخاطب افراد کی عِلمی سطح ۔ تربيّت اور ماحول سلام کرنے والے سے مختلف ہو تو سلام کا ردِ عمل کم ہی درست ہو گا
کوئی بھی کہا گيا جُملہ دو زمرات ميں رکھا جا سکتا ہے ۔ ايک ۔دعوٰی ۔ اور دوسرا ۔ توضيع ۔ اور ايک ہی دعوٰی کی کئی توضيعات ہو سکتی ہيں جن کا انحصار مخاطبين کی اقسام يا جذباتی کيفيات پر ہوتا ہے ۔ انسانی تعلقات ميں خبر رسائی ايک اہم مقام رکھتی ہے ۔ اگر مخاطبين کی اکثريت دعوٰی کی درست توضيع کرنے سے قاصر رہے تو اچھے تعلقات استوار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اور اسی بناء پر کج فہمی اور انتشار جنم ليتے ہيں اور معاشرہ بگاڑ کی راہ پر چل نکلتا ہے
وجہ خواہ غير مساوی تعليم ہو يا ناقص تربيت مختلف افکار رکھنے والے افراد ايک ہجوم تو بن سکتے ہيں مگر قوم نہيں ۔ ہجوم کو جوش يا طيش دِلا کر اس سے بربادی کا کام تو ليا جا سکتا ہے مگر تعميری کام نہيں ليا جا سکتا ۔ ہم ايک مضبوط قوم تھے ليکن پۓ در پۓ حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور قوم کی لاپرواہی کے نتيجہ ميں ہم افراد کا ہجوم بن چکے ہيں ۔ اللہ کرے وہ وقت پھر آئے جب ہمارے اربابِ اختيار انگوٹھے اور کلائی کے زور کی بجائے دماغی سوچ سے کام لينے لگيں
يہ خلاصہ ہے ميرے ايک تحقيقاتی مقالے کے تين ابواب ميں سے ايک کا جو ميرے دس سالہ تجربہ اور وسيع مطالعہ اور کئی سرويز [surveys] پر مبنی تھا اور مارچ 1975ء ميں غور اور اطلاق کيلئے حکومتِ پاکستان کے متعلقہ محکمہ کے حوالے کيا گيا تھا ۔ شايد ايسے کئی تحقيقاتی مکالے اُن کی الماريوں ميں پڑے ديمک کی خوراک بن چکے ہوں گے
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو “ساما لیکم” کہتے ہیں!
سعد صاحب
ايسا يہودی کہتے تھے ۔ اس کيا مطلب اچھا نہيں ہے
” ہم ايک مضبوط قوم تھے ليکن پۓ در پۓ حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور قوم کی لاپرواہی کے نتيجہ ميں ہم افراد کا ہجوم بن چکے ہيں”
یہی تو مصیبت ہے کہ ہم ایک قوم نہ بن سکے۔
ہاں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے اندر ذرا سا بھی خلوص اور محبت ہے تو بالآخر لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے گا ۔ ہمیں اچھا کام کرتے رہنا چاہئے اس بات سے قطع نظر کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔
وإذا خاطبهم الجاهلون قالو سلاما
آپ سلام کئے جائیں اجمل صاحب، تنائج اور لوگوں کی پروا تو وہ کریں جو لوگوں کی خوشنودی کے لئے کام کرتے ہوں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
محمد رضوان صاحب
ہم ايک قوم بلکہ مضبوط قوم تھے ۔ اگر نہ ہوتے تو ساری دنيا کی مخالفت کے باوجود پاکستان نہ بنتا ۔ليکن پاکستان بننے کے بعد جب اللہ کی رسی کو چھوڑ کر لوگوں نے طاغوط سے اُميديں لگا ليں تو بکھر گئے اور اب مُلک جو پہلے ہی آدھا رہ ہوا ہے کے حصے بخرے کرنے پر تُلے ہوئے ہيں
‘۔۔۔۔۔
محمد رياض شاہد صاحب
آپ نے درست کہا ہے ۔ ليکن ميں نے کسی کو سلام کرنے سے منع نہيں کيا بلکہ گفتگو کے اثر کو بيان کرنے کيلئے السلام عليکم کے پيغام کو بطور استعارہ استعمال کيا ہے
‘۔۔۔۔۔
عدنان مسعود صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ نے بالکل درست کہا ۔ ميرے دادا جان [اللہ جنت نصيب کرے] کہا کرتے تھے نيکی کر ۔ دريا ميں ڈال
ميں نے لوگوں کا رويہ بيان کرنے کيلئے السلام عليکم کو اسلئے چُنا تھا کہ يہ پيغام تو عام ديا جاتا ہے
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » السلام عليکم کے کئی معنی -- Topsy.com
بالکل متفق ۔۔۔ ہم باتوں کو اپنے من پسند معنی دینے کی بری عادت میں مبتلا ہو چکے ہیں دوسرے کا خلوص نظر ہی نہیں آتا ہمیں۔ ۔۔ جزاک اللہ خیرا