ايک صاحب جو اپنے آپ کو بد تميز کہتے ہيں [ميں نہيں کہتا] نے لکھا تھا کہ marriage between cousins يعنی چچا ۔ ماموں ۔ پھوپھی اور خالہ کی بيٹی کے ساتھ شادی کرنے سے جو بچے پيدا ہوں گے وہ اپاہج يا کُند ذہن ہوں گے يا ہونے کا احتمال ہے ۔ ميں نے اس پر لکھنے کا وعدہ کيا تھا ۔ جلد نہ لکھ سکنے پر معذرت خواہ ہوں کيونکہ ميں اُن سے پہلے کے کچھ حضرات سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش ميں تھا
متذکرہ بالا نظريہ يا قياس سے پہلی بار ميرا واسطہ 1965ء ميں پڑا جب ميرے والدين نے ميری شادی کا سوچا تو کسی نے شوشہ کزن ميرج کا چھوڑ ديا مگر بات آئی گئی ہو گئی اور 14 اگست 1965ء کو ميری منگنی خالہ کی بيٹی سے ہو گئی ۔ نومبر 1967ء ميں اللہ کے فضل سے ميری شادی ہو گئی
ميں نے اس سلسلہ ميں مطالعہ شروع کيا ۔ جو بات ميری سمجھ ميں آئی اُس کا خُلاصہ يہ ہے
عيسائیوں نے کسی وجہ سے چچا ۔ ماموں ۔ پھوپھی اور خالہ کی بيٹی کو بہن قرار ديا ۔ اسلئے اُس کے ساتھ شادی حرام قرار دی گئی
مسلمانوں ميں قريبی رشتہ داروں ميں شادی کا رُجحان تھا
انسان کی نفسيات تو عام طور پر ايک جيسی ہے ۔ جس طرح آج کا مسلمان اسلام کی ہر بات کو سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح عيسائی اطِباء نے اپنے اُس رواج کو جس ميں کزن ميرج حرام قرار دی گئی تھی سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کی
اللہ کے فضل سے ہمارا پہلا بچہ دسمبر 1970ء ميں پيدا ہوا جس کا نام زکريا ہے ۔ 1972ء ميں ہم اپنے دوسرے بچے کی پيدائش کی اُميد رکھتے تھے کہ پورے پاکستان ميں ايک لہر اُٹھی يا اُٹھائی گئی کہ کزن ميرج سے بچے کُند ذہن يا اپاہج پيدا ہوتے ہيں ۔ ہم بہن بھائيوں ميں سب سے بڑی بہن ہيں جنہوں نے 1955ء ميں ايم بی بی ايس پاس کيا تھا ۔ جب اُنہوں نے اس فتوے پر ہاں کہہ دی تو ميرے والدين کا پريشان ہونا فطری تھا ۔ اُنہيں پريشان ديکھ کر ميں نے کہا “ہمارے آباؤ اجداد ميں ہميشہ سے کزن ميرج ہوتی آئيں ہيں ۔ آج تک نہيں سُنا کہ اُن کے بچوں ميں کوئی کُند ذہن يا اپاہج ہوا”۔ پھر ماضی کے دو واقعات اُنہيں ياد کرائے اور کہا “جب سالوں کی تحقيق کے بعد آزمودہ ترياک عملی طور پر چند سال بعد زہر ثابت ہوتے ہيں تو يہ فہوالمطلوب والا کُليہ بھی غلط ہو سکتا ہے”۔ اس سے ميرے والدين کی تشويش کافی حد تک دُور ہو گئی۔ [ان دو واقعات اور فہوالمطلوب کی تفصيل بعد ميں]۔ اللہ کے کرم سے بچی بخير و عافيت پيدا ہو گئی
ميرا چھوٹا بيٹا فروری 1975ء ميں پيدا ہوا ۔ اُس کی پيدائش سے پہلے مزيد تحقيق آ گئی تھی کہ اگر خاوند اور بيوی کا خون ايک سا نہ ہو تو بچہ پيدا ہوتے ہی اس کا سارا خون تبديل کرنا ہوگا ورنہ [اللہ نہ کرے] بچہ مر جائے گا ۔ ميرا اور بيوی کا خون ٹيسٹ ہوا ۔ ميرا او پازيٹِو [O +] بيوی کا بی نيگيٹِو [B -]۔ ايک طوفان کھڑا ہو گيا ۔ حُکم ہوا کہ پھر خون ديا جائے راولپنڈی آرمڈ فورسز انسٹيٹيوٹ آف پيتھالوجی ميں مزيد ٹيسٹوں کيلئے بھيجا جائے گا ۔ ٹيسٹ ہو کر نتيجہ آيا تو حُکم ہوا کہ خون دينے کيلئے رضاکار تيار رکھے جائيں ۔ بچہ پيدا ہوتے ہی اُس کا خون تبديل کيا جائے گا
اللہ کی کرم نوازی ہوئی کہ ايک لمبے تجربہ والے ڈاکٹر صاحب راولپنڈی سے کسی سلسلہ ميں واہ چھاؤنی آئے ۔ کسی نے اس معرکہ کا ذکر اُن سے کيا ۔ وہ ڈاکٹر صاحب ميری بيوی کے کمرہ ميں جا کر ساری رپورٹيں ديکھ کر آئے اور کہا ” آپ لوگوں کو يقين ہے کہ بچے کا خون تبديل کر کے آپ بچے کو بچا ليں گے ؟” جواب ملا “کوشش ہمار فرض ہے”۔ بزرگ ڈاکٹر صاحب نے کہا “آپ جانتے ہيں کہ کتنا بڑا رِسک لے رہے ہيں ؟ ميں ايسے درجنوں کيس کر چکا ہوں اور اللہ کے فضل سے سب بچے بصحت ہيں ۔ اللہ پر بھروسہ رکھ کے نيک نيّتی سے کام کريں ۔ اللہ بہتر کرے گا”۔ چنانچہ ميرا دوسرا بيٹا يعنی تيسرا بچہ بھی اللہ کے فضل سے بخير و عافيت پيدا ہوا
ميرے بڑے بيٹے زکريا نے ماشاء اللہ انجنئرنگ يونيورسٹی لاہور سے بی ايس سی انجيئرنگ پاس کی ۔ پھر جارجيہ انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی اٹلانٹا جارجيہ امريکا سے ايم ايس انجيئرنگ پاس کی
ميری بيٹی نے ماشاء اللہ کلينيکل سائيکالوجی ميں ايم ايس سی پاس کرنے کے بعد پوسٹ ماسٹرز ڈپلومہ کيا
چھوٹے بيٹے نے ماشاء اللہ آئی بی اے کراچی سے صبح کے وقت کا کُل وقتی ايم بی اے پاس کيا ۔ پھر سٹريتھکلائيڈ يونيورسٹی يو کے سے ايم ايس سی فنانس پاس کيا
يہ تينوں بچے ماشاء اللہ کسی امتحان ميں فيل نہيں ہوئے اور اللہ کے فضل سے صحتمند اور چاک و چوبند ہيں
يہ وہ بچے ہيں جن کے ماں باپ فرسٹ کزن ۔ دادا دادی بھی فرسٹ کزن اور نانا نانی سيکنڈ کزن
ميری پھوپھی زاد بہن جو ميری بيوی کی تايا زاد ہيں اُن کی شادی اپنی پھوپھی کے بيٹے سے ہوئی ۔ اُن کے سب بچے ماشاء اللہ ٹھيک ٹھاک ہيں ۔ اُنہوں نے اپنے بيٹے کی شادی اپنی سگی بھتيجی سے کی جن کے اب ماشاء اللہ دو بچے ہيں ٹھيک ٹھاک اور ذہين
ہمارے قريبی عزيزوں ميں چار بچے نقص والے پيرا ہوئے ۔ ميرے والد صاحب کے تايا صاحب کے دو بيٹوں اور ايک بيٹی ميں سے ايک بيٹے گونگے تھے ۔ والد صاحب کے تايا صاحب کی بيوی غير خاندان سے تھيں
ميرے والد صاحب کی تايا زاد بہن کے بيٹے کی شادی غيروں ميں ہوئی ۔ اُن کا بيٹا جب پيدا ہوا تو اُس کا تالُو يعنی منہ کے اندر زبان کے اُوپر جو چھت ہوتی ہے وہ نامکمل تھی جس کی وجہ سے اُس بچے کو کئی ماہ ہستال ميں رکھنا پڑا اور اُس کی مکمل پلاسٹک سرجری ميں کئی سال لگے
ميرے خالہ زاد بھائی جو ميری بيوی کے سگے بھائی ہيں اُن کے دو بيٹوں اور تين بيٹيوں ميں سے ايک بيٹا ناقص العقل [retarded] ہے ۔ ميرے خالہ زاد بھائی کی بيوی غير خاندان سے ہے
متذکرہ بالا ميری پھوپھی زاد بہن کی ايک بيٹی کے دو بيٹوں اور تين بيٹيوں ميں سے ايک بيٹا ناقص العقل ہے ۔ اس بچے کا باپ غير خاندان سے تھا
ميں يہ نہيں کہنا چاہ رہا کہ غيروں ميں شادی کا يہ نتيجہ ہوتا ہے ۔ نہيں بالکل ايسا نہيں ہے ۔ ميری چاروں بہنوں اور ايک بھائی کی شادیاں غيروں ميں ہوئیں اور ماشاء اللہ سب کے بچے تندرست اور ذہين ہيں
دو واقعات جن کا ميں نے شروع میں حوالہ ديا تھا
مجھے 1948ء ميں گلا خراب ہونے کی وجہ سے تيز بخار ہو گيا ۔ والد صاحب ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے مجھے پنسلين کا ٹيکہ لگايا ۔ ٹيکہ لگوا کر ہم گھر کو روانہ ہوئے ۔ کوئی دس منٹ بعد ميری آنکھوں کے آگے اندھيرا آنا شروع ہوا اور ميں بيہوش ہو گيا ۔ جب ہوش میں آيا تو میں ڈاکٹر کے کلنک پر تھا اور ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے “کوئی ايسی بات نہيں ہے ۔ بچے کا دل کمزور ہے ٹيکے سے ڈر گيا ہے”۔ گھر پہنچ کر جب والد صاحب نے قصہ والدہ صاحبہ کو سُنايا تو وہ بوليں “اجمل تو اُس وقت بھی مستعد ہوتا ہے جب بڑے بڑے گرنے کو ہوتے ہيں ۔ ضرور دوائی کا اثر ہوا ہو گا”۔ بارہ پندرہ سال بعد معلوم ہوا کہ نئی تحقيق کے مطابق پنسلين سے خطر ناک ردِعمل ہوتا ہے اسلئے پنسلين پہلے ٹيسٹ کرنے کے بعد دی جائے ۔ مزيد کچھ عرصہ بعد پنسلين بنانا بند کر ديا گيا
دسمبر 1964ء ميں مجھے بخار ہوا ۔ ڈاکٹر نے مليريا تشخيص کر کے دوائی دی ۔ دو دن بعد بہتر ہونے کی بجائے حالت ابتر ہو گئی ۔ ميں نے جا کر ڈاکٹر سے کہا کہ دوائی کا کچھ غلط اثر ہوتا محسوس ہوتا ہے تو ڈاکٹر صاحب بولے “يہ دوائی امريکا کے بہترين ماہرين نے اتنے سالوں کی تحقيق اور تجربہ کے بعد بنائی ہے ۔ اس دوائی کا ردِ عمل ہو ہی نہيں سکتا”۔ دوائی جاری رکھی ۔ چار دن بعد ميں ہسپتال ميں بيہوش پڑا تھا ۔ ميرے گردوں ميں سے خون بہہ رہا تھا اور ہيموگلوبن جو عام طور پر ميری 14.2 ہوتی تھی 6.9 رہ گئی تھی ۔ کسی کو کچھ سمجھ ميں نہ آ رہا تھا سوائے اسکے کہ مجھے خون کی بوتل لگا دی گئی مگر بلڈ پريشر بہت کم ہو جانے کے باعث خون کی ايک بوتل چار دن ميں چڑھی جن ميں سے تين دن ميں متواتر بيہوش پڑا رہا تھا ۔ مزيد دس دن يہ حال رہا کہ بستر سے سر اُٹھاؤں تو بيہوش ہو جاتا تھا بغير تکئے کے ليٹا رہا اور نيند نہ آتی تھی ۔ ميرے بعد کئی اور اسی طرح کے کيس ہوئے اور ايک سال بعد نئی تحقيق آئی کہ اُس دوائی کے خطرناک ثابت ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار دے دی گئی ہے ۔ اور دوائی تمام دوائی کی دکانوں سے اُٹھا لی گئی
فہوالمطلوب
جنہوں نے دسويں جماعت تک جيوميٹری اُردو ميں پڑی ہے اُنہيں شاید ياد ہو کہ زيادہ تر مسئلے [theorum] تو براہِ راست حل کئے جاتے تھے مگر کچھ ايسے تھے کہ جن ميں جواب فرض کر ليا جاتا تھا اور پھر اُسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔ آخر ميں لکھا جاتا تھا چونکہ مفروضہ غلط ثابت نہيں ہو سکا اسلئے يہ درست ہے ۔ فہوالمطلوب ۔ فہوالمطلوب عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اور وہی چاہيئے
آپ بالکل ميرے ابا اور اماں کی طرح ہيں تمام دنيا چاہے ايک طرف ہو کر بات ثابت کر دے مگر وہ ُميں نہ مانوں` ہيں دو چار اپنے اردگرد سے مثاليں دے کر سمجھيں گے کہ ہم نے خود کو درست ثابت کر ديا ہے ہائے رے بزرگو آپ لوگوں کو تبديل کرنا واقعتا دنيا کا مشکل ترين کام ہوتا ہے آپکے صرف تين بچے کيوں ہيں اس زمانے ميں بھی کم بچے والا اشتہار آتا تھا
پھپھے کٹنی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بزرگوں کو قائل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔۔-اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی کزن میرج پسندیدہ نہیں ہے ۔
اسماء باجی، سائنس کی بنیاد مشاہدے اور تجربے پر ہوتی ہے اور کسی بھی تحقیق کو تب تک حتمی درجہ نہیں دیا جاتا جب تک کہ وہ ایک طویل عرصے تک خود کو ثابت نہ کروائے رکھے۔ اگر پوری دنیا اس اصول کے خلاف کچھ کر رہی ہے تو اسے سائنس نہیں کہا جا سکتا۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ دعویٰ، کہ کزنوں کے درمیان شادی کے نتیجے میں بچے کند ذہن پیدا ہوتے ہیں، چونکہ ابھی تک بڑے پیمانے پر ثابت نہیں ہو سکا، اس لیے اسے قابلِ اعتبار قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ میٹرک کی کیمیا میں آپ نے Phlogiston کے مفروضے کے بارے میں تو پڑھا ہوگا کہ کس طرح یہ ستر سال تک چھایا رہا لیکن آخر غلط ثابت ہوا۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Phlogiston_theory
محمر سعد بھائی جان پوری دنيا کچھ نہيں کر رہی ہے آپکے ہم وطن کر رہے ہيں نتيجتا ہر جگہ ٹھگنے بھينگے بدشکلے پاکستانی ديکھنے کو ملتے ہے ورائٹی ہی نہيں ہے اور جناب انگليڈ ميں جو آپکے ہم وطن ابنارمل پيدائشوں ميں سب سے آگے ہيں کوئی اسکی وجہ سمجھا دے مجھے
جو بیماریاں (مورثی( آجکل رائج ہوتی جا رہی ہیں ان مین سے اکثر خاندان میں شادی کرنے سے ہی وجود میں آرہی ہیں
ضروری نہیں کے صرف خاندان ہی میں شادی کی جائے تو ان بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے
پر ایک حد تک قابو پایا جا سکتا ہے
بس احتیاط کیجئے
لازمی کہیں نہیں کے خاندان سے باہر ہی شادی کی جائے
پر کی جائے تو بہتر ہے
اسماء بتول صاحبہ
آپ ہوا ميں بات کر رہی ہيں جب کہ ميں بات ذاتی تجربہ سے کی ہے ۔ فيصلہ آپ خود کيجئے کہ “ميں نہ مانوں” کون ہے ۔ چليئے آپ بتا ديجئے کہ کتنے ناقص بچے آپ کے خاندان ميں کزن ميرج کی وجہ سے پيدا ہوئے ہيں
فارغ صاحب
اسلامی نقطہ نگاہ جہاں لکھا ہے اُس کا حوالہ ديجئے
محمد سعد صاحب
سائنس اٹل نہيں ہے ليکن اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سائنس کی تھيوری آف لائيٹ ميری زندگی ميں دو بار بدلی ہے
اسماء بتول صاحبہ
آپ نے کئی عوامل کو گڈمڈ کر ديا ہے ۔ کچھ عوامل موروثی ہوتے ہيں جو کزن ميرج نہ ہوتے ہوئے بھی نمودار ہوتے ہيں ۔ کچھ عوامل کا تعلق والدين کی اپنی صحت سے ہوتا ہے اور کچھ کا اُن کی عادات سے ۔ آپ نے ان عوامل کے بُرے اثرات کو کزن ميرج کے کھاتے ميں ڈال ديا ہے ۔ رہی بات سمجھانے کی تو جو سويا ہو اُسے جگايا جا سکتا ہے مگر جو سويا ہوا بنا ہو اُسے جگانا کسی شريف آدمی کے بس ميں نہيں ہوتا
طارق راحيل صاحب
کسی ايسے وصف کو ثابت کرنے کيلئے جس کا تعلق انسان کے جسم سے ہو گلوبل ڈاٹا اکٹھا کرنا ضروری ہے ۔ چند س يا چند ہزار سے بات نہيں بنتی
انکل حضور، میں نے کب کہہ دیا کہ سائنس اٹل ہے۔ سائنس کی بنیاد انسان کے ہی مشاہدے اور تجربے پر ہے جس میں مسلسل نئے اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ میں تو آنٹی کو یہ سمجھا رہا تھا کہ سائنس میں بھی کسی بات کو قابلِ اعتبار ماننے کے لیے ایک طویل عرصہ تک اسے مختلف تجربات کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔ جو بات یہ کر رہی ہیں، وہ تو سائنس بھی نہیں۔ اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے خود اس کو جائز قرار دیا ہے تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی کیونکہ اگر اس میں کوئی خرابی ہوتی تو اس کے بارے میں تنبیہہ ضرور آتی جیسے ہر نقصان دہ چیز کو حرام یا کم از کم مکروہ ضرور قرار دیا گیا ہے۔
اسماء آنٹی۔ پاکستانی صحت کا خیال نہ رکھنے میں بھی سب سے آگے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس خصوصیت میں اور ابنارمل پیدائشوں میں آپ کو کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور آپ کی تان جا کر کزن میرج پر ہی ٹوٹتی ہے؟ اس سے مجھے الگور کی ڈاکومنٹری An Inconvenient Truth میں اس کا بیان کردہ ایک لطیفہ یاد آ گیا جسے آپ کو سمجھانے کے لیے مجھے کافی ساری تصاویر کا سہارا لینا پڑے گا چنانچہ چھوڑ دیتا ہوں۔
نوٹ: یہ تبصرہ میں جان بوجھ کر یہ تصور کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں کہ آپ کا ابنارمل پیدائشوں کی شرح کے متعلق دعویٰ درست ہے۔ ورنہ عموماً میں مناسب ڈیٹا جمع کیے بغیر کیے جانے والے دعووں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیا کرتا۔
اجمل انکل اور سعد دادا جی سلام
انگلينڈ ميں آپ لوگوں کو کونسی ہوائيں باتوں ميں چلتی نظر آتي ہيں سرچ کر ليجيے ناں کہ انکی پوری تحقيق ہے اس سلسلے ميں کہ پاکستانی سب سے زيادہ آگے ہيں اور ہمسائے بنگلہ ديشی وغيرہ انکے بعد مورثی بيماريوں ميں بوجہ خاندانی شاديوں عرف عام کزن ميرج کے ، صحت کی خرابی بيچ ميں کہاں سے آ گئي سارا دن مرد وخواتين گھروں ميں بے کار بيٹھے منہ ميں کچھ نہ کچھ ٹھونستے رہتے ہيں تو صحت خراب کہاں سے آ گئی جہاں تک سر پر ہر وقت پٹی باندھے رکھنا يا ہائے ہائے کرتے رہنا ہے اسکا تعلق چالوں سے ہے بچوں کی مورثی بياريوں سے نہيں
ابھی ميں عبداللہ سے رابطہ کر کے پوچھتی ہوں حوالے محفوظ کرنے کا طريقہ تاکہ آئندہ حوالوں سميت جواب دے سکوں گرچہ اسکا مجھے کوئی فائدہ نظر نہيں آتا ستائيس سال اماں ابا کو سدھارنے ميں لگائے مگر مجال ہے جو ون پرسنٹ بھی تبديلی آئی ہو ان ميں
اسماء صاحبہ
پانی نشيب کی طرف بہتا ہے آپ دريا کو اُلٹا چلانے کی کوشش ميں اپنا قيمتی وقت ضائع کر رہی ہيں ۔ اگر يہ مثال آپ نے قائم کردی تو آپ کی اولاد اپنی ساری زندگی آپ کو درست کرنے ميں برباد کر دے گی ۔
ديگر بينگا پن ضروری نہيں کہ کزن ميرج کا نتيجہ ہو البتہ موروثی ہو سکتا ہے ۔ نيچے روابط دے رہا ہوں ۔ ان ميں سے کچھ “يو کے” کے بھی ہيں ۔ آپ کے خيال ميں اور کون کون سی خامی کزن ميرج کے نتيجہ ميں ہوتی ہے ؟ بتا ديجئے تاکہ آپ کيلئے حوالے اکٹھے کر سکوں
http://www.patient.co.uk/health/Squint-%28Childhood%29.htm
http://www.goodtoknow.co.uk/health/134159/what-are-the-types-and-causes-of-squint-in-children
http://www.visitech.org/squint.html
http://www.college-optometrists.org/index.aspx/pcms/site.Public_Related_Links.Common_Eye_Diseases_and_Problems.Squint/
http://www.eyerobics.com.au/squint.html
محمد سعد صاحب
گستاخی معاف ۔ ميں نے اپنی طرف سے آپ کے بيان کو مضبوط بنانے کی کوشش کی تھی ۔ جو کچھ آپ نے لکھا اُس کا خلاصہ يہی ہے کہ سائنس اٹل نہيں ہے
yahan par jitnay bhi log comment kartay hyn sab educated hyn magar un ki tehreer parh k bilkul bhi nahi lagta hy k yeh educated log hyn, apnay apnay blog par pakistan k halat par tashweesh zahir kartay hyn magar in sab ko pehlay apni halat par tawajja deni chahiye. main nay hamesha hi yeh note kia hy k kisi ko bhi baron se or bazurgo se baat karnay ki tameez nahi hy. agar aap ko koi baat nahi pasand a rahi hy to khamosh rahain agar comment dena hi hy to tameez k dairay main reh k dain. yeh ajmal uncle ka bara pan hy or un ki positivity hy k unhon nay aisay logon ko abhi tak apnay blog par block nahi kia hy.
uncle please aap aisay logon ko in ki hi zaban main theek karain
تبصروں پہ اب کیا تبصرے کروں بہر حال
میں نے جتنا اس ٹاپک کو پڑھا ہے اس کے مطابق کزن میریجز میں اوور دا جینریشنز اس بات کا چانس ہوتا ہے ((یقینی پھر بھی نہیں) کہ والدین کی جینیاتی ہم آہنگی کی وجہ سے نئی نسل کی ذہنی حالت درست نہ ہو یا وہ جسمانی طور پر پرفیکٹ نہ ہو۔ اور ایک بات یہ کہ ابھی تک کی ساری تحقیق جانوروں پر کی گئی ہے اس میں کوئی سیمپل سوشل اینیمل سے نہیں لیا گیا
مختصرا” عرض ھے
اب جب کہ انسان کا سارا جینوم نکالا جا چکا ھے اوپر لکھے ھوءے تمام تبصرے میرے خیال میں نامکمل ھیں
اجمل بھائ آپ کا مضمون بھی نا مکمل کیوںکہ ان میں بنیادی کمی ھے
آپ نے اپنے تجربات لکھے ھیں پنسلین والا وغیرہ جو سب اس لیئے ھوئے کہ ڈاکٹرکی ممعلومات نہیں تھیں ان کا تعلق زیر بحث ٹاپک سے نھیں ھے آپ کی “انیکڈوٹس” ھیں جو صرف مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ھیں مگر اصول بنانے میں کام نھیں آ سکتیں۔
یہ کہنا کہ کزن میرج کی وجہ سے بچوں میں کند ذہنی یا اور قسم کی تکلیف ھو جاتی ھے-غلط ھے بلکل اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ھوگا کہ خاندان سے باھر شادی کرنے سے بچے غیر صحتمند یا ناقص العقل ھونگے
اب آٰیں مضمون کی طرف تو صرف یہ کہا جاءےگا کہ خاندان میں شادی کرنے سے جو نقاءص خاندان میں موجود ھیں ان کےظہور پذیر ھونے کے چانس زیادہ ھیں اور جو اچھی چیزین ھیں ان کے ظاھر ھونے کے بھی چانس زیادہ ہیں
میرے اپنے خاندان میں آپ کے خاندان جیسی مثالین ھیں میری چھ بہنوں میں سے دو ناقص ا لعقل تھیں میرے والدین فرسٹ کزن تھے
اس کے باوجود میں اور میرے بڑے بھائ کزن میرج کے خلاف نھیں ھوئے -کیونکہ ھماری سوچ تھی کہ اللہ پہ بھی چانس لینا چاھیئے میری اور میرے بڑے بھائ کی بحث رہی تھی کیونکہ ھم دونوں کے ای کے گراجوایٹ ھیں اور ھم نے متفقہ فیصلہ کیا تھا میرے بڑے بھائ کے لڑکے اور بڑی بھن کی لڑکی کی شادی ھوئ اور ماشاء اللہ ان کے نو بچوں مین سے ایک بھی ناقص العقل نھیں – میرے ذہن میں کوئ اچھا سائنٹفک مضمون نھیں ھے جو کوٹ کر سکوں
تو یہ کہنا کہ چانسز زیادہ ھیں کسی حد تک درست ھوگا لیکن یہ کہنا غلط ھے کہ کزن میرج کی وجھ سے بیماری پیدا ہوتی ھے- میں اس معاملے میں بہت کچھ پڑھ چکا ھوں اور ابھی تک پڑھ رہا ہوں خصوصا” “آلھائمر” بیماری کا سنا ہوگا آپ نے ۔ اس پر پچھلے 15 -20 سالوں میں بہت ریسرچ ہوئ تھی- امریکہ میں بیسویں صدی کی آخری دھائ کو “ڈیکیڈ اف دی برین”
قرار دیا گیا تھا اور۔۔۔۔ دراصل میرا فیلڈ ھے معاف کیجئےضرورت سے زیادہ لکھ گیا
فرمان نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ “کفو میں شادی کرو”۔ اس کے بعد کسی سائنس کی گنجائش رہ جاتی ہے کیا؟
خرم: کفو کی بات آپنے حالہ دورہ نیویارک میں بھی کی تھی اور میں اپنی یاد داشت سے اس کو ثابت نہیں کر پا رہا۔ آپ شائد کفو سے غلط مراد لے رہے ہیں کیونکہ میرے علم کے مطابق آپس میں شادیوں کا حکم نہیں تھا کہ بلکہ دوسرے خاندانوںمیں کہ اس سے مسلمان متحد ہو۔ باقی بات عرب قبیلوں میں بٹا ہوا تھا لہذا ہو سکتا ہے کہ قبیلے کے اندر شادی کا حکم ہو جس میں کئی خاندان ہونگے نہ کہ صرف ایک خاندان کے اندر۔
میں چونکہ بچپن سے غیر نصابی سرگرمیوں میں بہت ماہر رہا ہوں لہذا اس بارے میں ایک مضمون مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ بچوں کے والد آپس میں رشتہ دار نہ ہوں جس کا میں نے یہ سلیس کیا تھا کہ بچوں کے والد آپس میں سگے بھائی نہ ہو۔ لہذا پھپھو اور خالہ آؤٹ۔ مگر مجھے درست علم نہیں لہذا میں نے یہ اپنی پوسٹ میں کوٹ بھی نہیں کیا تھا۔ ہاں اس لحاظ سے درست ہو سکتی ہے کہ ہم خاندان سے مراد پورا ستر گھرانوں کا ٹبر لیتے ہیں اور باقی جگہ یہ چند یونٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔
اجمل انکل: آپ کی پوسٹ پڑھ کر مجھے ایک بدتمیزی سوجھی۔ لیجٕے برداشت کیجیے۔ ان تھیوریز کے مطابق تو پھر کل کلاںکو لوگ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذہین فطین بچوںکو بھی معیار مقرر کر سکتے ہیں کہ جی زنا سے یہ بچہ ہوا تھا لہذا زنا کا نتیجہ برا نہیں۔ خیر آپ کی مثالیں اچھی ہیں مگر سیمپل سائز بہت چھوٹا ہے۔ آپ نے اگر وکیپیڈیا کا لنک دیکھا ہوتا تو کزن میرج کے نتیجے میں گارنٹی نہیں کہ بچہ ناقص العقل ہو گا۔ دوسرے آپ نے دوسرے تمام فیکٹرز نظر انداز کر دئے جس میں قد کا بتدریج کم ہوتے جانا اور ناقص العقل کے علاوہ دوسری بیماریاں۔ ان بریڈنگ کا نتیجہ کئی جنریشن میں نکلتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میںپیدا ہونے والے بچوںمیں یہ خطرہ کہیں زیادہ ہوتا ہے جبکہ دوسرے میں کم۔ یعنی ڈن ڈیل نہیں کہ بچہ کسی طرح کا بیمار نکلے گا مگر امکانات زیادہ ہیں۔
زائرا صاحبہ
السلام عليکم و رحمة اللہ
بيٹا ۔ انسان جو کچھ سوچتا يا کہتا ہے وہ اُس کی اپنی تعليم و تربيت اور خيالات کا عکس ہوتا ہے ۔ ميری عمر ستّر سال سے تجاوز کر چُکی ہے ۔ ميرے بزرگوں اور اساتذہ نے جو تعليم و تربيت مجھے دی اُس کے زيرِ اثر ميں کسی بچے کے ساتھ بھی بات کروں تو آپ کہہ کر اور حِلم کے ساتھ بات کرتا ہوں ۔ يہ سب ميری اچھائی نہيں بلکہ ميرے بزرگوں اور اساتذہ کی کی اچھائی ہے
ڈ ِ ف ر صاحب
حق يہ ہے کہ صرف اللہ کو بغير کسی دليل کے مانا جائے ۔ لوگ اللہ کيلئے تو دليلوں کی تلاش ميں رہتے ہيں اور گوری چمڑی والے کی ہر بات بغير دليل قبول کر ليتے ہيں
معاف کرنا افتخار چچا، جلد بازی میں آپ کے جواب پر زیادہ غور نہیں کر پایا۔ :-/
اسلام عیلکم-
اجمل صاحب ہم سمجہ گیا کہ آپ سب سے الگ کیوں ہے اس کا وجہ دو دفعہ غلط دوا کا استعمال ہے –
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ہی ڈسکوری چینل (Discovery Channel) پر My Shocking Story میں ایک موروثی بیماری کا حال دیکھا ہے جس میں والدین دور کے بھی کزن نہیں تھے۔ موروثی بیماریوں کا تعلق والدین کی صحت پر ہوتا ہے اور یہ مسئلہ قریب و دور (تمام انسان دور کے رشتہ دار تو ہیں ہی) دونوں طرح کے رشتہ داروں میں ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں پوری طرح صحت مند ہوں تو پھر بھلا موروثی بیماری کہاں سے آئے گی؟
اور سب سے بڑا سوال یہ کہ ہمیں ہر اسی چیز پر اعتراض کیوں ہوتا ہے جس کا ہمیں دین کے ساتھ معمولی سا بھی تعلق نظر آ جائے؟ جیسے یہاں پر چونکہ دین کزنوں کے درمیان شادی کی اجازت دیتا ہے تو لوگوں کو اس پر اعتراض ہے۔ جبکہ ایسے مفروضے پر کوئی اعتراض نہیں جس کی تصدیق کے لیے ابھی تک بڑے پیمانے پر تجربات بھی نہیں ہوئے کیونکہ وہ گورا صاحب کا فرمان ہے۔
مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ناقص اولاد کا پیدا ہونا دونوں طرح کی شادیوں میں ہوتا ہے خاندان سے باھر بھی اور خاندان میں بھی مگر یہ فالٹ غیر خاندان کی شادی میں پیش آئے تو ہم اسے “اتفاق” یا “اللہ کی مرضی ایسی ہی تھی” یا “تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا” وغیرہ وغیرہ نام دے لیتے ہیں اور خاندان کی شادی میں اگر ایسا پیش آجائے تو ہم مذکورہ بالا باتیں بھول کر سارا نزلہ کزن میرج پر گرا دیتے ہیں
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کزن میرج میںکوی اس قسم کا مسلہ ہوتا تو اسلام اس کو جایز قرار ہی نہ دیتا ۔ اسلام کا اس کو جایز قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کوی خرابی نہیں باقی جو آپ لوگوں کی ساینس کہتے ہی وہ بھاڑ میں جاے ۔ ساینسدان خود ہی تھیوریز بناتے ہیں سالوں تک وہی بات چلتے ہیں 50 سال بعد کہتے ہیں کہ جو وہ تو غلط تھی ۔ اسلام نے جو بات 1400 سالوں پہلے کہی یہ لوگ آج ہمیں اسکے ساینسی فواید بتاتے ہیں ۔ اسی لیے ایسی ساینس کی تھیوری کا کیا اعتبار ۔ اور کسی ساتھی نے لکھا کہ اسلام کہتا ہے شادی کفو میں کرو ۔ میرے خیال سے کفو سے مراد ہم منصب ہے ۔ یعنی لڑکا اور لڑکی ایک ہی برابر کے خاندان سے ہوں ایسا نہ ہو کہ لڑکی کسی اونچے گھرانے کی ہو اور لڑکا کسی غریب گھرانے کا ۔ اور میرے خیال سے اس سے رشتہ دار مراد نہیں ۔
دوسری بات بدتمیز صاحب کے جواب میں۔ میری والدہ اور میرے والد دونوں کا قد برابر ہے لیکن ہم تینوں بھایئوں کا قد ان دونوں سے بڑا ہے ۔ اور میرا قد میرے بڑے بھای سے بڑا ہے اور میرے چھوٹے بھای کا مجھ سے ۔۔۔ تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟؟؟ اور میرے سب سے چھوٹے چچا کا قد اور میرے تایا ابو کا قد باقیوں سے اونچا ہے ۔۔۔
میرا قد جب تک ہم پاکستان میں تھے بہت چھوٹا تھا ۔ میڑک کے بعد چھٹیاں ہویں اور پھر ہم کو کینیڈا آنا تھا اسی لے میں کوی کالج وغیرہ میں داخلہ نہیں لیا کافی مہینے فارغ رہ کر گزارے ۔۔۔ کینیڈا آکر چند مہینوں میں میرا قد نکل آیا ۔۔۔ (امی نے کہا اب تمہارے کندھوں پر بھاری کتابوب کا بوجھ نہیں ہوتا( میرا خیال ہے اسکا کچھ تعلق آب و ہوا سے بھی ہوتا ہے ۔ جیسے انڈیا کے ساحلی علاقے کے لوگوں کو رنگ سانولے اور کالے ہوتے ہیں جبکہ انکا قد چھوٹا ہوتا ہے ۔ جبکہ پنجابی علاقوں کے رنگ گورے چٹے ہوتے ہیں جبکہ قد کاٹھ کافی اونچا بھی ہوتا ہے ۔۔۔
کزن میرج سے نقصانات اگر ہوتے تو آدھا پاکستان اپاہج ہوتا ۔۔۔ کیونکہ زیادہ تر پاکستانی خاندان میں شادی کرتے ہیں ۔۔۔
میرے خیال میں کزن میریجز میں کوئی مسئلہ نہیںہے ۔میں نے بعض ایسے خاندان دیکھے ہیں جن میں میاں بیوی دو مختلف خاندانوں سے تھے مگر ان کا بچہ ابنارمل تھا ۔باقی کزن میریجز کے متعلق محترم افتخاراجمل بھوپال صاحب نے اپنی زاتی زندگی کی مثال بھی دی ہے ۔لہٰذاہمیں رائے کا احترام کرنا چاہئے۔
عمر کھوسو صاحب
ميرا جسم اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ايک حساس معمل [Sensitive Laboratory] بنايا ہے جو غلطياں پکڑ ليتا ہے
:smile:
محمد سعد صاحب
چلئے معاف کر ديا ۔ کيا ياد رکھيں گے کہ کسی رئيس سے واسطہ پڑا تھا
:smile:
چچا ٹام صاحب
آج تو آپ واقعی چچا والی باتيں کر رہے ہيں
:smile:
قاضی محمد ياسر صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ
خوش آمديد
کسی نے اگر پڑھے لکھے جاہل دیکھنے ہوں تو اجمل انکل کی پوسٹس پر کمنٹس پڑھ لیا کرے ، میرے خیال سے اپنی عقل استعمال کرنے سے پہلے یہ لوگ ساینس کے حوالے رٹتے ہیں۔ کسی نے صحیح کہا ، یونیورسٹیز گدھے مینیوفیکچر کرنے والی فیکٹریز ہیں ۔
اسلام علیکم جناب آپ نے موضوع تو بہت اچھا نکالا مگر شومئ قسمت کہ اب دیکھ رہا ہوں عدیم الفرصتی کی وجہ سے نیٹ گردی کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ اس بارے میں صرف یہ کہوں گا کہ میرے خاندان میں ساری ہی فیملی میرج ہوتی ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ ایک ایک بندے سے چھ چھ قسم کے رشتے نکل رہے ہوتے ہیں، اور کچھ بچے تو پیدائیشی طور پر ہی ماموں اور چچا ہوتے ہیں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے خاندان میں جو ہمیشہ سے ہی اسی خون کے اندر گردش کر رہا ہے، کوئی خاص بیماری موجود نہیں، البتہ ورثہ میں کچھ چیزیں ملی ہیں اخلاقی اور دنیاوی تو وہ چل رہی ہیں، لوگ فوج کے اعلٰی عہدوں پربھی ہیں اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی، مگر اب تک بہت کم ہوا ہے کہ کسی نے خاندان سے باہر نکل کر شادی کی ہو، چند ایک مثالیں موجود ہیں مگر ان سے کو ئی خاص تبدیلی جو قابل توجہ ہو سامنے نہیں آئی، یہاں یورپ میں بھی اب تحقیق اسے نظریہ سے ہٹ رہی ہے کہ کزن میرج سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ البتہ چونکہ عیسائی مذہب میں اجازت نہیں لہذا انہوں نے وجہ بھی پیدا کرلی اور ہمارے لوگوں نے مان بھی لی۔
فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگوید
حذر کہ شیوہء او رنگِ جوزنی دارد
اقبال (رحمۃ اللہ علیہ۔)
اگر چہ فرنگ ستاروں سے بات کرتا ہے مگر (اسکی پیروی سے) بچ کے کہ اسکا طریقہ کار رنگِ جادوگری لئیے ہوئے ہے۔
افتخار راجہ صاحب ۔ السلام عليکم و رحمة اللہ
شکريہ ۔ آپ نے مصرفيت ميں سے وقت نکال کر ميری حوصلہ افزائی کی
چچا ٹام قد میں اگر کمی نہیں تو مجھے کہیں اور کمی ضرور نظر آ رہی ہے۔
Pingback: منظرنامہ » مارچ 2010ء کے بلاگز کا تجزیہ
Pingback: مارچ 2010ء کے بلاگز کا تجزیہ | منظرنامہ