اخبار والا کبھی کبھی اخبار کے ساتھ اشتہار بھی پھينک جاتا ہے ۔ ميں نے کبھی توجہ نہيں دی
پچھلے دنوں ايک اشتہار آيا جس پر لکھا تھا
Saddle Ranch
مطلب گھوڑے کی کاٹھی والا مويشی باڑہ ۔ سوچا جائيں گے اور گھوڑے کی سواری کريں گے
تفصيل پڑھنے کيلئے آگے بڑھا تو لکھا تھا
Happy Lunches
دھماکے روزانہ کا معمول بن چکے ہيں منہ ميں نوالا ڈاليں تو حلق ميں پھنس کے رہ جاتا ہے ۔ اسے پڑھ کر دل گارڈن گارڈن ہو گيا کہ خوشی کا ظہرانہ بھی ملے گا ۔ جلدی سے اس خوشی کے ظہرانے کی تفصيل پڑھنے لگا
لکھا تھا
Jalapano Bullets
پڑھتے ہی دل دھک سے رہ گيا ۔ پہلے ہی ہمارے ملک ميں گولياں چلتی رہتی ہيں ۔ يہ “جلی بھُنی گولياں” نمعلوم کتنی خطرناک ہوں گی
جلدی سے آگے بڑھا
لکھا تھا
Mini Chimichangas
” Mini” تو اُس سکرٹ کو کہتے ہيں جو پہنا جائے تو پوری ٹانگيں ننگی رہتی ہيں اور “چمی” اُسے کہتے ہيں جو چِپکُو ہو ۔ ساتھ چَنگاز بھی لکھا تھا يعنی چَنگا کی جمع ۔ مطلب بنا “ننگی ٹانگوں والے چِپکُو چَنگے
آگے بڑھا تو لکھا تھا
Hush Puppies
يعنی “ہُش کتُورے”
ميرے منہ سے نکلا “ہائے ميں مر گئی” اور آگے پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی
سب سے پہلے یہ عرض کرنا ہے کہ آپ کا بلاگ غالبا کنکشن پرابلمز کی وجہ سے نان اویلیبل رہتا ہے ۔
Mini Chimichangas اور ہائے میں مر گئی خوب ہیں ۔
آپ کے بلاگ پر منی اسکرٹ کا ذکر حلال ہے ؟ ايسا لکھنے سے آپ کسی گناہ کے مرتکب تو نہيں ہو رہے
اسماء بتول صاحبہ
ميں نے آپ کے بلاگ پر اس سے متعلق تحرير پر مندرجہ ذيل تبصرہ لکھ ديا ہے
ميری تحرير کا اہم جزو کچھ سوال تھے کاش کوئی عورت يا خاتون ۔ ميرے سوالات کا حقيقت کے مطابق جواب دے
يہ عبداللہ صاحب جو بڑھ بڑھ کر بول رہے ہيں اور جنہيں اپنے بُرے کرتوت بھی مجھ ہی ميں نظر آتے ہيں وہی ان سوالوں کا جواب اللہ کو حاضر و ناظر جان کر دے ديں
ميری تحرير کا سب سے پہلا فقرہ ہے
سُنا ہے کہ مردوں کا چال چلن ٹھيک نہيں ۔ مرد ظُلم کرتے ہيں ۔ جو عمل بُرا ہے وہ بُرا ہے چاہے جو بھی کرے اسلئے غلط عمل کرنے والے کا دفاع نہيں ملامت کرنا چاہيئے
عورتوں کی بات کرتے ہوئے ميں نے لکھا ہے “کچھ عورتيں”۔ سب کو نہيں لکھا جبکہ مردوں کے چال چلن کو بدترين لکھنے والی خواتين “کچھ” کا لفظ استعمال نہيں کرتی بلکہ ايک صاحبہ نے تو بالجملہ سب مردوں کا لکھا تھا
ميں نے مردوں کی بُرائياں اسلئے نہيں لکھيں کہ کئی خواتين مردوں بلکہ سب مردوں کو ہر لحاظ سے بدترين ثابت کرنے کی کوشش اپنی تحارير ميں کر چکی ہيں اور ان کے ساتھ عبداللہ صاحب جيسے مرد “نہلے پر دہلا” بننے کی پوری کوشش کرتے ہيں ليکن اُن ميں اتنی اخلاقی جراءت نہيں ہوتی کہ ميرے بلاگ پر انٹ شنٹ لکھتے ہوئے اپنا ای ميل کا پتہ درست لکھ ديں
جو ميں نے لکھا ہے ميں نے کم ايسی عورتيں ديکھی ہيں مگر ديکھی ضرور ہيں ۔ کم اسلئے ديکھی ہے کہ ميں صرف خانگی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلتا ہوں ۔ ليکن جب ميں مردوں کو جن ميں زيادہ تر جوان ہوتے ہيں مطعون کرتا ہوں تو وہ مجھے جو عورتوں مارکيٹوں اور تفریح کے مقامات کو جاتی ہيں اُن ميں سے کچھ کا حال بتاتے ہيں ۔ جب ميں اس کی نفی کرتا ہوں تو وہ کہتے ہيں “آپ ہمارے ساتھ چليئے اور خود اپنی آنکھوں سے ديکھئے”۔
ايک بات جو ميں نے نہيں لکھی تھی وہ شراب نوشی ہے ۔ ميں اپنی آنکھوں سے کراچی اور اسلام آباد ميں نشے ميں چور اُول فُول بولتی عورتيں ديکھ چکا ہوں ۔ بلاشُبہ ايسے مرد بھی ديکھے ہيں
عورت کو اللہ نے جذباتی بنايا ہے اس لئے وہ بہت جلد جذبات ميں بہہ کر جو کچھ کہہ جاتی ہے اُس کا اُسے خود بھی کم ہی عِلم ہوتا ہے ۔ مرد کو اللہ نے بُردباری عطا کی ہے جسے بہت سے مرد غلط استعمال کرتے ہيں
نہ ميں کسی بُرے مرد کی حمائت کرنے کو تيار ہوں اور نہ کسی بُری عورت کی حمائت کرنے کو
میری ایک دریافت ہے۔ کہ اردو میں میں دلچپسی رکھنے والوں کی بدقسمتی سے انٹر نیٹ کی اوردو بلاگنگ میں چند لوگ بقائے باہمی کے زریں اصولوں کے تحت آپس میں ” انجمنِ توصیفِ باہمی” کی مثال نظر آتے ہیں۔ اسے بھی خندہ دلی سے قبول کیا جاسکتا ہے۔ کہ کوئی مضائقہ نہیں اس سے ایک دوسے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ مگر یوں تنقید نہ ہونے کی وجہ سے بہتر لکھنے کا رحجان متاثر ہوتا ہے۔ مگر اس وقت تکلیف ہوتی ہے جب کچھ لوگ محض اپنی ضد اور غالباََ اپنے مخصوص مفادات کے تحت ہر اُس پاکستانی اور سماجی اقدار پہ اول فول کہہ دیتے ہیں جس پہ اسلام کا ہلکا سا شائبہ بھی پڑتا ہو اور متواتر اپنے عمل سے اسلامی سماجی اقدار کو تحضیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ رویہ درست نہیں ۔
پاکستان میں اسلامی اقدار اور سماجی اقدار کچھ اسطرح سے آپس میں رچ بس گئی ہیں۔ اور عام کی روز مرہ زندگی میں انھیں الگ کرنا ناممکن ہے۔ اور بے عمل ترین مسلمان بھی پاکستان میں ایسی روایات سے ہاتھ کینچھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ جبکہ تعلیمی شعور رکھنے اور فہم کا ادارک کرنے والوں سے اس عجیب و غریب رویے کا سمجھنا بہت دقت طلب مسئلہ ہے۔
ہر انسان میں بشری خامیاں ہیں۔ مگر خدائی حدود کو ہر وقت چھوتے رہنا ایک ایسا گناہ ِ بے لذت ہے جس کا بشری تعلق بشری خامیوں سے نہیں بلکہ ذاتی رویے سے ہے۔ اور یہ درست نہیں کہ آخر کار ہمیں خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اللہ ہمیں ھدایت دے ۔آمین
محمد رياض شاہد صاحب
يہ فقرہ ميں بچپن اور جوانی ميں مذاح پيدا کرنے کيلئے کافی استعمال کيا کرتا تھا
اسماء بتول صاحبہ
شايد آپ نہيں جانتی کہ گناہ کسے کہتے ہيں :smile:
جاويد گوندل صاحب
آپ نے بالکل بجا فرمايا ۔ ميں آپ کی دعا پر آمين کہتا ہوں ا