چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ بُزدلی اور بہادری

بہادر یا دلیر کا مفہوم وطنِ عزیز میں اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ اصل مفہوم عوام کے ذہنوں سے ماؤف ہو چلا ہے ۔ عصرِحاضر میں بہادر مرد اُسے سمجھا جاتا ہے جو کسی کو تھپڑ مار دے ۔ گھونسہ جَڑ دے یا گولی مار دے ۔ اور کچھ نہیں تو کھڑے کھڑے کسی کی بے عزتی کر دے ۔ کچھ ناہنجار تو سڑک پر جاتی لڑکی یا عورت پر آوازہ کسنے يا اُس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے کو بہادری سمجھتے ہیں ۔ اس کے برعکس کچھ عورتیں مردوں کو کھری کھری سنانا يا بے عزتی کرنے کو بہادی سمجھتی ہیں ۔ کچھ مرد و زن ایسے ہیں کہ دوسرے کو نیچ ذات یا کم عِلم کہنے کو بہادری سمجھتے ہیں ۔ صاحبِ فہم لوگ ان حرکات کو بُزدلی کی نشانی قرار دیتے ہیں اور نفسیات کے ماہرین اسے نفسیاتی مرض احساسِ کمتری سے تعبیر کرتے ہیں گو ايسے لوگوں کو احساسِ برتری ہوتا ہے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہادری کیا ہے ؟ سب سے بڑی بہادی اپنی غلطی کو بغیر کسی دباؤ کے ماننا اور اگر اُس غلطی سے کوئی متاءثر ہوا ہو تو اُس سے صدق دِل سے غیر مشروط معافی مانگنا ہے ۔ اس سلسلہ میں مجھے دو واقعات یاد آئے ہیں ۔ دونوں کے وقوع پذير ہونے کا عمل ايک ہی تھا جو ہوا تو بے خبری ميں تھا ليکن نتائج بھيانک تھے

پہلا واقعہ بزدلی کا چار دہائیاں پیچھے کا ہے ۔ دفتر میں بیٹھے خبر ملی کہ محکمہ کے ایک سینیئر کلرک نے خود کُشی کر لی ہے ۔ ہوا يوں کہ خفیہ معاملات کی ايک فائل [Secret File] گم ہو گئی تھی جو اُس کلرک کی الماری میں ہوتی تھی ۔ کلرک کو تفتيش کيلئے کسی خفيہ ادارے کے حوالے کيا گيا تھا کہ ايک دن اُس نے خودکُشی کر لی ۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والوں سے معلوم ہوا کہ کلرک شریف اور دیانتدار تھا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس نے وہ فائل جنرل منیجر صاحب کو دی تھی اور پھر واپس اُس کے پاس نہیں پہنچی تھی ۔ اس ڈر سے کہ اُس کے بیان کو سچ مان لیا گيا تو الزام جنرل منیجر یا کم از کم جنرل منیجر کے کوآرڈینیشن آفیسر پر آئے گا کسی نے جنرل منيجر کے دفتر کی تلاشی لينے کا نہ سوچا ۔ میں نے کوآرڈینیشن آفیسر سے پوچھا کہ “جنرل منیجر کی ميز کی ساری درازیں باہر نکال کر اور میز اُٹھا کر دیکھا تھا” ۔ اُس نے جواب دیا “الماری اور درازيں ديکھی تھيں”۔ خیر مرنے والا مر چکا تھا بات آئی گئی ہو گئی ۔ کچھ ماہ بعد جنرل منیجر کے کمرے میں رنگ روغن کرنے کیلئے میز اُٹھائی گئی تو وہ فائل میز کے نیچے سے نکلی

دوسرا واقعہ ایک غیر مسلم کا ہے ۔ مئی جون 1999ء میں امریکا کی ایک ریاست میں ایک اعلٰی معیار کی یونیورسٹی میں سالانہ امتحانات ہوئے ۔ ایک غیر ملکی مسلم طالبعلم کا پرچہ گُم [Answer sheet] ہو گیا ۔ طالبعلم کا مسلک تھا کہ پرچہ حل کرنے کے بعد اُس نے اُسی جگہ پر رکھا تھا جہاں باقی سب نے پرچے رکھے تھے ۔ انکوائری وغیرہ ہوئی ۔ آخر فیصلہ ہوا کہ چونکہ طالبعلم کی پورے سال کی کارکردگی بہت اچھی تھی اسلئے اسے پاس کر دیا جائے لیکن کچھ سزا کے ساتھ

يونيورسٹی چھوڑنے کے بعد طالبعلم امریکا کی کسی اور ریاست میں ملازم ہو گیا ۔ چند ماہ بعد اُسے اُس پروفیسر کی ای میل آئی جس کے مضمون کا پرچہ گم ہوا تھا ۔ اُس نے معذرت کی تھی اور لکھا تھا ۔ “میرے دفتر میں رنگ روغن ہوا تو چیزیں درست کرتے میز کے نیچے سے ایک پرچہ ملا جس کا پہلا صفحہ غائب ہو چکا تھا لیکن میں نے تمہارا رسم الخط پہچان لیا اور میں نے ڈین سے مل کر اس مضمون میں تمہارا گریڈ “ڈی” کی بجائے “اے” کرا دیا ہے ۔ اُن پروفيسر صاحب کو دو ماہ کی پوچھ گچھ کے بعد اُس طالبعلم کا ای میل کا پتہ ملا تھا

پروفيسر صاحب کے متذکرہ عمل کو کہتے ہیں بہادری جو وطنِ عزیز میں مفقود ہوتی جارہی ہے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

13 thoughts on “چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ بُزدلی اور بہادری

  1. ڈفر

    بہت اچھی تحریر ہے
    واقعات جو آپ نے لکھ دئے انہوں نے کام خراب کر دیا
    نہیں‌تو اس بلاگ پہ بڑی ٹریفک ہونی تھی :wink:

  2. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین

    آپکی باتیں درست ہیں۔ مگر میری ذاتی رائے میں جو چیز وطنِ عزیز میں تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہے وہ اخلاقیات ہے۔ کسی بھی طبقے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی نہ جراءت ہے نہ عادت۔ عالم فاغل قسم کے لوگ بڑی ڈھٹائی سے اپنی غلطیوں کو علمی ڈھٹائی سے نئے معنی پہنا دیتے ہیں۔ جنہیں سمجھ نہیں۔ جو علم نہیں رکھتے۔ جن کی سوچ واجبی ہے۔ جنہیں زندگی نے بہتر سہولیات نہیں عطا کیں کہ وہ بھی دنیا میں کچھ سیکھ سکتے ۔ انھیں بھی کسی یونیورسٹی ما منہ دیکھنا نصیب ہوتا۔ وہ تو ماحول اور ارد گرد کی تبدیلیوں کو اور اسمیں اپنے کردار کو ڈھالنے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔یعنی دوسرے لفظوں میں وہ اندھے ہیں۔ مگر جنہیں عاقل فاضل ہونے کا زحم ہے وہ ان اندھوں سے بھی دو قدم آگے ہیں۔

    وطن ِ عزیز میں “خواندہ” افراد کی منافقت ہے کہ وہ اپنے “جانے” (علم) جانے کے زعم میں ان پڑھ اکثریت کو بے وقوف بناتے ہیں۔ کیونکہ انھیں علم ہے کہ اندھوں کے دیس میں کوئی ان کی ایک آنکھ کو نہیں دیکھ سکتا۔ اور مجال ہے وہ اپنی کسی دانستہ یا نادانستہ غلطی کا اعتراف کریں۔ ڈھٹائی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایسی غلطیوں کی نشاندہی پہ وہ مذید کج روی اپناتے ہیں۔اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام زندگی میں دوسروں کے ساتھ معاملات میں وہ کسقدر پُرخلوص ہونگے۔

    اپنی غلطی کا اعتراف، غلطی کے ضمن میں ہوئے نقصان کا ازالہ اور آئیندہ اسطرح کی غلطی سے بچنے کی شعوری کوشش۔ یہ وہ تین چیزیں ہیں جو معاشرے کی پڑھی لکھی اور ایلیٹ کلاس کو بطورِ نمونہ پیش کرنی چاہئیں۔ کیونکہ جو اندھے ہیں اُن سے آپ دیکھنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے مگر۔”جو”۔ دیکھ سکتے ہیں اُن پہ انھیں رستہ دکھانے کا فرض عائد ہوتا ہے

    معاشرے اُس وقت ناکام ہوتے ہیں جب انکی نمائیندہ کلاس ناکام ہوجائے۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاويد گوندل صاحب
    آپ نے درست کہا ہے ۔ آپ کو شاید ياد نہيں رہا کہ کچھ اس طرح کی بات لکھنے پر ايک دو پڑھے لکھے ميری جان کو آ گئے تھے ۔ شکر ہے کہ ميں طبعيی طور پر اُن کے قريب نہ تھا ورنہ شاید آج لکھ نہ رہا ہوتا

  4. احمد

    بڑے تسلسل سے لوگوں کو برہنہ کرکے سب کے سامنے مارنا، مظلوم کام کرنے والی کم عمر بچیوں کہ جلانا اور مار ڈالنا ، عورتوں سے زیادتی ، اور
    http://www.jang.com.pk/jang/mar2010-daily/09-03-2010/col10.htm

    بھلا یہ سرزمین پنجاب کیسی قوم کا اپنے اوپر بوجھ لیئے پھرتی ہے
    سب سے زیادہ ظلمت اور کفر سندھ اور پنجاب میں تھا اللہ پاک نے سب سے زیادہ اپنے نیک بندے بھی یہیں بھیجے مگر یہ دونوں بھی عجیب ظالم اور جاہل ہیں کہ سدھرے آج تک نہیں
    اوپر سے مسلمان ہوگئے اندر سے سکھ ہی رہے
    یہ سب دیہات شہر ہر جگہ ہے وہاں۔ جیسے یورپ امریکہ میں دیہات اور شہر ایک جیسے ہوتے ہیں پنجاب کا بھی یہی حال ہے مگر جہالت اور ظلم میں

  5. احمد

    اجمل صاحب زرا بتا دیں کہ صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں؟
    http://www.jang.com.pk/jang/mar2010-daily/09-03-2010/col4.htm
    اور قلم سے جھوٹ تراشنے والے کس علم کو پھیلانا چاہتے ہیں؟
    یہ سب سابقہ جماعتی ایسے کیوں ہوجاتے ہیں؟
    جمیعت میں بولنے، نعرے لگانے، قیادت کرنے، کارکن بننے، تقریریں کرنے، مزاکرات کرنے، لڑنے جھگڑنے اور بحث کرنے کی تربیت مظبوط بنیادوں پر ہوتی ہے مگر اخلاق، ایمان، ادب اور حیاء سے دامن خالی رہ جاتا ہے

  6. محمد ریاض شاہد

    احمد شکریہ آپ نے ایک فکر انگیز کالم کی طرف نشاندہی کی ورنہ میں‌ ہارون صاحب کے اس کالم سے محروم رہتا ۔ بہت خوبصورت لکھا ہے

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    احمد صاحب
    بات ايک آدمی کی نہيں قوم اکثريت کی ہے جسے اپنی انگلی ميں سوئی کی نوک چُبھنے کی بہت تکليف ہوتی ہے مگر دوسرے کا گلا کٹتے ديکھ کر خوشی ہوتی ہے

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    احمد صاحب
    ايک دو فرد نہيں پوری قوم ہی بدلی نظر آتی ہے ۔ جس زمانہ ميں ميں کالج ميں پڑھتا تھا اسلامی جميعتِ طلباء کے اراکين شرافت اور نيکی کی مثال ہوا کرتے تھے ۔ ميرا خيال ہے کہ میاں طفيل صاحب کے جماعت اسلامی کی امارت سے عليحدگی کے بعد اس ميں تبديلی شروع ہوئی ۔ ميں نے 1990ء کی دہائی ميں ايک انجيئر سے اس سلسلہ ميں سوال کيا تو کہنے لگے “اجمل صاحب ۔ ميں کيا بتاؤں ۔ ان ميں بے شمار خودغرض شامل ہو چکے ہيں ۔ اسی لئے ميں پرے ہٹ گيا ہوں”۔ يہ صاحب کالج يونيورسٹی کے زمانہ ميں اسلامی جميعتِ طلباء کے سرگرم رُکن تھے ۔ ہر کسی کی خدمت ان کا شعار تھا اور انجيئر بننے کے بعد جماعتِ اسلامی سے منسلک رہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ ان ميں اُس تنظيم کا اب نام عشرِ عشير بھی نہيں ہے جو اس جماعت کی نشانی ہوا کرتی تھی

  9. احمد

    اجمل صاحب
    آپکی بات ٹھیک ہوسکتی ہے۔ مگر بگاڑ تھا تو بلآخر بڑھتا گیا اور ناسور بن گیا
    ہم نے اسکول سے لیکر کالج اور پھر یونیورسٹی تک جمیعت کے ساتھ وقت گزارا ہے
    انجینرنگ کے بعد ملک چھوڑ گئے ( بخوشی نہیں (
    ہم انکی ہر ترتیب کو جانتے ہیں، ساتھ کھایا پیا، کھیلے کودے اور جگہ جگہ ساتھ رہے مگر جو باتیں ہم نے پہلے تبصرے میں کی ہیں حرف با حرف درست ہیں
    اللہ کے دین کا نام استعمال ہوتا ہے مگر زہن سازی دنیاوی ہوتی ہے، چیزوں پر ایمان بن رہا ہوتا ہے ۔صالح معاشرہ قائم کرنے والے لڑکیوں کہ چھیڑتے نظر آتے ہیں ، جعلی داخلے اور پتہ نہیں کیا کیا
    اسی لیئے سابقہ جماعتی خاص کر صحافی بڑے بڑے فتنہ ور ثابت ہوئے ۔ جس طرح ہارون صاحب اور انکا مرشد اوٹ پٹانگ کہتے رہتے ہیں۔ اس کالم پر بہت کچھھ کہنے کو دل کرتا ہے اور جس طرح کراچی میں رہ کر الطاف کے بارے میں بات کروتو چیلے سیخ پا ہوجاتے ہیں قوم و کراچی سب سے عاق کردیتے ہیں بلکہ بس چلتا ہے تو دنیا سے بھی چلتا کردیتے ہیں اسی طرح بلاگز پر جماعتیوں اور انکے محبوب بارے بات کرنا زمینی آفت ہے

    ہمارا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اور جماعتی ٹکراؤ نورا کشتی تھی بس ایک اسے سیڑھی بنا کر اٹھا اور دوسرے اپنی بقا کی جنگ کراچی لڑ رہے تھے

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    احمد صاحب
    آپ دوسرے کی بات ماننا بھی سيکھ ليں تو کوئی ہرج نہيں ۔ میں نے انجيئرنگ کا کورس لاہور ميں 1960ء ميں مکمل کيا تھا ۔ اب آپ بتايئے کہ آپ کس زمانہ کی بات کر رہے ہيں ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.