ایک ساتھی کا ٹیلیفون آیا ۔ اطلاع دی کہ فلاں صاحب انتقال کر گئے ہیں ۔ اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَجِعُون کہنے کے بعد میں ٹیلیفون بند کر کے لیٹ گیا ۔ میری آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی ساتھ دِل بھی گریہ و زاری کرنے لگا ۔ اُن کی وفات پر کم کیونکہ مرنا ہر ایک نے ہے ۔ اپنے رب کے حضور معافی مانگنے کیلئے زیادہ کیونکہ کسی کی موت یا تکلیف دوسروں کیلئے عبرت کا نشان ہوتی ہے
سدا نہ مانِیئے حُسن جوانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ حُسن اور جوانی نہیں رہتے]
سدا نہ صُحبت یاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ دوستوں کی صحبت نہیں ملتی]
سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ باغ میں بُلبُل نہیں بوتا ]
سدا نہ رَہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [اور نہ ہمیشہ بہا رہتی ہے]
دُشمن مرے تے خُوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [دُشمن کے مرنے پر خوش نہ ہو ]
سجناں وِی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [کہ پیارے بھی ایک دن مر جائیں گے]
نمعلوم کیوں میرے ذہن میں ماضی گھومنے لگا ۔ 1976ء میں ایک بڑے افسر کو اپنے کرتوت کی بناء پر ایک غیرمُلک سے ناپسندیدہ شخصیت [Persona non grata] قرار دے کر نکالا گیا ۔ میں اور دیگر تین ساتھی بھی اُسی مُلک میں تھے ۔ ایک ساتھی نے کہا “یہ ہمارے لئے مقامِ عبرت ہے ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟” میرے منہ سے نکلا “اپنے اللہ کے سامنے جھُک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہيئے”۔ چاروں نے وضو کیا اور باجماعت نوافل ادا کرنے کے بعد رو اور گڑگڑا کر اپنے مالک و خالق سے معافی مانگی ۔جمعرات کو فوت ہونے والے صاحب کے قلم کے استعمال کی وجہ سے کئی محنتی اور دیانتدار افسران مشکلات کا شکار ہوئے اور کئی نااہل موج میلہ کرتے رہے ۔ چنانچہ اب بھی یہی صورتِ حال ہے
میرے اللہ ۔ میرے خالق و مالک ۔ آپ قادر و کریم اور رحمٰن و رحیم ہو
میں جو کچھ بھی ہوں صرف آپ کی دی ہوئی توفیق سے ہوں
میں آپ سے انتہائی عِجز و اِنکساری کے ساتھ التجا کرتا ہوں کہ میری دانستہ اور نادانستہ غلطیاں معاف فرما
میری رہنمائی فرما اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں آپ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل سکوں جس کی آج تک میں نے کوشش کی ہے
میرے مالک مجھے مزید کوشش کیلئے ہمت و استقلال عطا فرما اور میری نیک کوششوں کو کامیابی عطا فرما
میں سب کے سامنے آپ کے حضور حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے بندے گواہ رہیں کہ میں حاضر ہوا
قارئین سے درخواست ہے کہ جب اپنے لئے دعا کریں تو میرے لئے بھی دعا کریں
اللہ تعالٰی ہم سب پر رحم فرمائے
ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں
میری تجویز ہے کہ مستقبل میں میاں محمد بخش کا کچھ مزید کلام بھی شیئر کریں تاکہ نوجوان نسل جان سکے کہ دانش مشرق اور جدید دانش میں کیا فرق ہے
اللہ آپکو اور ہم سب کو صراط مستقیم کی ہدایت اور اس پر استقامت عطا فرمائے آمین!
افتخار جی آپ نے جو لکھا وہ بھی صدقہ جاریہ ہے ۔ کوئی اچھی بات جو دل پر اثر کرئے ۔ جزاک اللہ خیر
بالکل درست فرمایا جناب آپ نے۔۔۔۔۔ اور بہت ہی خوب کلام پیش کیا، ریاضصاحب کی بات بڑھاؤںگا کہ کچھ مزید شئیر کریں۔
پس تحریر: سر جی، وہ اپنے بلاگ پر آپکا تبصرہ پڑھا، اس میںمیرا کچھ دوش نہیں، وہاںکچھ تحریر کیا ہے چل کر ملاحظہ کریں۔ خدارا یہ مت کہیے کہآپ بلاگ پر تشریف نہ لائیںگے۔
آمین
بہت اچھی بات کی
مرنے سے پہلے ایمان کی درستگی کرلینا اور اعمال کی اصلاح کر لینا بہت بڑی کامیابی ہے
چند روز پہلے جھوٹے نبیوں اور فتنوں کے بارے میں کتاب پڑھی، حیرت تھی کیسے انسان ہوس میں ایسی حرکت کرلیتا ہے
ایمان اور عمل صالح بڑی نعمت ہیں
میری ای میل میں مسئلہ آگیا ہے ورنہ آپ کو 2 کتابیں ارسال کرنا تھیں جب تک
ایک خوبصورت کتاب محبت کو سمجھنے والوں کیلئے
بلو ۔ محمد ریاض شاہد ۔ عبداللہ ۔ عمر احمد بنگش اور احمد عثمانی صاحبان
جزاک اللہ خير
کل ايک خاص وقت میں کوئی مسئلہ ہوا تھا جس کی وجہ سے تبصرے اکِسمت نے روک ديئے تھے ۔ اس میں ميرا قصور نہیں پھر بھی میں معذرت خواہ ہوں
احمد عثمانی صاحب
کتابوں اور اخبارات کے ربط ای ميل ميں بھيجا کيجئے ۔ تببصرہ ميں بھيجنے سے از خود حذف ہو جاتے ہيں ۔ میں نے وائرس اور بکواسيات سے بچنے کيلئے فلٹر لگايا ہوا ہے
تانيہ رحمان صاحبہ
جزاک اللہ خير
اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو یوم محشر میں شرمندگی سے بچائے۔آمین۔ اللہآپ کو اور سب مسلمانوں کے تمام گناہ بخشے اور مزید لغرشوں سے بچا کر رکھے، نیز ہمیں نیک مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس پہ عمل کرسکیں۔آمین
خاوید گوندل صاحب
مین آپ کی دعا پر آمين کہتا ہوں ۔ جزاک اللہ خير