غَلَط العام لکھنے سے چند قاری پریشان ہوتے ہیں اسلئے اس لفظ کا استعمال مناسب نہ سمجھا
ہمارے ملک میں دینی تعلیم تو کیا دنیاوی تعلیم کا بھی مناسب نظام وضع نہیں کیا گیا اسلئے عام طالبِ عِلم کو نصابی علم کی بھی گہرائی میں جانے کا موقع نہیں ملتا کُجا نصاب سے باہر کی باتیں ۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں ۔ مسلمان ہوتا کیا ہے یہ جاننے کا سب کا دعوٰی تو ہے مگر حقیقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے
کوئی ڈھائی دہائیاں پیچھے کی بات ہے کہ مجھے گریجوئیٹ سطح پر اسلامیات پڑھانا پڑھی ۔ ہر نصاب شروع کرتے ہوئے پہلے دن پچھلے نصاب کی مختصر سی دہرائی کی جاتی ہے ۔ میں نے جماعت سے سوال کیا “اسلامی سلطنت کے پانچ ستون کیا ہے ؟” چاروں طرف سنّاٹا تھا ۔ میرے سوال دہرانے پر ایک طالب عِلم نے ڈرتے ڈرتے کہا “کلمہ ۔ نماز ۔ روزہ ۔ زکوٰة۔ حج” ۔
حال تو پورے نظامِ تعلیم کا ہی قابلِ تعریف نہیں ہے لیکن دینی تعلیم کے ساتھ جو لاپرواہی برتی گئی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان اور پانچ ستونوں کو عام طور پر آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے
مُسلمان ہونے کی اوّل شرط ایمان ہے اور ایمان کے پانچ رُکن ہیں
1 ۔ کلمہ [لازم]
2 ۔ نماز [لازم]
3 ۔ روزہ [لازم]
4 ۔ زکوٰة [لازم بشرطیکہ شرائط پوری ہوں]
5 ۔ حج [لازم بشرطیکہ شرائط پوری ہوں]
بات صرف ایمان لے آنے پر ختم نہیں ہو جاتی ۔ یہ تو یوں ہوا کہ ایک مدرسہ [School] یا کُلیہ [college] یا جامعہ [university ] میں داخلہ لینے کیلئے کچھ صلاحیت ضروری ہوتی ہے ۔ ایمان لے آنے پر اُس صلاحیت کی شرط پوری ہو گئی تو اسلام میں داخلہ مل گیا ۔ پڑھے لکھے ہی نہیں بہت سے اَن پڑھ بھی جانتے ہیں کہ تدریس کا ایک نصاب ہوتا ہے جس میں کچھ لازمی اور کچھ اختیاری مضامین ہوتے ہیں جنہیں شعوری طور پر مکمل کرنے کے بعد ہی سند ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح مسلمان ہونے کا نصاب ہے جس کے پانچ لازمی مضامین جن میں کامیابی ضروری ہے ۔ یہی اسلام کے ستون ہیں
1 ۔ ایمان جو بنیاد ہے اور اس کے بغیر باقی سب عمل بیکار ہیں
2 ۔ اخلاق یعنی سلوک یا برتاؤ
3 ۔ عدالت یا انصاف
4 ۔ معیشت
5 ۔ معاشرت
جب تک یہ پانچوں ستون مضبوط بنیادوں [ایمان] پر استوار نہیں ہوں گے مسلمانی کی عمارت لاغر رہے گی اور معمولی سے جھٹکے یا جھونکے سے نیچے آ رہے گی
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے توفیق دی تو اِن شاء اللہ ۔ ان پانچ ستونوں کا مختصر جائزہ جلد لکھوں گا
من فضلك أكتب كثيرا على الموضوعات التي ذكرتها لان الأوضاع كما بينت كذالك في المعاهد التعليمية بأسرها من الدينية أو الدنيوية لان جيل اليوم قد انحصر على الصحف اليومية و قنات التلفزيون للحصول على الدراسات الدينية دون الكتب الدينية الموثوقة بها.
لي سوال ان تاذنني فاعرض على جنابك.
محمد سعيد البالنبوري صاحب
ماذا ترید یا شیخ ؟ اتفضل
سيدي !
أنت تعلم ان الفرق في الملة الاسلامية كثيرة في وقتنا،و لا عجب فيه لان النبي صلى الله عليه و سلم بينه امام اصحابه قائلا: “ان امتي ستفترق على ثنتين و سبعين فرقة كلها في النار الا واحدة” @كذا في كتب الحديث@ و كل فرقة منها تزعم انها فرقة ناجية، فالرجل الشارع الذي يملك علما قليلا من العلوم الاسلامية أو لايملكه أصلا، فهو كيف يحكم بالفرقة الناجية لان المقياس الذي بينه رسول الله صلى الله عليه و سلم بقوله: “ما أنا عليه و اصحابي” هو صعب جدا له،لان لديه ليس علما كافيا بل كثير منهم لا يعملون اللغة العربية فكيف يفهمون القرآن الكريم و الاحاديث الشريفة مباشرة. فهم الآن يضطربون باعتبار انهم كيف يستعملون هذا المقياس و كيف ينتقدون عليه الفرق .عفوا للطوالة.
ملحوظة :هذا السوال متنازع جدا. ان تفهم انه لا يناسب جوابه في المدونة فلا حرج عليك، لان الهاب المشاعر ليس غرضا لدينا،و لديكم أيضا.. إلى اللقاء. و السلام عليك.
سعید صاحب ، یہ عربی بلاگ نہیں ہے۔ اگر آپ اردو پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں تو مہربانی فرما کر تبصرہ بھی اردو میں ہی فرمائیں۔ ہم کہ جو خلیج میں رہ چکے ہیں آپ کی بات کسی حد تک سمجھ لیتے ہیں لیکن باقی لوگ تو آپ کے خیالات پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
بہت ہی اچھا کہا انکل۔ آج ہمارا کام ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو پہلے ستون سے (جو پہلے ہی کمزور ہے) باندھ کر رگیدے جاتے ہیں۔ باقی کے چار ستون۔۔۔۔ عوام کو تو چھوڑیں “علماء” تک کو بھی یہ ادراک نہیں (علم شائد ہو) کہ یہ ہوتے بھی ہیں۔ ایسے میں عمارت کہاں سے آئے بھلا؟ یہ کون سوچے؟
Sajid bhai!
salam masnon!
aap ki bat ka jawab ye diya ja sakta hai k ajmal sahab ka blog urdu mai hai to fir is par urdu mai hi tabsire aane chahiyen, jabke kuch post aisi hain jin par mene english mai tabsire dekhen hain. pas jo aapka wahan jawab wuhi mera yahan jawab.lekin ye jawab to us waqt diyajay jab mujhe aap se ikhtilaf braye ikhtilaf karna ho lekin mai aapki bat bsro chashm qubul karta hun aur aap ke farmane ko sahi aur apni soch ko ghlat gardanta hun.
Aakhier mai ye wazeh kardun k mai ajmal sahab ka blog buhut dinon se parh raha tha,mujhe inka nuqta e nazar buhut mutawazi lga isliye mene bas inko pakar liya__arbon mai mujhe abhi tak aesa nahi mila__ aur inki taharir parh kar tabsira karne ko man karne laga kekin mere mobile mai urdu nahi thi to mene kafi dukano par urdu font talash kiya par har jagah hindi hi mila.is ‘halt e iztirar’ mai mene arabi ko izhar e mafizzamir ka zarya bana dala.umid hai k aap meri halt e iztirari samajh gaye hunge.mai apne sathyon se mazirat khah hun aur wada karta hun k meri waja se aayenda kisi ko taklif nahi hogi.
ان شاء الله.و السلام عليكم و رحمة الله.
Arabi zuban k jahan buhut sare fazayel ulama ne bayan kiye hain wahin mujhe in chand dinon mai 1 tajarba huwa___mumkin hai kisi ne ye bayan kardia ho mujhe kushi hogi agar kisi ne bayan kiya ho. ___wo ye k baqol iftikhar ajmal sahab :”achi tarah bdan aur sar dhanpi hui aurat dekh kar khamkha uski izzat karne ko man karta hai”arabi zuban bhi kuch aesi hi hai k agar aap us mai izhar e mafizzamir karen to aate jate salam karne ko aur jumlon k dich mai duwa dene ko khamkha man karta hai. aur lutf ki bat ye he k ridam bihalihi baqi rehta hai, balke ibarat ki sakht inki khud mutaqazi hoti hai lekin agar aap is usol ko urdu mai barten to awwalan to takalluf karna parta hai,saniyan ridam ka sathyanas hojata hai.
Meri ye bat agarche mozo se hati hui hai lekin ummid hai k jhel li jayegi.
میں بھی کیا احمق ہوں.. اب تک یہ سمجھتا رہا کہ یونیورسٹی جامعہ اور کلیہ کالج ہوتا ہے..!؟
Makki sahab!
mere naqis ilm k mutabiq aap pehle sahi samajh rahe the magar chonke ajmal sahab ne likkha hai to unhon ne tahqiq k bad hi likha hoga.muhtaram ajmal sahab se is talib e ilm ki dast basta guzarish hai k is zehni khlajan ko dor farmadijiye.
Note:aetiraz maqsod nahi hai aap k ilm se istifada maqsod hai.
محمد سعيد البالنبوري صاحب
بہت زبردست بات کی ہے آپ نے ۔ عربی اور جرمن ایسی زبانیں ہیں جن میں بات بات پر شکریہ اور مہربانی کا لفظ یا الفاظ کہے جاتے ہیں ۔ یہ پرانی زبانوں کی شان ہے ۔ جرمن لاطینی سے بنی زبان ہے ۔ عربی میں مزید ایک مٹھاس ہے کہ بات بات پر مخاطب کو دعا دی جاتی ہے مثال کے طور پر ربِنا بارک فیک ۔ ربِنا خلیک اور بھی کئی ہیں ۔
ایک بات واضح کر دوں کہ میں بہت زیادہ عربی نہیں جانتا ۔
مکی صاحب
آپ بہت عقل اور علم والے ہیں ۔ ویسے بیوقوف میں بھی نہیں ہوں ۔ اب آپ کو بتاتا ہوں کیا ہوا ۔ میں نے صرف مدرسہ ۔ کُلیہ اور جامعہ لکھا تھا ۔ بعد میں بلاگ جہاں پر پوسٹ لکھتا ہوں اس میں سب کے سامنے انگریزی لکھ دی ۔ وہاں درست نظر آ رہا تھا ۔ شائع کرنے کے بعد دیکھا نہیں ۔ اب آپ کے احساس دلانے کے بعد دیکھا تو وہاں معاملہ اُلٹ گیا ہوا تھا ۔ اب میں نے کے جامعہ سامنے College اور کُلیہ کے سامنے University لکھا ہے تو درست ہو گیا ہے
:smile:
محمد سعيد البالنبوري صاحب
میں نے درست کر دیا ہے ۔ میں اردو میں انگریزی کے الفاظ ملاتا رہتا ہوں لیکن یہ گڑ بڑ پہلی بار ہوئی ہے