چار سال گذرے میرا بیٹا دو چھوٹے چھوٹے کچھوے مع ان کے شیشے کے گھر کے خرید لایا ۔ وہ خوب کھیلتے رہتے ۔ سردیاں آئیں تو ایک کچھوا بیمار ہو گیا ۔ وہ پانی میں اُترا تو اُس سے واپس پتھر پر نہیں چڑھا جا رہا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ دوسرا کچھوا پانی میں اُترا اور تیرتا ہوا اُس کے نیچے چلا گیا ۔ پھر نیچے سے اُسے اُٹھا کر بڑی کوشش سے آہستہ آہستہ پتھر پر چڑھا دیا
دلچسپ!
جب میری دو میں سے ایک بلی اتفاقاً گھر سے باہر رہ جائے یا کسی دروازے کے پیچھے بند ہو جائے تو دوسری “میاؤں، میاؤں” کر کے گھر سر پر اٹھا لیتی ہے جب تک کہ دوسری بلی کو دریافت نہ کر لیا جائے۔
سبحان اللہ۔ رحمت اور شفقت تو رب کریم نے تمام حیوانات کو عطا کی ہے لیکن انسان کو یہ اختیار عطا فرمایا گیا کہ یا تو “احسن تقویم” کا مظہر بنے یا “اسفل السافلین” کا سزاوار ٹھہرے۔ ایسی ہی مثالوں کو دیکھ کر “اولٰئک کالانعام بل ھم اضل” کے فرمان کی حقانیت نظر آتی ہے۔
خرم صاحب
علومِ جدید کے نشے نے آدمی کو انسان بنانے کی بجائے درندہ بنا دیا ہے ۔ اللہ مجھے اور آپ کو سیدھی راہ پر قائم کرے