آج میں انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کر رہا تھا کہ نظر آیا “تحریک آزادی جموں کشمیر”۔ یہ میرے محبوب موضوعات میں سے ایک ہے سو تلاش کو چھوڑ کر اسے پڑھنے لگا اور خود پر ہنسے بغیر نہ رہ سکا ۔ کیوں ؟ یہاں کلِک کر کے معلوم ہو سکتا ہے
آج میں انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کر رہا تھا کہ نظر آیا “تحریک آزادی جموں کشمیر”۔ یہ میرے محبوب موضوعات میں سے ایک ہے سو تلاش کو چھوڑ کر اسے پڑھنے لگا اور خود پر ہنسے بغیر نہ رہ سکا ۔ کیوں ؟ یہاں کلِک کر کے معلوم ہو سکتا ہے
مضمون کی لمبائ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسے کتنی محنت اور دل جمعی سے لکھا ہے۔ لیکن حروف خاصے باریک ہیں اس وقت تو میری ہمت نہیں پڑی کہ سرسری نظر ہی ڈال لیتی۔ آپکی ہنسنے والی بات پہ مجھے ہنسی آئکہ مجھے بھی اس صورتحال سے گذرنا پڑا۔ تحریر کے سلسلے میں نہیں، دیگر اور سلسلوں میں، لیکن میرے رفقاء میری پی ایچ ڈی کے کھاتے میں اسے ڈال دیتے ہیں۔ آپکو تو لگتا ہے اسکی ضرورت ہی نہیں۔
عنیقہ ناز صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ آمد صرف شعروں کی ہوتی ہے نثر کی نہیں ۔ میرا لکھا ہوا چھوٹا سا مضمون بھی میری کئی ہفتوں کے مطالعہ اور محنت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ متذکرہ مضمون میری کئی دہائیوں کی محنت کا نتیجہ تھا ۔ میرا خیال ہے کہ القلم والوں نے اسے میرے بلاگ سے نقل کیا ہے ۔ اُوپر بلاگ کے عنوان کے نیچے آپ کو سرِورق ۔ تعارف اور رابطہ کے ساتھ اور کئی عنوانات نظر آئیں گے ۔ انہی میں ایک “تحریک آزادی جموں کشمیر” بھی ہے ۔ اس پر کلِک کر کے آپ پورا مضمون موٹی لکھائی میں پڑھ سکتی ہیں ۔
سرِورق ۔ تعارف ۔ رابطہ اور میری امّی کے علاوہ جن مضامین کے عنوانات اس جگہ نظر آ رہے ہیں ان میں سے ہر ایک میرے سالہا سال کے مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔ ہر ایک مضمون اس کے عنوان پر کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے
آپ کے مندرجہ ذیل فقرے کی وضاحت ضروری ہے
لیکن میرے رفقاء میری پی ایچ ڈی کے کھاتے میں اسے ڈال دیتے ہیں۔
بس جی چنگی چیزاں چوری هو ہی جاندیاں نے
لیکن اہل علم اپنے علم کی چوری پر ہنس هی دیا کرتے هیں
که
میں تو خود بانٹ رها ہوں
جھلے لوکوں چوری کیوں کردے او
خاور صاحب
اسی بات پر مجھے بھی حیرانی ہوتی ہے ۔ جب میرے مضامین جریدوں میں چھپتے تھے تب بھی میں نے کبھی معاوضہ نہ مانگا اور نہ لیا ۔ القلم والوں کی نوازش ہے کہ اُنہوں نے مضمون میرے نام سے ہی شائع کیا ۔ کئی مہربان اپنے ناموں سے شائع کرتے رہے ہیں