”میرا نام احمد نور وزیری ہے ۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بی اے آنرز کا طالب علم ہوں ۔ اس کے علاوہ میں کیا بتاؤں کہ میں کون ہوں او رکیا ہوں ۔ اس ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ کے دوران میں اپنی شناخت کھوچکا ہوں ۔ ان ساٹھ سالوں میں مجھے کیا کیا نام نہیں ملے ۔ کبھی مجھے غیور قبائلی کے نام سے پکارا گیا ۔ کبھی مجھے مجاہد بنا کر غیروں کے ہتھیاروں سے غیروں کے مقاصد کے لئے لڑوایا اور استعمال کیا گیا ۔ کبھی مجھے سمگلر کہا گیا ۔ کبھی مجھے غدار کے لقب ملے جبکہ کبھی مجھے دہشت گرد بنا کر میرے معصوم خون کو کسی اور کیلئے بہایا گیا ۔ میں فاٹا کے ایک پسماندہ علاقہ جنوبی وزیرستان کے وانا نامی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جسے بعض لوگ علاقہ غیرکہتے ہیں بعض کے نزدیک یہ نومین لینڈ [No-man-land] ہے اور بعض کے نزدیک یہ ایک فیکٹری ہے جہاں کبھی مجاہد اور کبھی دہشت گرد تیار ہوتے ہیں ۔ قانون کی کتابوں میں وزیرستان اور پورا فاٹا پاکستان کا حصہ ہے لیکن وہاں کی فضاؤں میں امریکہ کے ڈرون طیاروں کاراج ہے ۔ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں میزائل فائر کردیتے ہیں
میرے دوستو ۔ آج میں اپنی شناخت کی تلاش میں یہاں آیا ہوں ۔ آج میں ایف سی آر کی ستائی ہوئی غربت کی چکی میں پسی ہوئی وار آن ٹَیرر کی آگ میں لپٹی ہوئی اپنے ہی ملک میں مہاجر بنی ہوئی اور امریکہ کے ڈرون حملوں کے سائے تلے زندگی گزارنے والی پانچ ملین انسانوں پر مشتمل قوم [قبائل] کی طرف سے پیار محبت اور عشق کی سوغات لے کر آیا ہوں ۔ اسے قبول کیجئے ۔ میرے دوستو ۔ اسے قبول کیجئے“
یہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ہونہار طالب علم احمد نور وزیری کے افتتاحی کلمات تھے جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ”یوتھ پارلیمنٹ“ کے افتتاحی اجلاس کے دوران اپنا تعارف کراتے ہوئے ملک بھر سے منتخب طلبہ اور اہم قومی شخصیات کی موجودگی میں ادا کئے
” یہ خط وانا [جنوبی وزیرستان ایجنسی] سے لکھا جارہا ہے۔ وانا میں تقریبا ساڑھے سات سال سے خانہ جنگی جاری ہے اور یہاں زندگی بس صرف سانس کے آنے اور جانے کا نام ہے ۔ ۔ ۔ دسمبر 2001ء میں ایک طرف افغانستان سے طالبان کے اور دوسری طرف پاکستان سے افواج کے دستے وانا آنا شروع ہوگئے۔ 26 جون 2002ء کو وانا کے گاؤں کژہ پنگہ میں پہلا فوجی آپریشن ہوا۔ تب سے لے کر اب تک کشت و خون کا بازار گرم ہے ۔ ہمارے اوپر الزام تھا کہ ہم سب دہشت گرد ہیں چنانچہ سرکار نے پورے وانا سب ڈویژن میں اقتصادی پابندیاں لگادیں۔ اس دوران ہمارے قبائلی مشران میں سے جس نے بھی زبان کھولی اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ 2004ء میں ایک اور انتہائی بے رحم آپریشن کیا گیاجس میں ہوائی جہاز بھی استعمال ہوئے ۔ لوگوں نے وانا سے ہجرت کی لیکن کسی شہر کی جانب نہیں بلکہ قرب و جوار کے ویرانوں کی طرف۔ اس دوران گھر مسمار ہوئے ، بازار لٹ گئے ۔ واحد ذریعہ معاش یعنی سیبوں کے باغات برباد ہوگئے۔ اس وقت تک وانا کے لوگ اغواء برائے تاوان کے جرم سے ناآشنا تھے لیکن آئے ہوئے ازبک ، چیچن اور دیگر جابر مہمانوں نے نہ صرف انہیں اس سے آشنا کیا بلکہ قتل و غارت ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور سرکاری سکولوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانا بھی روز کا معمول بن گیا۔ اس کے بعد تاحال ہم اس کیفیت سے گزر رہے ہیں ۔ ڈرون حملے ہیں ۔ فوجی کانوائے کا تمام راستوں پر نہ صرف آنا جانا ہے بلکہ اس کے خیریت سے گزرنے کی خبر ہم بطور خوشخبری ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ وانا ڈی آئی خان سڑک بند ہے اور ہم 150روپے فی سواری کی بجائے 1500روپے فی سواری کرایہ دے کر ژوپ بلوچستان کے راستے وانا اور ڈی آئی خان کے مابین سفر کرتے ہیں ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ معمول ہے لیکن آپ کے ہاں گھنٹوں کے حساب سے جبکہ ہمارے ہاں مہینوں کے حساب سے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چھ ماہ سے بجلی بند ہے ”
غریبی تو خود انسان ہونے کی سزا ہے جناب۔
ارے بھائی احمد نور صاحب آپ سے کیا سارے خطے کے مسلمانوں سے ہاتھ ہوگیا ہے شییعہ، قادیانی اور زر زمین کی پوجا کرنے والوں نے مسلمانوں کا کندھا استعمال کیا۔ابھی تک ایک کام تو اس فراڈ ملک سے بھی اللہ نے لے لیا ہے اور ایک باقی ہے۔ قادیانی قانونی طور پر کافر قرار دیئے گیئے ہیں اور ان کے بھائی شیعہ رہتے قانونی طور پر ابھی تک بچے ہوئے ہیں حالانکہ انکے بھی باپ ہیں اس کے علاوہ اللہ نے اس ملک سے کیا کام لینا ہے وہی جانے۔
بھائی صبر کرو۔ لوگوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ پر بھروسہ رکھو۔ جیسے حالات جارہے ہیں اس سے لگتا تو یہی ہے کہ اس ملک کی جگہ نیا ملک بنے گا اور عدالت لگے گی البتہ اگر دجال کا وقت بھی یہی ہے تو ملک ختم ہوگا ، مگر اسلام کے لشکر یہیں سے آئیں گے۔ دجالیوں نے دیکھ لیا ہے کہ چنگاری یہیں ہے
قربانی پشتون لوگوں نے دی ہے توقیر بھی سب سے بڑھ کر ان کی قوم کے نام
جائے گی
اب زرا سابقہ جماعتی کالم نگار کا کالم پڑھیں اور ہنسی کو ضبط کرنے کی کوشش کریں کہ کس طرح شیطانوں کو کہتا ہے کہ اپنا آپ بچاؤ اپنا لوٹ مار کا سسٹم بچاؤ کچھ کرو کہیں سب نہ تباہ ہوجائے ، اور اگر فتح امریکہ اور اس کے کالے ساتھیوں کی ہوگی تو ٹھیک کیوں کہ کسی کو فاتح تو ہونا ہے اور اگر مسلمانوکامیاب ہوگئے تو یہ سب لپیٹ دیا جائے گا ہاہاہاہا
http://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/01-11-2009/col11.htm
احمد بھائی پانچ سو سالوں سے مسلمان دجال کی آمد کے ڈھول پیٹ رہی ہے اور امام مہدی کے انتظار میں پشتوں سے کشتے کھاتی چلی آرہی ہے۔ شیعہ سُنی کی جو تفریق آپ کے یہاںہے اس کے ہوتے ہوئے کسی اور دجال کے آنے کی ضرورت نہیں۔