کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ ناصر خان درانی کی طرف سے آئی جی پولیس پنجاب کو بھیجے گئے میمورنڈم نمبر 12981 میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے بیورو آف ڈپلومیٹک سکیوٹی نے پولیس کالج سہالہ میں انسداد دہشتگردی ریسپانس ٹیمز کی تربیت کیلئے 2003ء میں انسداد دہشتگردی کی مدد کا دفتر قائم کیا تھا ۔ وزارت داخلہ نے19جولائی 2003ء کو ایک میمورنڈم نمبر 1/41/2003 کے ذریعے اس آفس کے قیام میں اپنی رضا مندی ظاہر کی اور کہا کہ امریکی سفارتخانہ کو مذکورہ تربیتی مقاصد کیلئے پولیس کالج سہالہ کی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے انہیں فائرنگ رینج ، آرمری اور دیگر متعلقہ سہولیات و انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بھی اجازت دی گئی تھی ۔ اس علاقے کو نہ صرف پولیس کالج سہالہ کی انتظامیہ بلکہ زیر تربیت اہلکاروں کیلئے بھی نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے ۔
اس خط میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کالج کی حدود میں بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد بھی ذخیرہ کیا گیا ہے جو کہ اس تربیتی ادارے کیلئے بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے ۔
کمانڈنٹ سہالہ پولیس نے آئی جی پنجاب سے کہا ہے کہ وہ وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) کو اس معاملے میں ملوث کریں تاکہ مناسب حفاظتی اقدامات کئے جاسکیں
بشکریہ ۔ جنگ
کچھ بات مبہم سی ہے۔ اگر اس دفتر کے قیام کا مقصد انسداد دہشتگردی کی تربیت دینا تھا (لگتا تو یہ ہے کہ پولیس کو یہ تربیت دی جانی تھی) تو پھر نو گو ایریا کیونکر قرار دیا گیا؟ دھماکہ خیز مواد کی نوعیت کا علم تو نہیں ہوتا یہ پڑھ کر لیکن اس کی موجودی تو ایک تربیتی ادارے میں عام بات ہونا چاہئے خاص کر جب تربیت انسداد دہشت گردی کی ہو لیکن ایک پہلو فکر کا یہ ہے کہ جو گزشتہ دنوں زی کی موجودی کی خبریں تھیں ان سے ملا کر اس خبر کے مثبت اور منفی دونوں پہلو نکلتے ہیں سو منطقی طور پر انٹیلی جنس بیورو اور دیگر ایجنسیوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہمارے دارالحکومت کے پہلو میں بیٹھ کر کہیں ہمارے خلاف کوئی گیم نہ کھیلی جارہی ہو۔
خرم صاحب
پولیس ہو یا فوج اُن کے تربیتی ادارے میں کوئی بارود جسے انگریزی میں ایکسپوسِو کہتے ہیں نہیں رکھا جاتا ۔ اور ان کی تربیت کیلے جو بندوقیں استعمال ہوتی ہیں ان میں کارتوس ڈال کر گولی نہیں چلائی جا سکتی ۔ اس بندوق کو ڈرِل پرپز رائفل کہتے ہیں ۔ یہ ہوتی اصلی بندوق ہے مگر اس کی فائرنگ پِن کاٹی ہوئی ہوتی ہے تاکہ اگر کوئی کارتوس بندوق میں ڈال بھی دے تو گولی نہ چلے ۔ اسی طرح توپخانہ کی تربیت دی جاتی ہے ۔ اس میں تو بارود بھرے گولے کی بجائے اتنے ہی وزن کا خالی گولہ ہوتا ہے ۔
آخری جملہ آپ کا درست ہے لیکن کیا کریں ہمارے حکمرانوں کو صرف جیبیں بھرنے سے غرض ہے
شاید آپ نے کچھ سال پہلے سنا یا پڑھا ہو کہ ایک بڑا امریکی اڈا جیکب آباد میں ہے جہاں کسی پاکستانی جنرل کو بھی جانے کی اجازت نہیں
شاید اس بات کی تردید امریکی سفارت خانہ نےکی ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ امریکہ نے ہمیں ایک ایسی جنگ میں ملوث کردیا ہے جو صرف ہمارےلیے ہی خطرے کاباعث ہے امریکہ کا اس معاملے میں کچھ نہیں بگڑنے والا، وہ الگ سے تماشا دیکھ رہا ہے اور ہمیں ہدایات دے رہا ہے
دہشت گرد اور امریکہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور پاکستان ایک طرف اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور۔
ظاہر ہے سارا اسلحہ امریکہ آتا ہے بھیک میں اور مرتے ہیں فقیر۔
شازل صاحب
یہ سب ہمارے آمرانہ نظام اور اکثر عوام کی بے حسی یا خودغرضی کا نتیجہ ہے