ایک جنگل میں یہ قانون منظور ہوگیا کہ آئندہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔ دوسرے دن جانوروں نے دیکھا کہ ایک خرگوش بھاگا چلا جارہا ہے ایک گیدڑ نے اس کو آواز دی اور پوچھا ” کیوں بھاگے چلے جارہے ہو ؟”
خرگوش نے کہا ” ایک بھیڑیا میری طرف آرہا ہے “
اس نے کہا۔”تم کو معلوم نہیں کہ قانون جاری ہوگیا ہے؟ اب کوئی جانور دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔“
خرگوش بولا”ہاں قانون تو جاری ہوگیا ہے۔ لیکن بھیڑیئے کو پڑھنا نہیں آتا۔!!
اب خرگوش پریشان ہیں کہ قانون بن گیا ہے اور جو طاقتور ہیں اور با اثر ہیں ان کو پڑھنا نہیں آتا ایسے میں ہمارا کیا بنے گا……؟
کہتے ہیں کیری لوگر بل کے تخلیق کاروں کو کوئی سمجھا رہا تھا کہ ” لکھ دو ۔ جو مرضی لکھ دو ۔ پاکستانیوں کو انگلش نہیں آتی ۔“ واقعی پاکستانی لوگ انگلش تحریروں کو پڑھ بھی نہیں سکتے۔ اگر پڑھ سکتے تو 2005ء میں شائع ہونے والی کتاب کے مصنف کو اپنا سفیر مقرر کیوں کرتے ؟ اور پاکستان کے حکمرانوں کو بھی انگلش پڑھنی نہیں آتی۔ اگر آتی تو وہ امریکی شہریت کا وہ حلف نامہ تو پڑھ لیتے جس کے تحت حلف اٹھاکر جناب حسین حقانی امریکی شہری بنے تھے ۔ اس میں لکھا ہے
”میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں ہر حال میں امریکہ کا وفادار رہوں گا اور ہمیشہ ہر کام امریکہ کے مفاد میں کروں گا “
پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
بہت خوب ۔۔
ابھی کچھ دن پہلے اخبارات میں ایک خبر پڑھی تھی کہ میٹرک تک اب صرف انگریزی تعلیم کو ضروری قرار دیا جانے والا ہے ۔
اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے سر ۔۔ کیا یہاں انگریزی تعلیم ضروری کرنے سے انگریزی قوانیں و تعلیم کی سمجھ ملے گی ؟
ریحان صاحب
یہ بامحاورہ مذاق اُڑایا گیا ہے ۔ انگریزی کی تعلیم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں
خوب چھپای کی ہے جنگ اخبار سے –
ہاہاہاہا، جنگل کے قانون کی ایک عمدہ مثال!
پولیس سامنے ہو تو جرم نہیں کرنا، سامنے نہ ہو تو سب کچھ کر سکتے ہیں۔
میں پچھلے دنوں مصروف تھا ورنہ آپکا بلاگ خاص کر پڑھتا ہوں اور آپ کے بلاگ پر آنے کیلئے افضل صاحب کع بلاگ پر دیا گیا لنک استعمال کرتا ہوں خاصی آسانی رہتی ہے، ایک وقت تھا انکا بلاگ بھی روز پڑھا کرتے تھے مگر انکی باتوں میں ربط نہیں رہا اور وہ کوشش کرتے ہیں انکے ہاں زیادہ تبصرہ کرنے والے اور خاص کر شیعہ لوگ راضی رہیں ، اسی لیئے ان کے ہاں اکثر ایسے ہی لوگ تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں، البتہ آپ کا بلاگ ایک نظریئے پر قائم ہے اور آپ اکیلے ہی محاز پر ڈٹے نظر آتے ہیں تو لازم محسوس ہوتا کہ شیعت کے علاوہ اسلام اور پاکستان پر آپ کی جو بات ہو اسکی حمایت کی جائے
میں زرا دیر سے مگر آپکے بلاگ ” ایک بے مثال تبصرہ” پر کچھ کہنا چاہوں گا
جو بات آپ نہیں سمجھ رہے وہ صرف اتنی ہے کہ عقیدہ پر ھی دین قائم ہوتا ہے، عقیدہ پر ہی انسان زندگی گزارتا ہے ، عقیدہ پر ہی اسکے سارے معاملات ہوتے ہیں ، عقیدہ پر ہی کاروبار کرتے ہے ، عقیدہ پر ہی بچوں کی تربیت کرتا ہے اور عقیدہ پر ہی ہے جان دیتا ہے
آپ کس طرح لوگوں کو جن کا عقیدہ اور ہے اپنی باتوں پر قائل کرلیں گے؟
آپ اگر فتنوں کہ جان لیں، شیعت کا اچھی طرح مطالعہ کر لیں تو جان لیں گے کہ سب ایسا کیوں کہتے ہیں
اس پر مزید بات کرین گے انشاء اللہ
بہت خوب اچھی تحریر ہے!
بہت عمدہ۔
حسین حقانی کے حلف والی بات قابلِ غور ہے
قدیر احمد صاحب
قابلِ غور نہیں ظلم ہے ۔ ادھر قائد بھائی کے پاس بھی برطانیہ کا پاسپورٹ ہے ۔ کیا وہ شخص بھی فراڈ نہیں ؟
آپ کے بلوگ کی پرانی قاری تو نہیں لیکن ایک دن تفصیل سے بیٹھ کر چھانٹا تھا آپ کا بلوگ۔ میرا خیال ہے کہ آپ کا ایک بیٹا امریکہ میں ہوتا ہے اور یقینا وہ بھی خواہش مند ہوگا وہاں کی نیشنیلٹی ملنے کا یا ہو سکتا ہے مل چکی ہو۔ تو آپ کو نہیں لگتا کہ حبِ وطن کا یہ درس آپ کو گھر سے شروع کرنا چاہیے۔ پھر دہسروں کے اوپر انگلی اٹھانی چاہیے۔
سیپ صاحبہ
بہت دور کی کوڑی لائی ہیں آپ ۔ یہ مضمون میں نے نہیں لکھا ۔ دوسری بات کہ میرا بیٹا امریکہ کا حلف اُٹھا کر پاکستان کا مال نہیں کھا رہا ۔ تیسری بات یہ ہے کہ میرا بیٹا جو منہ سے کہتا ہے وہی اس کے دل و دماغ میں بھی ہوتا ہے ۔ اس کی تصدیق آپ اسے جاننے والے سب لوگوں سے کر سکتی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ آپ میرے بلاگ پر اُردو سیارہ سے پہنچی ہیں ۔ دریافت کر لیجئے کہ اُردو سیارہ اور اس سے ملحقہ فورمز کون چلا رہا ہے ۔اور انٹرنیٹ پر اُردو کی سب سے زیادہ خدمت کرنے والے پانچ آدمی کون ہیں
اور اگر آپ مزید جاننا چاہتی ہیں تو میرے بیٹے کے پاکستان سے جانے کا سبب اسی قسم کے لوگ ہیں جس کی حمائت میں آپ نے یہ تبصرہ لکھا ہے
آپ تو برا منا گئے۔ آپ نے کہا، “میرا بیٹا امریکہ کا حلف اُٹھا کر پاکستان کا مال نہیں کھا رہا “م تو یعنی کہ امریکہ کا مال کھا کے پاکستان کی خدمت کرنا صحیح ہے۔ یہ وعدہ خلافی نہیں؟ آپ نے یہ مضمون اپنے بلوگ پہ چسپاں کیا تو ظاہر یہی ہے کہ آپ لکھنے والے سے متفق ہیں، آپ اس بات سے مُکر نہیں سکتے۔
اور جو کچھ آپ نے کہا اس کے برعکس ”میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں ہر حال میں امریکہ کا “وفادار” رہوں گا اور ہمیشہ ہر کام امریکہ کے مفاد میں کروں گا “ والی بات تو اپنی جگہ ہی ہے۔ میں نے کسی کی حمائت میں یا کسی کے خلاف یہ تبصرہ نہیں کیا۔ میں نے تو ایک صحیح اور سچی بات کی کہ اگر بات حلف اٹھانے کی ہے کوئی حلف اٹھا کر امریکہ کا وفادار رہے یا نہ رہے قسم تو اس نے کھائی۔ اور پھر اردو اور پاکستان کی خدمت حسین حقانی نے بھی کم نہیں کی۔
بات یہ کہ بہتی گنگا سے سب ہی مستفید ہونا چاہتے ہیں چاہے کوئی اس میں آپ کے بیٹے کی طرح صرف ہاتھ دھوئے یا ہمارے سیاستدانوں کی طرح پورا غسل کر لے۔
آپ اپنے بلوگ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے لوگ پاکستان کو ناکام ریاست ظاہر کرکے اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو اگر پاکستان کے روشن مستقبل کا اتنا ہی یقیں ہے آپ اپنے فرزندوں سے کہیے کہ آکر پاکستان میں پاکستان کے لیے کام کرو۔ اپنا دماغ، اپنی جوانی، اپنی محنت پاکستان کو دو۔ معافی کے ساتھ عرض کروں گی جن کے گھروں میں ڈالرز اور درہم آتے ہیں ان کے لیے بڑی باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اور ایسی محبت کی پاکستان کو ضرورت نہیں کہ آپ اپنی جوانی اپنی محنت، اپنی طاقت اپنی عقل تو غیروں کو دیں، اور پاکستان کی قسمت میں صرف ایسے لوگوں کا بڑھاپا اور قبریں آئیں۔
سیپ صاحبہ
ارے بی بی ۔ بُرا منانا میری خُو نہیں ہے ۔ بات اتنی ہے کہ میري اور آپ کی ٹیونگ فریکوئنسی میں بہت فرق ہے ۔ میں کلوہٹس میں ہوں اور آپ میگا ہرٹس میں جا رہی ہیں ۔ آخر دورِ حاضر ڈیجیٹل جو ہوا