پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ
* بریگیڈیئر امتیاز کے انکشافات کا مقصد مشرف کے ٹرائل کو روکنا ہے
* آئی جے آئی غلام اسحق خان اور اس وقت کی نگراں حکومت نے بنائی تھی
* ضیاء الحق نے سندھی نیشنل ازم کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ایم کیو ایم بنائی تھی
* این آر او کا فائدہ زرداری، ایم کیو ایم اور بریگیڈیئر امتیاز کو ہوا
* نوازشریف کا لانگ مارچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بڑا ہنگامہ جو ہونے والا تھا وہ رُک گیا ۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف کا قد اُونچا ہوگیا جو کہ حکومت کو پسند نہیں آیا ۔ جو سلسلہ ابھی شروع ہوا ہے یہ اس کا ردِ عمل ہے ۔ حکومت حزب اختلاف کو اپنی جگہ پر رکھنا چاہتی ہے
* حکومت نے کوئی فیصلہ کرلیا ہے کہ مشرف کا ٹرائل نہیں ہوگا اور آپ نے دیکھا ہے ایسی شرطیں لگادیں اسمبلی میں جائے گا جب پاپولر ورڈکٹ آئے گا اسمبلی کی طرف سے تو ان کا ٹرائل ہوگا اور آئین میں دوسری یہ بھی شق لگی ہوئی ہے، کسی کو مشرف کے ٹرائل کے لئے مقدمہ چلانے کے لئے حکومت کی مرضی کی ضرورت ہوتی ہے
* بریگیڈیئر امتیاز کے انکشافات والے معاملے کے پیچھے کون ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکومت وقت اور ایم کیو ایم ہے ۔ ان کے ساتھ بریگڈیئر (ر) امتیاز جیسے لوگ ہیں ۔ ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ اتنا دباؤ ڈالو کہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو ٹرائل کی بات کرنے کی ہمت نہ ہو
* سیاسی جماعتوں میں پیسے تقسیم کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سلسلہ تو ہمیشہ ہوتا رہا ہے ۔ آئی ایس آئی کو یہ کام بھٹو صاحب نے 1975ء میں دیا تھا ۔ اُس وقت سے یہ کام ہو رہا ہے، پیسے بانٹے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیسوں کی تقسیم میں صرف ایک جماعت کے لوگ نہیں ۔ آٹھ نو جماعتوں کے لوگوں کو پیسے دیئے گئے تھے ۔ یہاں تک کہ اس وقت کے الیکشن سیل کو بھی پیسے دیئے گئے تھے اور میڈیا مینجمنٹ بھی اس کے اندر موجود ہے
* سانحہ بہالپور حادثہ نہیں تھایہ سبوتاژ کی کارروائی تھی۔ اس میں اندرونی اور بیرونی ہاتھ ملوث ہوسکتا ہے
* بینظیر بھٹو کے قتل میں وہی لوگ ملوث ہیں جو ضیاء الحق کے قتل میں ملوث تھے
بہترین حل تو یہ ہے کہ ان سب کرنلوں جرنلوں کو پکڑ کر ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے، ہر کسی نے اپنے اندر اتنے بھید چھپا رکھے ہیں،
یاسر عمران مرزا صاحب
یہی تجویز جنرل اسلم بیگ نے مذاکرے میں دی ہے
پردہ جو اٹھ گیا تو ۔سب کچھ ھل جائے گا۔۔۔۔۔اللہ میری توبہ
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ نوازشریف اور آئ جے آئ بھی ضیا الحق کی بنائ ہوئ چیزیں تھیں جنہیں ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جنم دیا۔ نواز شریف تو ضیا الحق کے منہ بولے بیٹے تھے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ضیاالحق نے امریکہ سے کتنے پیسے لیکر قوم کو اسلحے کے ڈھیر پہ کھڑا کرا اورپاکستان کی ایک پوری نسل کو ہیروئن جیسے نشےمیں دھت کر دیا۔ پھر انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کتنے ڈالروں کے عیوض ضیالحق نے اپنی قوم کو جہاد کا فلسفہ امریکہ کی ایماء پر پڑھوایا۔ اور اس بات کا انکشاف کب کی جائے گا کہ بے نظیر نے کتنے ڈالرز کے بدلے میں نصیر اللہ بابر سے طالبان کو پیدا کروایااور راتوں رات یہ طالبان افغانستان کے بڑے حصے پر کس کی مرضی سے قابض ہو گئے۔ یہ سب لوگ اپنی مرضی اور اپنے فائدے کا سچ کیوں بولتے ہیں۔ کیا ایسا سچ جھوٹ کے برابر نہیں ہوتا۔ خود مرزا اسلم بیگ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے وہ خود بھی خاصی متنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ اپنے بارے میں یہ لوگ کب انکشاف کر کے عظمت کے بلند مینار پر چڑھیں گے۔
نواز شریف کے اونچے قد کو مزید اونچا کرنے کے لئے انہیں چڑھاوا دینے والے آخر کب اس حقیقت کو محسوس کریں گے کہ یہ ملک ہمارے لئے ضروری ہے نواز شریف نہیں۔ اس سولہ کروڑ کی آبادی میں نواز شریف جیسے خود غرض شخص سے کہیں زیادہ اونچے قدو قامت کے لوگ رہتے ہیں جنہیں اپنا قد اونچا کرنے کے لئے دوسروں کے کندھے اور ہر جائز اور ناجائز ذریعے سے سمیٹی ہوئ دولت حاصل نہیں ہے۔
اپنے وقت میں خود کو کل طاقت سمجھنے والے اپنے آپ کو اس لئے افضل سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے جیسےخود غرض لوگوں کی حمایت سے طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور مشرف کو اس لئے بد تر کہ بقول انکے انہوں نے ان سے یہ طاقت چھین لی۔
اے کاش ان دولتمندوں کی دولت سے مرعوب ہونے والے لوگ اپنے آپ کو بھی انسان سمجھیں۔
آئی جے آئی ۔ ۔ ۔ ۔ جنرل ضیاء نے بنائی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
عنیقہ ناز صاحبہ
آپ کا پارہ یکدم بلندیوں پر پرواز کرنے لگ جاتا ہے اور پھر آپ ایسی باتیں کرنے لگ جاتی ہیں جو آپ کی اپنی شخصیت کو مجروح کرتی ہیں ۔ آپ نے کس کا گناہ کس کے سر تھوپ دیا ہے اور اس میں سے نصف سے زیادہ بالکل بے بنیاد ہے ۔
سرکاری ملازمت میں اپنی حثیت اور مجھ پر کچھ لوگوں کے اعتماد کی وجہ سے میں بہت کچھ جانتا ہوں لیکن میں اسے اُگلنا اپنے دیرینہ اصولوں کی خلاف ورزی سمجھتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ اور کچھ اور لوگ مجھ پر چڑھائی کئے رکھتے ہیں مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں ۔ مجھے ہے حُکمِ اذاں لا الہ الاللہ
اگر میں دولت سے مرغوب ہونے والا ہوتا تو ملک کی محبت اور خدمت کی خاطر بے بہا دولت کو لات مار کر سرکاری ذمہ داری ختم ہونے پر جنوری 1983ء میں صرف 4000 روپے تنخواہ پر ملک واپس نہ آتا اور 60 سال کی عمر کو پہنچنے تک یورپ میں بیٹھا لکھوکھ ہا یورو جمع کر چکا ہوتا ۔ اگر میں کسی کی بے جا طرفداری کرنا گناہ نہ سمجھتا تو 3 مئی 1991ء کو اصول اور دیانتداری کے تحت 51 سال 9 ماہ کی عمر میں جب میں گریڈ 20 کے میکسیمم پر تھا ریٹائرمنٹ نہ مانگتا اور فیڈرل سیکریٹری یا اس سے بڑے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوتا یعنی گریڈ 22 یا 23 یا اس سے بھی بہتر سکیل پر
یہ سب ڈرامہ مشرف سے توجہ ہتانے کے لیے ہے سمجھو یارو
میرا خیال ہے کہ آپکے بلاگ پر میرا یہ آخری تبصرہ ہے۔ دولت اور اس سے منسلکہ لوگوں سے میری قطعی مراد آپ نہیں تھے۔ یہاں سولہ کروڑ لوگ اور بھی ہیں۔ جن میں سے لوگوں کی اکثریت یہی کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ میری اردو خاصی کمزور ہے اور میں اس سے آپ کو اپنا ما فی الضمیر سمجھانے میں ناکام رہتی ہوں۔
لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ میں اس ملک کے موجودہ اور گذشتہ مساءل کا ذمہ دار صرف مشرف کو نہیں سمجھتی اور نہ صرف الطاف حسین کو اور نہ صرف ایم کیو ایم کو۔ کہ آکری الذکر کاتعلق صرف ایک دو شہروں سے ہیں اور وہ آپکے سیاسی کینوس پر کوئ بھی دیر پا اثر چھوڑنے سے قاصر ہیں۔ جن لوگوں کے پاس پورے صوبے اور پورے ملک ہیں انکی دھجیاں اگر آپ سب اڑائیں تو شاید کچھ مزہ بھی آئے۔ لیکن یہ آپ نہیں کریں گے، کوئ بھی نہیں کریگا۔ آپکا بہت شکریہ۔
عنيقہ ناز صاحبہ
جب میں کسی بھی شخص کا بیان نقل کرتا ہوں تو اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں ۔
ایک ۔ بغیر کسی تبصرے کے نقل کروں
دو ۔ نقل کردہ بیان کے حق میں لکھوں
تین ۔ نقل کردہ بیان پر تنقید کروں
پہلی صورت میں صرف یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ فلاں یہ کہتا ہے ۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ کہنے والا سب درست کہتا ہے اور یہ کہ اس نے باقی سارے سچ بھی کہہ دیئے ہیں ۔
فرحان دانش صاحب نے چُن چُن کر متواتر کئی دن نواز شریف کے خلاف دیئے گئے جھوٹے سچے بیانات اخبارات سے نقل کئے ۔ اس میں جو لاشیں دکھائی گئی تھی وہ نواز شریف دور کی نہیں تھیں ۔ اس پر آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا ۔ مگر میں نے اسے بتانے کیلئے کہ یہ بیان بھی آ رہے ہیں لکھا تو آپ پریشان ہو گئیں ۔
رہی بات ملکی مفاد کی تو پچھلی کئی دہائیوں سے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے ۔ اس سے نہ کوئی سیاستدان بری ہے اور نہ جرنیل اور ان کے ساتھ ساتھ عوام کی اکثریت بھی یہی کام کر رہی ہے ۔ اگر عوام کی اکثریت لُٹیرے نہ ہوتے تو کیا مجال کہ کوئی حکمران لُوٹ مار کر سکتا
یہ کھیل تو رچائے جاتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔ عنیقہ نے ٹھیک کہا کہ اس ملک میں اور بھی بہت سے قابل لوگ ہیں آخر سائنسدان ، ادیب وغیرہ اس ملک کی بھاگ دوڑ کیوں نہیں سنبھال سکتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کیوں پاکستان کے صدر نہیں بن سکتے۔ انہیں کیوں اتنے سالوں سے حراست میں رکھا ہوا ہے کہ ان کے مہربان سعودی عرب میں نہیں رہتے ۔
ف ش صاحبہ یا صاحب
خوش امدید
آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی ۔ اللہ کرے وہ وقت جلد آئے کہ ڈاکتر عبدالقدیر خان یا ان جیسے لوگ ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں لیکن اس کیلئے محنت ہم سب یعنی عوام کو کرنا ہو گی ۔ جب تک ہم علاقائیت اور لسانیت میں پھنسے رہیں گے حالات بد سے بدتر ہوتے رہیں گے ۔ ہم سب کو پورے پاکستان کیلئے کام کرنا ہو گا