ایسا شاید ہی کوئی حافظہ گُم پاکستانی ہو جسے معلوم نہ ہو کہ الطاف حسین اور اس کے حواریوں نے پی سی او کے تحت ہٹائے گئے ججوں کی بحالی کی اپنی طاقت اور جسامت سے بڑھ کر مخالفت کی تھی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب پر بہتان تراشی بھی کی تھی ۔ جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کراچی گئے تھے تو اُنہیں ایئرپورٹ سے باہر نہ نکلنے دیا گيا تھا ۔ کراچی میں ججوں کی بحالی کے حامیوں پر حملے اور عدالتوں کا گھیراؤ کر کے وکلاء کو محصور کر دیا تھا
یہ بھی حقیقت ہے کہ 2006ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے معاف کئے گئے قرضوں کے خلاف از خود کاروائی کا آغاز کیا تھا جو 9 مارچ 2007ء کو ان کے خلاف ہونے والی غیر قانونی اور غیرآئینی کاروائی میں دب کر رہ گیا تھا ۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے مقدمات کی فہرست میں شامل ہے اور اِن شاء اللہ اس پر کاروائی ہو گی
اب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام کھلا خط لکھا ہے جس میں چیف جسٹس کی توجہ ملکی حالات کی طرف دلاتے ہوئے ان سے کھربوں کے قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی ہے
الطاف حسین کونسا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں ؟
کیا یہ کاروائی این آر او کے تحت بری ہونے والے سینکڑوں ایم کیو ایم کے وڈیروں کی پردہ پوشی کے لئے ہے ؟
ہماری سیاست کے بہت سے برائیٹ رنگوں میں سے یہ ایک رنگ ہے ۔
مداری گر کا کام ہوتا ہے عوام کو مداری میں مشغول رکھنا بس یہ ہی ہو رہا ہے عوام مشغول ہے
کھلا خط پڑھنے کے بعد ہم بھی آپ کی طرح سوچ رہے تھے۔ جب پی پی پی کی زبردست مخالفت کے بعد اس کا اتحادی بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کی تو پھر چیف کی بے عزتی کے بعد اسے خط لکھنے میں کوئی شرم والی بات رہ جاتی ہے۔ اب تو جناب ڈھٹائی کا زمانہ ہے، بس اپنا کام نکالو چاہے اس کیلیے ہیجڑہ ہی کیوں ناں بننا پڑے۔
ایم کیو ایم کی سیاست سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر ہم ایم کیو ایم کو وڈیروں کی جماعت کہنا شروع کردیںتو یہ بھی نامناسب بات ہوگی کہ ایم کیو ایم ہی ایک ایسی جماعت ہے جس میں وڈیرے نہیں ہیں اور امید کی جانی چاہیے کہ کم از کم اس جماعت میں آج نہیںتو ایک عشرے بعد عوامی قیادت ابھرنے کے امکانات ہیں جبکہ دیگر جماعتوں نے پچاس سالہ منصوبہ بندی کے تحت پہلے سے خاندانی قیادت کا تعین کررکھا ہے۔ اور اگر الطاف حسین نے قرضے معاف کر وانے والوں کے خلاف کاروائی کی بات کی ہے تو چلیں سب ہی یہ چاہتے ہیں، یہ تو عوامی مطالبہ ہے اس کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم کو وڈیروں کی جماعت کہنا تو حب علی سے زیادہ بغضمعاویہ والا معاملہ ہوگا۔
یہ فضلو اور الطافی گروپوں کی سیاست ایسی ہی تحقیر آمیز ہے
اس طرح کے تماشے نہیں دکھائے گا تو کراچی سے باہر لوگ تو سمجھیں گے مر گیا۔ کراچی والوں کو ایسا سمجھنے کے لئے واقعی ایسا ہونے کی دعائیں کرنا پڑیں گی
ان بھائی صاحب کے اخباروں میں ہر روز اور بغیر کسی وجہ سے محض ۔۔اِن۔۔ رہنے کے لئیے انٹ شٹنٹ بیان چھپتے رہتے ہیں۔ جو بظاہر اخبار والے بھی سخت دباؤ اور داداگیری سے ڈرتے ہوئے لگاتے ہیں اور خاصکر وہ اخبار اور ٹی وی جن کا چھپن چپھان کا سلسلہ کراچی سے ہے۔
ٹی وی اور اخباروں کے بیانات سے تو یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ بھائی صاحب اپنے آپ کو برصغیر ھندوستان کے برے دنوں میں ہندوستان پہ انگریزوں کے مقررکردہ وائسرائے سے کم کم چیز نہیں سمجھتے۔اور ایسٹ انڈیا کمپی کی طرح پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے وہ کونسا موضوع ہے۔ جس پہ بیان برائے بیان کے ذریعے بھائی صاحب نے طبع آزمائی نہیں کی۔ جبکہ درحقیقت کراچی اور حیدرآباد سے باہر ان کا پورا نام بھی شاید کوئی نہ جانتا ہو۔
چیف جسٹس افتخار محد چوہدری صاحب سے مراسلت کرتے ہوئے یہ کہنا کہ جناب وائسرائے ( الطاف حسین) کا فرمایا ہوا ہی مستند سمجھا جائے اور اسی کی بنیاد پہ ایف آئی آر کاٹی جائے، جیسے الطاف حسین موصوف کو ان ساری باتوں کا اچانک درد اس لئیے اٹھ رہا ہو کہ انھیں ان سب باتوں کا آج کل میں ہی علم ہوا ہے۔جبکہ موصوف کی جماعت کئی دہائیوں سے انھی قرضے معاف کرانے والوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لُوٹ رہی ہے اور کراچی کی لُوٹ سیل کی سب سے بڑے حصہ دار ہے۔ اور اقتدار کی اسی شراکت کی وجہ سے جناب وائسرائے ہر دوسرے دن لنڈن جیسے پرسکون، دودراز اور محفوظ ترین مقام سے پاکستان کے بارے میں حکمنامے جیسے بیانات داغتے رہتے ہیں۔
جبکہ درمیانی سی غیرت رکھنے والے لوگ بھی قول و فعل کے اس تضاد کو بے غیرتی سمجھتے ہوئے مرجانا گوارہ کر لیتے ہیں اور یوں نہیں کرتے۔ مگر موصوف کے نزدیک یہ بے غیرتی فن کی بلندی سمجھی جاتی ہے
راشد کامران صاحب
اول تو میں نے لفظ “وڈیروں” کو سندھی وڈیرہ کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ ویسے آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ سارے وڈیرے امیر نہیں ہوتے جیسے سارے چوہدری یا سارے خان یا سارے ملک بھی امیر نہیں ہوتے ۔
ایم کیو ایم میں فعال قیادت اُٹھے گی ۔ یہ آپ کی خوش فہمی ہے اگر الطاف حسین میں ذرا سی بھی پاکستان یا اس کے عوام سے محبت ہوتی تو نہ آفاق گروپ بنتا اور نہ عظیم احمد طارق کو قتل کروایا جاتا
زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب عدالتِ عظمٰی 2006ء میں ازخود کاروائی شروع کر چکی ہوئی ہے اور یہ پیٹیشن موجود ہے تو الطاف حسین اسی موضوع پر پیٹیشن دائر کرے ۔ ازخود کاروائی کا کہنا ایک مذاق ہو سکتا ہے یا طنز ۔ نیک خواہش نہیں ہو سکتی
شاید بلاوجہ کی بحث ہے لیکن مصطفی کمال مئیر کراچی بھی اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور حالیہ دورہ کراچی میں میں کراچی کے ایک ایک بندہ اس کی لگن اور انتھک محنت کے گن گاتا نظر آیا۔۔ آخر کو یہ متبادل قیادت ہے اور اگلے دس پندرہ برسوں میں اس طرح کے اور لوگ آپ کو آگے آتے ملیں گے اور صرف ایم کیو ایم یا شاید کسی حد تک جماعت اسلامی سے۔۔ باقی جماعتوں سے تو امید رکھنا ہی فضول ہے کہ بادشاہت کو بھی شرما کر رکھ دیا ہے۔ ان تمام حقائق کو آپ حقائق نہیں مانتے تو یہ صرف مخالفت برائے مخالفت میں لکھی گئی پوسٹ ہے۔
راشد کامران صاحب
گستاخی معاف ۔ مصطفٰے کمال کام کرنے کیلئے پیدا ہوا ہے حکومت کرنے کیلئے نہیں ۔ آپ کیوں اس بیچارے کی جان گنوانا چاہتے ہیں ۔ کیا آپ عظیم احمد طارق کا انجام بھول گئے ہیں ؟ اور آپ کو وہ ہر چوک میں لگے بینر بھول گئے ہیں “قائد صرف ایک ۔ الطاف حسین” ؟
اس جماعت سے عوام کی بھلائی کی اس وقت تک کوئی امید نہیں کی جا سکتی جب تک یہ جماعت الطاف حسین اور اس کے کمانڈروں سے آزادی حاصل نہیں کر لیتی ۔
ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔
گوکہ میرےنذدیک بھی اس موزوں پربحث فضول ہے، آپ سب کی گھڑی ایک ہی جگہ پراکر اٹک جاتی ہے۔ اگرٹھنڈے دل سے سونچوتوراشد کی باتوں میں وزن ہے مگرآپ لوگ اپنا مائنڈ سیٹ کرچکے ہو، پہلے پانچ سال ذرداری ، اسکے بعد بادشاہوں کےاس کے بعد چوہدریوں کے، اس کے بعد انکی اولادیں پھر اولادیں پھر اولادیں ٹھنڈے رہو سارے نے باری باری لوٹ نا عوام کوہی ہے۔
اگرچوہدری مشرف کوپیٹھ دیکھا سکتے ہیں تو کیا ایم کیوایم میں گیا سمجھدار طبقہ الطاف کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرسکتا ہے،اور پھر الطاف کتنا جی لے گا، مگرآپ سب نےتواس جماعت کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا ہے، چلو چھوڑو اس کوآپ ہی کوئی طریقہ بتاؤآپ کے ذہن میں لٹیروں اوربادشاہوں سے جان چھڑانے کا کیا کوئی طریقہ ہے، کوئی اور قیادت کیوں نہیں ہے یا آپ ایسی میں خوش ہو۔
چوہدری حشمت صاحب
موجودہ ایم کیو ایم کی اکثریت درمیانی اور درمیانی سے کم آمدن والے سارا دن محنت کرنے والے لوگ ہیں ۔ مسئلہ روزی اور جان کا ہے ۔ غنڈوں سے ٹکر لینے کے لئے نہ ان کے پاس وقت ہے اور نہ وسائل ۔ اگر کسی طرح انہیں تحفظ حاصل ہو جائے تو وہ یقینی طور پر حوصلہ رکھتے ہیں
خیال رہے کہ میری سوئی کہیں نہیں اٹکی ۔ کسی زمانہ میں مہاجر مجھے راولپنڈی اسلام آباد میں اپنا بڑا سمجھتے تھے اور کراچی سے بھی مشورہ لینے کے لئے ٹیلیفون آیا کرتے تھے ۔ بس اتنا ہی کافی ہے ۔ اس کتاب کو بند ہی رہنے دیں تو اچھا ہے ۔ میرا قلم چل پڑا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رہے غلط حکمران تو قصور ان کا ہے جو غلط لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں اور اس بڑھ کر ان کا جو ووٹ دینے جاتے ہی نہیں کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں
محترم اجمل صاحب۔
میں مانتا ہوں کہ آپ کا تجربہ مجھ سے بہت وسیع ہےاورآپ ہم سے بہت سنئیرہیں اورآپکی اس جماعت سے متنفرہونے میں عظیم احمد طارق کی موت ایک بہت بڑا عنصرہے۔ مگرجناب کیا ہمیں یہ ٹاس نہیں دیا جاتا ہےکہ اگر کہیں اچھایوں کے ساتھ برائیاں آجائیں تواچھایوں کوسپورٹ کرو ورنہ وہ جلد ہی دم توڑجائیں گی۔ میرے خیال میں آپ کواس جماعت سےاتنی جلدی ہاتھ نہیں اٹھانا چائیےتھا۔
جب الطاف حسین اس کا ٹائیٹل چینج کرنے پرتیار ہو گیا تھا تو پھرملک کے ہرکونے سے شریف ، صالح ، نیک ،اچھے، باصلاحیت افراد کواس میں انجکٹ کرنا کس کا کام تھا۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کی یہی ایک جماعت ہوسکتی تھی جوکہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو(مذہبی جنون) کے بغیر آگے لاسکتی تھی مگر نہ جانے کیوں آپ لوگوں نے اسے ویسٹ کیا ۔
یہ آپ کا پہلے بھی تھرڈ اپشن رہا ہے اور اب بھی ہے ، اب بھی آپ آزمائے ہوئے کو آزمارہےہیں اور پھر وہی نوبت، بوٹوں کی آواز۔۔۔۔ یہ جرنل تو شریف ہے اگلا کیسا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری حشمت صاحب
میں کسی بھی جماعت کو کُلی طور پر بُرا کہنے کے خلاف ہوں کیونکہ ہر جماعت میں اچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں ۔ جب کسی جماعت کا نام لیا جاتا ہے تو مراد جماعت کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں ۔ دیگر میرے نظریہ کی بنیاد کرتا دھرتا لوگوں کا کردار ہے عظیم احمد طارق کا قتل نہیں ۔
میری توجہ
سُورت الْمَآئِدَة کی آيت 2 ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ۔ اے ایمان لانے والو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے
کی طرف مبزول کرانے کا شکریہ ۔ اللہ کا فرمان اٹل ہے اور میں اس سے سرتابی نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے میرے الطاف حسین اور اس کے حواریوں کو بُرا کہنے کی ۔
اب آپ اس جماعت کی ساخت پر آ ہی گئے ہیں تو سُنیئے ۔ یہ جماعت ایک آمر نے سندھ میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا زور ٹوڑنے کیلئے بنائی اور اس جماعت نے ہمیشہ آمر کا ساتھ دیا اور اب بھی منہ سے اپوزیشن کی طرح بولتے ہیں اور زرداری کی گود میں بیٹھے ہيں
یہ جماعت سیکولر ہے اس لئے دین اسلام کی روح اس میں نہیں ہے ۔ دین اسلام جسے آپ مذہبی جنون کہتے ہیں
میں کسی آزمائے ہوئے کو نہیں آزمایا کرتا ۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جن کو میں نے اچھی طرح پرکھ کر ان کی منافقت کی وجہ سے رد کر دیا ان کی مدح سرائی کروں تو یہ ممکن نہیں ہے