یہ کوئی شاعرانہ فقرہ نہیں ہے جیسا کہ عام تاثر لیا جاتا ہے بلکہ یہ فلسفیانہ مقولہ ہے ۔ اگر کسی عارضہ کی درست تشخیص کئے بغیر عام طور طریقہ سے اُس کا علاج شروع کر دیا جائے تو عارضہ بڑھتا جاتا ہے ۔ میں نے “عارضہ” کا لفظ استعمال کیا ہے کہ اس کا مطلب جسمانی یا ذہنی یا نفسیاتی بیماری بھی ہو سکتا ہے اور دکھ یا تکلیف یا پریشانی بھی
ہمارے مُلک کے سابقہ حُکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے حُکم کی اندھا دھند بجا آوری کی جس کے نتیجہ میں مُلک کو طالبان کا عارضہ ہو گیا ۔ وہ تو اپنی نوکری پوری کر کے رُخصت ہوئے اور مُلک میں جمہوریت نام کی چیز نافذ ہوئی جس میں سارے اختیارات فرد واحد کے پاس مجتمع ہیں ۔ مغرب سے پھر پُکار اُٹھی اور جن کا قبلہ کعبہ نہیں مغرب ہے نے ہاہاکار مچا دی کہ ” مُلک کو طالبان ہو گیا ہے ۔ اگر جلد آپریشن کر کے اسے نیست و نابود نہ کیا گیا تو یہ پھیل کر پورے مُلک کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور خدا نخواستہ ملک ختم ہو جائے گا”
طب کا طور طریقہ [Medical procedure] ہے کہ کوئی مریض خطرناک مرض میں مبتلا ہو تو اطِباء کا اجلاس [Medical board] بُلایا جاتا ہے ۔ معمل [laboratory] سے رجوع کر کے مرض کے عوامل معلوم کرنے [diagnosis] کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ہسپتال کا سربراہ فوری طور پر جراحی [surgery] کا حُکم صادر کر دے کیونکہ جراحی خواہ کتنی بھی سادہ ہو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے
ہمارے مُلک کا مسیحا جس کے ہاتھ میں مُلک کے تمام اختیارات ہیں نے پہلے آپریشن کا حُکم صادر کر دیا اور جب آپریشن شروع ہو گیا تو اطباء کا اجلاس بُلا کر اپنی مرضی کی سفارش [report] حاصل کر لی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی حکومتی جراح آپریشن میں پھنسے ہوئے تھے کہ سرطان کی طرح بڑھتے ہوئے 26 لاکھ متاءثرین مُلک کے میں پھیلنے شروع ہو گئے جسے سنبھالنا مسیحانِ مُلک کی پہنچ سے بہت باہر ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ایک ہفتہ کی تگ و دو اور پوری دنیا کے حکومتی مسیحاؤں کی امداد کے باوجود حکومتی مسیحا 27 لاکھ متاءچرین میں سے 2 لاکھ کی بھی دیکھ بھال نہیں کر پا رہے
چند سو یا چند ہزار نفوس پر مشتمل طالبان تو ابھی مہینوں تک قابو میں آتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ اگر متاءثرین کے ساتھ حکومتی برتاؤ اسی طرح جار ی و ساری رہا تو کوئی عجب نہیں کہ 27 لاکھ متاءثرین جو گذرتے وقت کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں طالبان کا روپ دھار لیں پھر اس عارضہ کا علاج سوائے مکمل تباہی کے کچھ نہ ہو گا
کیا حُکمران صرف بیانات دینے کیلئے ہوتے ہیں ؟ عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی پر پلنے والے ان حکمرانوں پر عوام کے کوئی حقوق نہیں ؟
انکل اجمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے حکمران صرف حکمرانی کےلیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے نزدیک حکمرانی تو عیاشی،مجرے اور دیگر تعیشات ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کی حالت بقول شاعر اس وقت ایسی ہو چکی ہے۔۔۔۔۔
تیر بھی میں ہوں اور شکار بھی میں
میں نشانہ بھی ہوں تو وار بھی میں
ظلم جب حد سے بڑھ گیا تو اب
خون بھی میرا خونخوار بھی میں
طالبانی کینسر کا علاج جراحی سے کسی طور ممکن ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ کینسر جراحی سے مزید پھیلتا چلا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم اجمل صاحب۔
سب سے پہلے آج کے لاہور کے افسوس ناک واقعہ کےلیے دلی افسوس، تے انتہائی مذمت، اللہ تعالی شہدا دی مغفرت فرمائے، زخمیاں نو جلد صحت یاب کرے تے پسمندگان نو حوصلہ اور صبر جمیل عطا کرے۔
اب آپ کے کالم کی طرف آتے ہیں۔ جناب جو بے بس بے قصور نو مارے کیا وہ کیسی رعایت دا مستحق ا ہے۔ جو لوگ اپنے ملک میں مائنز بچھائیں کیا وہ اس مٹی سے محبت کرسکتا ہے ۔
میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں جانب یہ ہمارے مجاہدین نہیں، یہ کوئی اور لوگ ہیں ۔
ہاں ہمیں دشمنوں سے معاہدے کرنے اتے ہیں ، مگر سر ابھی اس کا وقت نہیں ایا ہے۔ کم از کم ابھی آپ اس پوزیش میں آجاؤ کہ اب معاہدہ اپنی ٹرم اور کنڈیشن پر کرو۔ آپ کے اندر اب اللہ کے فضل ہے اتنی قوت ہے۔ بخیرلڑے ہی ہار مان لینا کہاں کی عقلمندی ہے۔
دوا؟
کونسی دوا؟ :shock:
چوہدری حشمت صاحب
آپ کے تبصرہ کا جواب میری آج کی تحاریر میں ہے