رات میں سونے کیلئے بستر پر دراز ہوا تو ماضی کی ایک یاد داشت کی تلاش میں ماضی میں بہت دُور نکل گیا اور کچھ دیر بعد بے ساختہ گنگنانے لگا
میری دنیا لُٹ گئی تھی مگر میں خاموش رہا
ٹکڑے اپنے دل کے چُنتا کس کو اِتنا ہوش تھا
لُٹا تھا کس طرح ؟
میرا خیال ہے کہ مناسب ماحول ملے تو ہر لکھنا جاننے والا ڈائری لکھے ۔ میں نے کتنی عمر میں ڈائری لکھنا شروع کی مجھے یاد نہیں ۔ میرے انجیئر بن جانے کے بعد میرے بزرگوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں جب تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا تو 1946ء کی گرمیوں میں جموں سے سرینگر اور واپسی کے سفر کا حال جو میں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا وہ زبردست تھا ۔ یہ ڈائری تو 1947ء میں پاکستان کی طرف ہجرت کے وقت جموں میں ہی رہ گئی تھی کہ ہم تین کپڑوں میں اپنی جان بچا کر نکلے تھے ۔ مجھے یاد نہیں میں نے کیا لکھا تھا ۔ اتنا یاد ہے کہ سفر دلچسپ تھا جو راستے میں بس خراب ہوجانے کی وجہ سے شاید بڑوں کیلئے پریشانی لیکن میرے لئے مزید دلچسپ بن گیا تھا
ہمارا سالانہ امتحان فروری یا مارچ 1947ء میں ہونا تھا لیکن فسادات شروع ہونے کی وجہ سے سکول بند ہو گئے ۔ میں وسط دسمبر 1947ء میں پاکستان پہنچا اور مجھے 1948ء میں سکول داخل کرایا گیا ۔ اس طرح میرا پڑھائی کا ایک سال ضائع ہو گیا ۔ 1948ء کے آخر میں ہم راولپنڈی آ گئے جہاں مجھے اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ داخل کرا دیا گیا ۔ سکول کے کام کی مشق کرنے کیلئے کاغذ کا دستہ لے کر آیا ۔ میں نے تین ورق نکال کر ان سے سوا چار انچ ضرب ساڑھے تین اِنچ کی ڈائری بنائی ۔ پھر جو نئی چیز نظر آتی یا جو چیز پسند آتی ۔ شعر ۔ سائنس کی وہ باتیں جو ہماری کتاب میں نہ تھیں اور سفر کا حال وغیرہ سب کچھ میں اس میں لکھتا رہتا
میں جب آٹھویں جماعت میں تھا تو دوسرے ممالک کے متعلق جاننے کا شوق ہوا ۔ میں نےترکی ۔ اٹلی ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ ہسپانیہ اور ہالینڈ کے سفیروں کو انگریزی میں خط لکھے کہ میں ان کے مُلک میں دلچسپی رکھتا ہوں اور تعلیم اور سیر و سیاحت کے مواقع جاننا چاہتا ہوں ۔ ان سفیروں نے مجھے رنگین تصاویر والی کُتب اور رسالے بھیجے جن میں تعلیم اور سیاحت کی سب معلومات تھیں ۔ میری الماری ان کتابوں اور رسالوں سے بھر گئی جو میں پڑھتا رہتا تھا اور میرے دل میں ان ممالک کی سیر کی زبر دست خواہش پیدا ہوئی ۔ اس کے علاوہ میں اخباروں کے تراشے بھی جمع کرتا رہتا تھا جن میں حافظ مظہرالدین صاحب کی جموں کشمیر اور تحریکِ پاکستان کے متعلق نظمیں بھی شامل تھیں
دسویں میں کامیابی کے بعد مجھے ہر سال کہیں نا کہیں سے خوبصورت ڈائری مل جاتی تھی سو مجھے سہولت ہو گئی ۔ میرا ڈائری لکھنے کا شوق ہمیشہ قائم رہا ۔ میں نے انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ راولپنڈی پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں ملازمت کی ۔ یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت اختیار کی اور واہ چھاؤنی میں اپنی بڑی بہن کے پاس رہنے لگا
سیٹلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارا گھر تیار ہونے پر میرے گھر والے یکم اگست 1964ء کو جھنگی محلہ راولپنڈی سے سیٹلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے ۔ یہ منتقلی اچانک ہی ہوئی تھی ۔ مجھے اس کی خبر نہ ہوئی ۔ 1948ء سے لے کر اُس وقت تک میں نے اپنی ساری کتابیں ۔ نوٹس ۔ ڈائریاں ۔خاص خاص رسالے ۔ اخباروں کے تراشے اور متذکرہ بالا معلوماتی کتب سب سنبھال کر رکھے ہوئے تھے ۔ دو بڑی الماریاں بھری پڑی تھیں ۔ صرف انجنیئرنگ کی کُتب میں اپنے ساتھ واہ چھاؤنی لے گیا تھا ۔ میرے چھوٹے ماشاء اللہ تین بھائیوں نے سمجھا یہ سب ردی ہے کیوں نہ بیچ کر جیب خرچ بنایا جائے ۔ یوں 1964ء میں میری دنیا لُٹ گئی اور میرا دل اور جگر اندر ہی اندر خون کے آنسو روتے رہے مگر زبان کچھ کہہ نہ سکی ۔ خاموش نوحہ میں ہی عافیت سمجھی ۔
اُس دن مجھ پر واضح ہو گیا تھا کہ ہمارے مُلک میں علم کی کوئی قدر نہیں ۔صرف سندیں حاصل کرنا ہی تعلیم کا مقصد ہے علم حاصل کرنے کیلئے نہیں ۔ ایک میں ہی بیوقوف ہوں جو بچپن سے اب تک علم سیکھنے کے پیچھے پڑا رہتا ہوں
اچھا لگا آپ کی روداد اور ذوقِ خامہ فرسائی پڑھ کر اور افسوس بھی ہوا کہ آپ کی متاع ردی میں بِک گئی!
ماموں جان – میں آپ کے غم میں برابر کا شریک ھوں، کیونکہ اس طرہھ کا وقعہ میرے سا تھ بھی پیش آ چوکہ ھے-
قدر اللہ و ماشاءفعل،حسبک اللہ و نعم الوکیل،نعم المولی ونعم النصیر۔
makedua.com/display_dua.php?sectionid=43
محمد وارث و محبِ پاکستان صاحبان
ہمدردی کا شکریہ
برخوردار ارسلان
آپ کے خزانہ کاڈاکٹر اسد نے کوئی انجن تو نہیں بنا دیا تھا ؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے۔ لیکن اب انٹرنیٹ کی بدولت یہ امید ہے کہ اس کی کمی کسی حد تک پوری ہو جائے گی۔ اگرچہ میرے خزانے کے کچھ بہترین اجزاء کے واپس ملنے کا پھر بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
1951 مین لاھور مین ڈبل ڈیکربسین شروع کی گئین اور یہ اس لیے یاد ھے کہ بس وھی ایک سال مین نے ڈائری لکھی تھی
امریکہ مین پریکٹس کرتے ھوئے چونکہ مفت ڈائریان ملتی تھین تو اپنی میڈیکل چیزین لکھا کرتا تھا
بلاگ روزانہ نھین لکھتا ورنہ یہ بھی ایک قسم کی ڈائری ھی تو ھے
ماشا اللھ آپ ھمیشہ سے نہائت آرگینائز رھے ھین مین نے ڈائری پھر نہ شروع کی گو بہت سے حالات لکھنے اور یاد رکھنے کے قابل تھے جو ذہن مین رہ گئے ھین بس انھین پر اکتفاکرتا ھون
آپ کے سانحے کے متعلق جان کر دکھ ہوا۔
علم کی قدر تو واقعی میں برصغیر میں نہیں ہے۔ کیونکہ پندرہ بیس سال پہلے کا میرا مشاہدہ بھی یہی رہا ہے کہ اسکول اور کالج میں بس ہم دو چار ہی دوست تھے جو ڈائری لکھا کرتے اور کتب خریدا کرتے تھے۔
عام حالات میں انسان کواپنا ماضی ہمیشہ خوبصورت لگتا ہے۔ اور عموماً یہ دیکھا گیا ہے جب بھی رنج و غم سے پالا پڑے تو ہم اپنے ماضی میں پناہ لیتے ہیں ۔ سائینس اسکی یہ توجیح پیش کرتی ہے اللہ سبحان و تعالٰی نے انسانی دماغ کی تعمیر میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ماضی میں لگی کی چوٹ مثلاً بچپن میں کسی دروازے میں ہاتھ آنا یا کھیل کود کے دوران چوٹ لگنا ۔ تو ایسی چوٹیں انسانی دماغ بھول جاتا ہے اور ناخوشگوار یادیں بھی مگر خوشگوار یادیں ہمیشہ تر تازہ رہتی ہیں اور اسکا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ چو نکہ ماضی بیت چکا ہوتا ہے اور ہم اسکے ہر پہلو کو دیکھ چکے ہوتے ہیں اور سب نسائل اور مصائب کو حل ہوتے اور پیچیدہ ترین معاملوں کو بھی درست کر چکے ہوتے ہیں اس لئیے بھی مستقبل کی نسبت ماضی اچھا لگتا ہے ۔ پھر ماضی میں گم ہوجانے والے لوگ بچھڑ جانے والے ساتھی ، رفقاء ۔ یہ سب باتیں کبھی کبھار ماضی کی آسودہ یادوں میں پناہ لینے کی خواہش کرتی ہیں ۔ اور کچھ چوٹیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی کسک ماجی میں گھسیٹ لے جاتی ہے ایسی چوتوں کا تعلق جسم سے زیادہ دل و جاں سے ہوتا ہے۔بہر حال
اجمل صاحب!
ڈائری جسے کچھ لوگ ذاتی تاریخ بھی کہتے ہیں ۔ آپکی اسقدر قیمتی متاع ردی میں بک گئی اس بات کا دکھ ہوا۔
ایک بات کی وضاحت نہیں کی آپ نے۔۔۔
کہ چھوٹے بھائیوں کا کیا حال کیا تھا ۔۔۔
:grin: :grin:
جعفر صاحب
اگر چھوٹے بھائیوں کو معمولی سی بھی سزا دینے کے قابل ہوتا تو پھر افسوس کیوں ہوتا ؟
ہماری امی نے ہماری ساری کتابیں اور ڈائریاں سنبھالی ہوئی تھیں
لیکن جب آپی کے ہاتھ میں عنان حکومت آئی تو ہماری بھی متاعیں لٹ گئیں
سالوں بعد مجھے ایک ردی والے سے اپنا پہلی کا قاعدہ واپس مل گیا تھا
اب تو ماضی سے وہی میری قیمتی مادی متاع ہے
ڈِفر صاحب
آپ تو بہت خوش نصیب ہیں ۔ مجھے صرف ایک چھوٹی سی خود بنائی ہوئی ڈائری اور ایک چھوٹی سی ڈائری کے کچھ ورق ملے تھے جو ردی میں بیچے نہیں جاسکتے تھے ۔ یہ میں نے آٹھویں جماعت میں بنائیں تھیں ۔ ان میں کیا لکھا ہے اِن شاء اللہ کبھی اپنے بلاگ پر شائع کروں گا