یہاں یہ لکھنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے قیام کی مارچ 1947ء میں منظوری ہوتے ہی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت غیرمُسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور جوان لڑکیوں اور عورتوں کا اغواء شروع کر دیا گیا تھا اور اُنہیں گھروں سے نکال کر پاکستان کی طرف دھکیلا جانے لگا ۔ یہ سلسلہ دسمبر 1947ء تک جاری رہا ۔ انگریز حکومت کے ساتھ ملی بھگت سے بھارت نے پاکستان کے حصے کے اثاثے نہ دیئے جو آج تک نہیں دیئے گئے ۔ ان حالات میں لاکھوں نادار مہاجرین جن میں ہزاروں زخمی تھے کو سنبھالنا اغواء شدہ خواتین کی تلاش اور بھارتی حکومت سے واپسی کا مطالبہ اور پھر ان سب مہاجرین کی آبادکاری اور بازیاب شدہ خواتین کی بحالی انتہائی مشکل ۔ صبر آزما اور وقت طلب کام تھا ۔
موازنہ کیلئے موجودہ جدید دور سے ایک مثال ۔ باوجود قائم حکومت اور وسائل ہونے کے اور ہر طرف سے کافی امداد آنے کے اکتوبر 2005ء میں آنے والے زلزلہ کے متاثرین آج پانچ سات سال بعد بھی بے خانماں پڑے رہے تھے اور کورونا کے بعد موجودہ حکومت کی کارکردگی تو آپ کے سامنے ہے
1947ء سے 1951ء کے دور کے ہموطن قابلِ تعریف ہیں جنہوں نے مہاجرین کو آباد کیا ۔ اور آفرین ہے بیگم رعنا لیاقت علی خان پر جس نے دن رات محنت کر کے جوان لڑکیوں اور خواتین کو اُبھارہ کہ گھروں سے باہر نکلیں اور رفاہی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ان دخترانِ ملت نے خدمتِ خلق کے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ الله اُن سب کو آخرت میں اجر دے ۔ آج عورتوں کی آزادی کی فقط باتیں ہوتی ہیں کام سوائے فیشن کے اور کچھ نظر نہیں آتا
جس اسمبلی نے اگست 1947ء میں پاکستان کا نظم نسق سنبھالا وہ پاکستان بننے سے قبل باقاعدہ انتخابات کے نتیجہ میں غیر مسلموں اور دوسرے کانگرسیوں سے مقابلہ کر کے معرضِ وجود میں آئی تھی اور اُس اسمبلی نے نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب کیا تھا ۔ اگر شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان انتخابات میں جیت نہیں سکتے تھے تو اُن کی وفات پر پاکستانیوں کی اکثریت زار و قطار کیوں رو رہی تھی اور تمام عمر رسیدہ لوگ کیوں کہہ رہے تھے کہ اب پاکستان کون سنبھالے گا
لیاقت علی خان پر بہتان ۔ اور حقیقت ۔ قسط ۔ 3
Leave a reply