اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے ۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے
رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے ۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا
وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے ۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے ۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے ۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا ۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کُتب موجود تھیں اور وہ اکثر سیّد امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے ۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے ۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے ۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں
اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں ۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر 1 کی سوانح عمری ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا ۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے ۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو 3 دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔
جنرل اکبر 25 جون 1948ء کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں ۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنیئے ۔”ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے ۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کا اعلان فرمائیں ۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حُکم دیا کہ میرا کانفیڈریشن بکس لے آؤ ۔ جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگُچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اور اسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا ۔ قائداعظمؒ نے ایک مسؤدہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں ۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحُکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا“۔
جنرل اکبر مزید لکھتے ہیں ”میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی ۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے ۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر تحقیق شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے ۔ قائداعظمؒ نے اس تحریک کو پسند فرمایا ۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی“۔ (صفحہ 282-281)
اس حوالے سے ایک عینی شاہد کا ا ہم انٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ” The Great Leader “ حصہ اوّل میں شامل ہے ۔ یہ انٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو اُن دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا ۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھیئے اور غور کیجئے ”میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جاؤں“۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب: اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔ دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا ۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے ۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (Mantle Piece) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے ۔ اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ رو پڑتے ہیں ۔ اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار ۔ اچکن
سوال: لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی ۔ شُبہ ہوا کوئی سُرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟ جواب: اسی رات ۔ آدھی رات کا وقت تھا ۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا ۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی ۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا ۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی ۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے ۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے ۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی ۔ اس سے اندر کی Movement دیکھی جاسکتی تھی ۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں ۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں ۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں ۔ اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں ۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا ۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے ۔ اس دوران میں وہ کوئی دعا بھی مانگ رہے تھے (صفحات 239، 240)۔
(بقیہ اِن شاء اللہ 30 دسمبر 2019ء کو)