میں جس سے ہر پل مشورہ کرتا تھا ۔ بغیر مشورہ کے 30 سال ہو گئے ہیں
میرے والد صاحب 2 جولائی 1991ء کو اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے تھے
الله سُبحانُهُ و تعالٰی میرے پیارے والد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور مجھے اُن کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ آمین یا رب العالمین
مجھے پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہیں باپ کے چہرے کی جھُریاں میں نے
ان کے ہونے سے بَخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں
مجھے چھاؤں میں رکھا ۔ خود دھوپ میں جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
یہ سوچ کے والدین کی خدمت میں لگا رہا
اس پیڑ کا سایہ میرے بچوں کو ملے گا
گھر کی ایک بار مکمل تلاشی لی تھی میں نے
غم چھپا کر میرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے
باپ کو تھکنے نہیں دیتا ضرورت کا پہاڑ
باپ کو بچے کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتے
باپ ہے تو روٹی ہے کپڑا ہے مکان ہے
باپ ننھے سے پرندے کا بڑا آسمان ہے
باپ سے ماں کی چُوڑی ۔ بِندیا اور مان ہے
باپ ہے تو گھر ہے اور گھرانے کا سامان ہے
باپ ہے تو بچوں کے سارے سَپنے اپنے ہیں
باپ ہے تو بازار کے سارے کھلونے اپنے ہیں
باپ ہے تو نہ کسی کو فکر نہ کوئی پریشان ہے
باپ کے سہارے ہی گھر میں امن و امان ہے
سایہ دار درخت
Leave a reply