پڑھائی اور تعلیم
آجکل سکولوں میں صرف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں تعلیم کا کہیں نام نہیں ۔ میں اپنے آپ کو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ سکول و کالج میں ہمارے اساتذہ نے ہمیں تعلیم دی تھی یعنی پڑھایا ۔ سکھایا اور تربیت دی ۔ الله میرے اساتذہ کو جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ میں آئے دن اُن کی ہوئی نصیحتوں مین سے کوئی نہ کوئی یاد آتی ہے
میں نویں جماعت میں تھا جب میرے 2 ہمجماعت سکول سے چھُٹی کے بعد آپس میں لڑ پڑے ۔ دوسرے دن صبح ہمارے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر شیخ ھدایت الله صاحب کلاس میں آئے ۔ اُن دونوں کو کھڑا کیا اور لڑنے کی وجہ پوچھی ۔ اُن میں سے ایک بابا کہہ رہا تھا ” الله کی قسم“۔ اور دوسرا بار بار کہتا تھا ”میں سچ کہتا ہوں“۔ سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب لڑکوں کو مخاطب کر کے کہا
”سچا آدمی الله کی قسم نہیں اُٹھاتا کیونکہ وہ اِسے بہت بڑا وزن سمجھتا ہے اور سچ بولنے والے کو اپنے منہ سے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ سچ ہو یا جھُوٹ کبھی چھُپتا نہیں“۔
اس کی موجودہ حکمرانوں سے مماثلت اتفاقیہ ہو گی
میری بیٹی عایشہ سے آپ واقف ہیں ابھی اس نے مجھے اپنی ٹیچنگ فلاسفی کا مقالہ پڑھنے کو دیا میں بہت خوش ہوا اسے پڑھ کر کہ اس میں یہی بتایا گیا ہے عرصہ ہوا میں نے ایک بلاگ استادوں کے طلباء پر اثرات پر لکھتے ہوئے اپنی مثال دی تھی
میرے آٹھویں جماعت کے استاد مولوی احمد دین تھے اللہ انھیں جنت میں اعلےا مقام عطا فرماءے
انھوں نے ہمیں نماز کے بعد کے وظیفے اور بہت سے دعاءیں ےاد کروایں ان کے گاوں میں ہم سب لڑکے دن رات کی پڑھائی کے لیے ویک اینڈ پر جاتے ان ایک باغ تھا اس میں کںواں تھا صبح فجر کے واقت سب لڑکوں کو اٹھاتے ہندو سکھ لڑکے کوئیں سے پانی نکالنے کا کام کرتے تاکہ مسلمان لڑکے وضو کریں
اٹحنے بیٹھنے کے آداب ان کے اور ہمارے ہیڈ ماسٹر قریشی صاحب کا کام تھا تمیز سکھانا وغیرہ