بہت پرانی بات ہے کچھ بزرگ بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ۔ ایک بزرگ جو برمحل اور سچی بات کہنے میں معروف تھے بولے “ہماری قوم کا تو یہ حال ہے کہ کسی نے کہا کُتا کان لے گیا اور کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا ۔ دیکھا ہی نہیں کہ ہے یا نہیں”۔ اللہ اُنہیں جنت نصیب کرے مجھے اُن کی یہ بات کل پھر یاد آئی جب ساری دنیا کُتے کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور کوئی سوچ نہیں رہا تھا کہ کُتا کان لے بھی گیا ہے یا نہیں ۔
کل کے غُوغا کا شاید فائدہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود کاروائی کا اعلان کر دیا ۔ ویسے اگر ثمر من اللہ واقعی ثمر مِن اللہ ہوتی تو متعلقہ وڈیو چیف جسٹس کے نام اپنی درخواست کے ساتھ لگا کر عدالتِ عُظمٰی کے رجسٹرار کے پاس جمع کروا دیتیں پھر بھی یہی کچھ ہوتا اور اُن کی مشہوری بھی ہو جاتی البتہ ایک غیر مُلکی طاقت کا ایجنڈا ادھورا رہ جاتا ۔ اب کچھ سُنیئے اُن کی زبانی جن کے ذرائع ابلاغ نے اس وڈیو اُچھالا
مقامی افراد کے مطابق 17 سالہ اس شادی شدہ خاتون کو بدکاری کے الزام میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور یہ واقعہ 6 ماہ پہلے کبل کے علاقے کالا کلے میں پیش آیا۔ ویڈیو میں خاتون کو تین افراد نے پکڑ رکھا تھا۔ ذرائع کے مطابق سر کی طرف بیٹھا ہوا شخص خاتون کا چھوٹا بھائی ہے
صوبہ سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ اگرچہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے تاہم اس پرانے واقعے کی ویڈیو کا منظر عام پر آنا ایک این جی او کی رُکن ثمر من اللہ کی سازش ہے، جس کا بھائی مشرف کابینہ میں وزیر تھا اور یہ لوگ امن معاہدہ سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان حاجی مسلم خان نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ہمیں سزا کے طریقہ کار پر اختلاف ہے تاہم یہ سزا ہمارے کارکنوں نے ناجائز تعلقات کا اقرار جرم کرنے کے بعد مجرموں کو دی
مولانا صوفی محمد کے ترجمان امیر عزت خان نے کہا ہے کہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو سوات امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایک منظم مہم کا حصہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو کو طالبان کیساتھ منسوب کرنا درست نہیں، یہ ویڈیو سوات کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام معاشرے میں نفرت پھیلانے والے عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے
چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ 6 اپریل کو لارجر بنچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے اس سلسلے میں 8 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیدیا جسکی سربراہی وہ خود کرینگے۔ چیف جسٹس نے 6 اپریل کو سرحد کے آئی جی، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری داخلہ کو بھی عدالت میں طلب کیا ہے اور سیکرٹری داخلہ کو متاثرہ لڑکی کو بھی 6 اپریل کو پیش کرنیکی ہدایت کی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے جیو ٹی وی کو حکم دیا ہے کہ وہ واقعہ کی سی ڈی پیش کریں جبکہ جیو اور دیگر ٹی وی چینلز مشترکہ طور پر ویڈیو مواد ترتیب دیکر سماعت کے دوران عدالت میں دکھانے کا انتظام کریں
میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے
میں تو یہی کہوں گا کہ تمام پاکستانی با عمل مسلمانوں کو سوات منتقل ہو جانا چاہیے تا کہ با برکت شریعت سے براہ راست فیض یاب ہو سکیں، اور وہاں بیٹھ کر بلاگ لکھ کر باقی بے عمل مسلمانوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں ۔
جہانزیب صاحب
آپ کا لطیفہ میری سمجھ میں نہیں آیا
آپ غلط سمجھ رہے ہیں، لطیفہ نہیں سنایا تھا، میں نے طنز کیا تھا اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آپ کو اس کی سمجھ بھی آ گئی ہے ۔
آپ اس واقع کی کھل کر مذمت کرتے ہیں یا نہیں یہ بات واضح نہیں۔ صرف یہ کہ دینا کہ اس کو اچھالا جا رہا ہے اس کو کوئی صحیح قدم نہیں بنا سکتا یہ ایک جنونیت ہے جو کسی طرح بھی جسٹیفائی نہیں کی جاسکتی۔۔بھلے آج ہوئی ہو یا سال پہلے اس میں مسلمان شدت پسند ملوث ہیں اور اسکو نہ ماننا اپنا ہی نقصان ہے۔۔ویسے ہم یہود وھنود پر بھی ڈال سکتے ہیں ہمیشہ کی طرح
جہانزیب صاحب
آپ کا پہلا تبصرہ عام فہم نہیں ہے میں نے اسی لئے وضاحت چاہی تھی ۔ کیونکہ اسے مجھ پر طنز سمجھے جانے کا زیادہ احتمال ہے جس کی میں آپ سے توقع نہیں رکھتا ۔ دوسرا مطلب جو اس کا ہے اگر وہ عام قاریوں کی سمجھ میں آ جائے تو وہ قرآں شریف کو ہی غور سے کیوں نہ پڑھنا شروع کر دیں
احمد صاحب
جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اگر اسے درست مان لیا جائے تو کوڑے مارنے کا عمل غلط تھا لیکن ہمارے پاس کیا ثبوت ہے کہ جو ذرائع ابلاغ پر کہا جا رہا ہے وہ درست ہے ؟ دوسری طرف اگر یہ جرم ہے اور اسے مشتہر کرنے والے مسلمان ہیں تو وہ سب کناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ درست طریقہ انصاف مہیا کرنے والوں کو مع ثبوت کے درخواست دینا تھا ۔ اشتہاربازی کا یہ عمل غیبت کے زمرے میں بھی آتا ہے جسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے ۔ اگر کسی میں برائی ہو یا اس نے برا کام کیا ہو اور اس کی عدم موجودگی میں کسی اور سے اس کا ذکر کیا جائے تو وہ غیبت ہوتی ہے اور اگر اس میں وہ برائی نہ ہو اور اس کا ذکر کیا جائے تو وہ بہتان ہوتا ہے جو کہ غیبت سے بڑا گناہ ہے ۔ اگر ایسا اپنے کسی خاص مقصد کیلئے کیا جا رہا ہے تو یہ منافقت کے زمرے میں آتا ہے
بدکاری کے الزام کی یہ سزا جاری کرنے کا اختیار ان لوگوں کو کس نے دیا ہے؟ واقعی میں جہانزیب سے متفق ہوں اگر اسلام کا ایسا سنہرا نظام نافذ کیا جارہا ہے تو یقینا تمام باعمل مسلمانوں کو سوات منتقل ہوجانا چاہئے۔ ان تشدد پسند طالبان کے حمایتی خود توسوات سے دور مزے سے بیٹھے ہیں اور غریب عورتوں کے مردوں کے ہاتھوں پٹنے کو شریعت قرار دے رہے ہیں۔ انتہائی شرم کا مقام ہے۔
کس کو دعوی ہے پارسائی کا!
پہلا پتھر وہ مارے۔
ویسے خاتون کو کوڑے مارنے کا سن رہے ہیں لیکن “ملزم مرد” کا کہیں ذکر نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟
کتنے عینی شاہد گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے زنا کے مقدمہ میں؟
اگر اسلام نافذ کرنا ہے تو تمام مسالک کے علماء کرام اس کے لیے مل کر کیوں نہیں بیٹھتے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ یہ اسلام کا نفاذ نہیں ایک مخصوص سوچ کا نفاذ ہے اور یہ وہی مخصوص سوچ ہے جو مزارات کو منہدم کرنا چاہتی ہے اور تحریک وہابیت کا تسلسل ہے۔
اسلام + فرقہ = صفر
میری نظر میں یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ دیکھئے:
سوات ویڈیوکے بعد خانہ جنگی کتنی دور؟
نعمان یعقوب صاحب
جو اُن لوگوں نے کیا وہ غلط تھا کہ درست اور اُن کو کیا حق ہے اور کیا نہیں اس کا فیصلہ آپ یا میں نے نہیں کرنا بلکہ مُلک کی عدالت نے کرنا ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے 8 جج صاحبان پیر 6 اپریل سے اس پر کاروئی شروع کر رہے ہیں ۔
کیا آپ وثوق سے بتا سکتے ہیں کہ یہ واقعہ کس گاؤں یا قصبہ میں ہوا ؟ جس لڑکی کو سزا دی گئی وہ کون تھی ؟ سزا کیوں دی گئی ؟
میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ نہیں جانتے کیونکہ ابھی تک کسی کو بھی حقیقت معلوم نہیں
اگر کسی عمل کی تاریخ اور حقائق کا علم نہ ہو تو اُس کا مطالعہ کرنا چاہیئے اور مطالعہ کی سکت نہ ہو تو خاموشی ہزار نعمت ہے
دیگر قرآن شریف کی کونسی آیت یا کونسی حدیث کے مطابق آپ باعمل مسلمانوں کو اُس علاقہ میں محصور کرنا چاہتے ہیں ؟ اور اس فیصلہ کا حق آپ کو کس نے دیا ہے ؟
الف نظامی صاحب
آپ دین کا علم رکھتے ہیں اسلئے اُمید کرتا ہوں کہ مجھ جیسے دو جماعت پاس طالب علم کی معروضات ناگوار نہیں گذریں گی
ابھی اس وڈیو کی اصل حقیقت بھی کسی کو معلوم نہیں ۔ اسلئے نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا ؟
عینی شاہد چار سچے مسلمان ہونا چاہئیں جب خاوند یا گھر کا متعلقہ فرد عورت پر الزام عائد کرے ۔ اس میں بھی مرد اگر گواہ نہ لا سکے تو چار بار قرآن شریف میں مرقوم قسم کھا کر بیان دہرائے تو حد قائم ہو گی لیکن اگر عورت وہی قسم چار بار دہرا کر انکار کر دے تو اس پر ہد قائم نہیں ہو گی ۔ اگر رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں یا خود گناہ کا اقرار کر لیں تو کسی اور گواہ کی ضرورت نہیں ۔ مزید کیلئے كرآن شریف اور متعلقہ حدیث مبارکہ کا مطالعہ کیجئے
آپ نے علمائے کرام کے مل بیٹھنے کی بات کی ہے ۔ یہاں تو سمجھ نہیں آ رہی کہ عالمِ دین ہے کون ؟
کئی عالمِ دین دن دہاڑے گولی مار کر شہید کئے گئے ۔ سامزئی ۔ غلام مرتضٰے ملک وغیرہ ۔ ایک کو پونے دو سال میں جھوٹے مقدمہ میں قید میں ڈالا ہوا ہے ۔ کسی کو ان کیلئے انسانی حقوق یاد نہیں ۔ کوئی ان کیلئے جلوس نہیں نکالتا
آپ نے ایک نیا مسئلہ چھیڑ دیا اور غلط جگہ پر ۔ آپ ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی کر ایک ہاتھ اپنے دل پر اور دوسرا اپنے منہ پر رکھ لیجئے اور پھر پڑھیئے ۔ میں مسلمان ہوں اپنے اللہ کا غلام اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شیدائی اور پیروکار ہوں فقہ حنفی کا مگر مالکی ۔ شافعی اور حنبلی فق کو بھی غلط نہیں کہتا ۔ میں کسی وہابی ۔ بریلوی وغیرہ کو نہیں مانتا
آپ کا لکھا فارمولہ الجبراء کے لحاظ سے درست نہیں ۔ درست اس طرح ہو سکتا ہے
اسلام ضرب فرقہ = صفر
افتخار اجمل صاحب میرے سوالوں کے جوابات عطا کرنے کا شکریہ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس خاتون کو مندرجہ بالا قوائد و ضوابط کو ذہن میں رکھتے ہوئے سزا دی گئی ہے؟
چار گواہوں کے نام کیا ہیں؟
جن لوگوں نے حد قائم کی وہ اس کی وضاحت کیوںنہیں کر دیتے؟
یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی قانون بازیچہ اطفال نہیں۔
والسلام مع الاکرام
اس بات پر سنجیدگی سے سوچیے گا:
تمام مسالک کے سنجیدہ علمی شخصیات مل کر کیوں نہیں بیٹھتیں اور وہ کیوں اپنے فرقہ کے خول میں بند ہیں اور نفاذ اسلام کے وقیع کام کو لونڈوں کے سپرد کر رکھا ہے۔
والسلام مع الاکرام
الف نظامی صاحب
خرابی علماء میں کم اور عوام میں زیادہ ہے ۔ میں پچھلی چھ دہائیوں سے اس موضوع کا مطالعہ اور مشاہدہ کر رہا ہوں اور کئی مثالیں ہیں کہ مولوی یا اُستاذ نے کچھ کہا اور مقتدی یا طالب علم نے کچھ اور بنا لیا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر عوام خطیب کی غلط بات ماننے سے انکار کر دیں تو اگلی بار خطیب غلط بات کہنے سے ڈرے گا ۔ عوام کا یہ حال ہے کہ اپنی اغراض کی خاطر غلط بات کہلواتے ہیں ۔
میں نے سولہ سال کی عمر میں راولپنڈی کے بہت مشہور خطیب کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی جس نے واعظ میں اپنے مسلک کے خلاف بات کرنے والوں کو کافر کہا تھا ۔ نہ صرف یہ ہم تین لڑکے اُن کے پاس گئے اور ان کے اُس جملے کا جواز قرآن و حدیث کی روشنی میں مانگا اور وہ کوئی جواب نہ دے سکے ۔
میرا یقین ہے کہ اگر مقتدیوں کی کافی تعداد ایسا کرنے لگے تو ایسے خطیب اپنی زبان کو لگام دیں گے
افتخار اجمل صاحب شاید آپ میں بات صحیح نہیں سمجھے دوبارہ لکھ رہا ہوں۔ واوین میں لکھے ہوئے الفاظ پر غور کیجیے گا۔
“تمام مسالک کے سنجیدہ علمی شخصیات “مل کر کیوں نہیں بیٹھتیں” اور وہ کیوں اپنے فرقہ کے خول میں بند ہیں اور نفاذ اسلام کے وقیع کام کو لونڈوں کے سپرد کر رکھا ہے”
عموما ہم مشرق و مغرب میں مکالمے کی بات کرتے ہیں ،
مابین المسالک مکالمہ و معانقہ کی بات کیوں نہیں کرتے۔
اسلام کی معاشی معاشرتی ثقافتی و دیگر جہتوں کے نفاذ کا کام “اجتماعیت مانگتا ہے”۔
الف نظامی صاحب
جہاں تک تمام مسالک کے سنجیدہ عُلماء کا تعلق ہے وہ کسی وقت بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں اور ماضی میں ہوئے بھی ہیں ۔ اُن میں اب بھی اتفاق ہے ۔ مسئلہ عوام اور حکمرانوں کا ہے جو اپنی مرضی کا اسلام چاہتے ہیں ۔ جب تک عوام مادیت پرستی سے ہٹ کر انسانیت کی طرف نہیں آئیں گے کچھ نہیں ہو سکتا ۔ آپ غور کریں کہ تمام ٹی وی چینل جاوید احمد غامدی کو بطور عالمِ دین دکھاتے ہیں ۔ چند یوم قبل ٹی وی پر غامدی کا بیان تھا کہ کوڑوں کی سزا عادی مجرم کیلئے ہے اور پھر ماحول اور معاشرہ کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔ کیا غامدی کا یہ بیان قرآن و حدیث کی صریح خلاف ورزی نہیں ؟ لیکن ہماری قوم کی پڑھی لکھی اکثریت بھی اسے اونچا عالم دین مانتی ہے اور کئی مجتہد بھی کہتے ہیں
جہاں تک تمام مسالک کے سنجیدہ عُلماء کا تعلق ہے وہ کسی وقت بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت کا انتظار رہے گا۔
الف نظامی صاحب
علماء کا انتظار بعد میں کیجئے گا پہلے جو آپ کر سکتے ہیں وہ تو کیجئے ۔ ہمارے ملک میں عام رواج ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو کہتے ہے کہ وہ کرے ۔ اس طرح کوئی بھی کچھ نہیں کرتا ۔ ہاں آپ یہ تو بتائیے کہ آپ کن علماء کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ وہ درست دینی بات کریں گے ؟ آپ اُن کے نام اور ڈاک کے پتے مہیا کریجئے ۔ میں ان سب کو رجسٹرڈ خط بھیج کر درخواست بیج دوں گا
انسان کس قدر بے حس ہوسکتا ہے کہ سترہ سالہ لڑکی کی فلمائی گئی چیخیں تواسے سنائی دیں اس پر یوم مذمت اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریلیاں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میڈیا۔۔۔۔سول سوسائٹی کا کچھ حصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نام نہاد این جی اوز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خوب اچھالا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔جامعہ حفصہ کی معصوم حافظ قرآن سترہ سو سے زائدخواتین کی چیخیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
لعنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سترہ سالہ لڑکی کی فلمائی گئی چیخوں کے حساس پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے محسوس کرنے والوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکی کو کوڑے لگنے کے غیر مصدقہ اور جعلی واقعے پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ۔۔۔۔حیران کن بات ہے کہ اتنے کوڑے کھا کر وہ لڑکی اپنے پاوں پر کھڑی ہوئی۔۔۔۔اور نہ صرف کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ چلنے بھی لگی۔۔۔۔۔) لیکن حالیہ ڈرون حملوں میں سینکڑوں عورتیں اور بچے جان بحق ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ حوا کی بیٹیاں نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جامعہ حفصہ کی پاکباز بچیوں کو سلام۔
شاید یہ نحوست اور عذاب جو آج ہم پر مسلط ہے انہی بچیوں کا خون بے حسی سے بہتا دیکھنے کا نتیجہ ہے۔
حکیم خالد صاحب کسی زمانے میں شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے ملی یکجہتی کونسل قائم کی تھی۔ کیا یہ اب دوبارہ قائم نہیں ہوسکتی؟ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مشترکہ کاوشیں نہیں کی جاسکتیں۔ یقین کیجیے جب تک مسلمان ایک جمعیت نہیں بنیں گے دشمن پر حاوی نہیں ہوسکتے۔
http://auraq.urdutech.com/?p=548
حکیم خالد صاحب
دعا کیجئے اپنے اور میرے لئے بھی اللہ ہمین اُس عذاب سے قبل اُٹھا لے جس کا وعدہ ہے
الف نظامی صاحب
آپ نے درست طرف توجہ کی ہے ۔ جب تک وہ مسلمان جو اللہ کا ڈر دل میں رکھتے ہیں اکٹھے نہیں ہوتے اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہوں گے ۔ کیا اس کیلئے ہمیں سیّدنا عیسٰی علیہ السلم کی واپسی کا انتظار کرنا پرے گا
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » اين جی اوز [NGOs] اور حقوقِ نسواں
لیکن جناب یہ ویڈیو تو جعلی ثابت ہوگئی ہے ۔اب آپ کیا کہیں گے۔
روزنامہ جنگ کا لنک ساتھ دیا گیا ہے ۔
http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=420993
دجالی میڈیا پر امنا وصدقنا کہنے والوں کے ساتھ بحث فضول ہے۔
اجمل صاحب آپ نے بہت عمدہ لکھا۔
حافظ منصور صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
Allah hedayatbin ko.