مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع بن محمد ياسین عثمانی دیوبندی (25 جنوری 1897ء تا 06اکتوبر 1976ء) صاحب کا ووٹ کے بارے میں تاریخی فتوی
جس اُمیدوار کو آپ ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریئے عِلم و عمل اور دیانتداری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں
1 ۔ آپ کا ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدمات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی ۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے
2 ۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے اسکا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے ۔ ثواب و عذاب بھی محدود ۔ قومی و مُلکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی اس کا ادنٰی نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے ۔ اس لئے اس کا ثواب یا عذاب بھی بڑا ہے
3 ۔ سچی شہادت کا چھپانا اَز رُوئے قرآن حرام ہے اس لئے اگر آپ کے حلقے میں صحیح نظریہ کا حامل کوئی دیانتدار اُمیدوار کھڑا ہے تو اس کو ووٹ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے
4 ۔ جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے
5 ۔ ووٹ کو پَیسوں کے عِوَض بیچ دینا بدترین قسم کی رِشوت ہے اور چند ٹَکوں کی خاطر اِسلام اور مُلک سے بغاوت ہے ۔ دوسروں کی دُنیا سنوارنے کے لئے اپنا دِین قُربان کر دینا چاہے کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسروں کی دنیا کے لئے اپنا دین کھو بیٹھے
(جواھر الفقہ ۔ جلد نمبر 2 ۔ صفحہ 300 و 301 ۔ مکتبہ دارالعلوم ۔ کراچی)
اور اگر کوئی اس معیار پر سو فیصد پورا نہ اترتا دکھائی دے تو کیا کریں؟؟
بہت سے لوگ جن نظریات کا پرچار ووٹ لینے کے لیے کرتے ہیں جیت جانے کے بعد ان سے پھر جائیں تو؟؟
کسی کے کہنے کے مطابق
ووٹ یا بیعت ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی صاحب کا ارشاد کہ ووت نہ دینا تو شہادت چھپانا اور گناہ ہے اور کسی نیک امیدوار کی غیر موجودگی میں تمام بروں میں کم برائی کے حق میں شہادت دو۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ایک غیر مناسب منطق ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کیونکر ہوگا کہ کون زیادہ برا ہے اور کون کم؟ جس کو ہم کم برا سمجھ رہے ہوں وہی زیادہ خبیث نکلا تو اس کی بد اعمالیوں کا ذمّہ دار کیا ووٹر نہیں ہوگا؟
وہ سسٹم جس میں کوئی خود بڑھ کر عہدے کا امّید وار اور طلبگار ہو اور خواہ وہ کوئی پارساعالم ہی کیوں نہ ہو بھلا کیسے اسلامی ہو سکتا ہے؟
موجودہ سسٹم اسی وقت اسلامی ہوسکتا ہے جب براہ راست امیر یا خلیفہ یا صدر کا انتخاب ہو۔ موجودہ نام نہاد جمہوری سسٹم اپنی ہیئت کے اعتبار سے ایک دھوکہ ہے جو عوام کھاتے ہیں ۔ پاکستان میں کبھی بھی اکثریت کی خواہش پرحکومت نہیں بنی کیونکہ تمام عوام نے کبھی ووٹ ہی نہیں دیا۔ پہلے ایسا سسٹم بنائیں جو اسلامی ہو جس میں ہر ووٹر کی رائے اپنا اثر رکھے پھر قانوناً ہر شخص کو پابند کریں کہ ووٹ دے۔ دھاندلی کے تدارک کے لیئے نادرا کے ذریعے شفّاف کمپیوٹرائزڈ ووٹنگ ہو۔
اگر رائج الوقت انتخابی سسٹم بیعت کا نعم البدل گردانا جاتا ہے تو اس حوالے سے ووٹ نہ دینا ہی اپنی عاقبت کو مزید خراب ہونے سے بچانا ہے۔
کیا کسی خائن ، جھوٹے، اخلاقی برائیوں مین ملوّث اور مفاد پرست کے ہاتھ پر اس بنیاد پربیعت کرنا لازم ہے کہ اس میں دوسروں سے کم برائی ہے ؟
ذرا سوچیں !
سیما آفتاب صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاۃ
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ اس سوچ پر کہ کون وقت ضائع کرے یا یہ کہ کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا ووٹ دینے ہی نہیں جاتے ۔ زیادہ سے زیادہ 40 فیصد لوگ ووٹ دینے جاتے ہیں
جو ووٹ دینے جاتے ہیں اُن میں سے کم از کم 80 فیصد کسی ذاتی غرض کی بنا پر ووٹ دیتے ہیں
اگر لوگوں کے دل میں ملک یا قوم کی محبت ہو تو وہ اپنے حلقہ کے ہر اُمیدوار کے ماضی کا جائزہ لیں کہ کون سے کام اس نے نیک اور کون سے بُرے کئے تھے پھر اُن میں سے سب سے بہتر کو ووٹ دے دے تو معاشرے میں سدھار پیدا ہونا شروع ہو جائے گا بشرطیکہ یکے بعد دیگرے چار پانچ الیکشن پانچ پانچ سال بعد آزادانہ ماحول میں ہوتے رہیں ۔ ایسے نہیں جیسے پچھلے 2 سالوں سے ہو رہا ہے
اس سلسلہ میں آپ بہت کچھ جانتی ہوں گی ۔ ذرا یہ 3 مضامین بھی پڑھ لیجئے ۔ پہلا مضمون ایک ماہر قانون دان نے لکھا ہے
https://jang.com.pk/news/520585
https://jang.com.pk/news/521516
https://jang.com.pk/news/521520