ایک سکیورٹی گارڈ فیصل آباد کے ایک بس ٹرمینل میں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بس سروس میں بطور میزبان ملازمت کرنے والی ایک لڑکی کو روکتا ہے ۔ دونوں میں چند لمحوں کے لئے تکرار ہوتی ہے ۔ سکیورٹی گارڈ لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لڑکی اپنا ہاتھ چھڑواتی ہے ۔ جواب میں گارڈ اپنی بندوق سے اس پر فائر کرتا ہے ۔ لڑکی گر جاتی ہے ۔ چند ثانیوں کے لئے بے بسی سے تڑپتی ہے اور پھر وہیں سیڑھیوں پر مر جاتی ہے
یہ اٹھارہ سالہ لڑکی جو اپنے گھر کی واحد کفیل تھی ۔ ایک بھرے پُرے بس ٹرمینل پر ہلاک کر دی گئی ۔ قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نوکری کرنے نکلی تھی ۔ مجبور ی یہ تھی وہ باعزت نوکری کرنا چاہتی ۔ نہ جانے کتنی مشکل سے اُس نے یہ معمولی نوکری حاصل کی ہو گی ۔ اُسے کیا معلوم تھا کہ سکیورٹی گارڈ جسے وہ محافظ سمجھتی تھی وہ کس قماش کا آدمی ہے
آج کے دَور میں ہماری ذہنی حالت یہ ہو چُکی ہے کہ اوّل ہم لڑکی کو کسی لحاظ سے قصور وار ٹھہرا دیں گے ۔ اگر یہ نہ کیا تو بھارت (جن کے دھرم میں بھی عورت صرف ایک لونڈی کی حیثیت رکھتی ہے) وہاں کے اعداد و شُمار گِنوا کر اِسے معمولی واقعہ قرار دے دیں گے ۔ یہ بھی نہ کریں تو ہم شور کریں گے ۔ کمپنی والوں کو گالیاں دیں گے ۔ توڑ پھوڑ کریں گے
ٹی وی اور اخبار کا روّیہ تو ہر معاملہ میں یکساں ہے ۔ چند دِن شور بپا ہو گا پھر خبر غائب
بڑے بڑے دانشور ۔ عورت کی ناموس کے نام پر چلنے والی بڑی بڑی تنظیموں کو تو نہ کسی غریب کی بے حُرمتی نظر آتی ہے نہ موت ۔ جب اُنہیں چندے یا مشہوری کی ضرورت ہوتی ہے تو معاملہ خواہ بے نام ہو پکڑ کر واویلہ شروع کر دیتے ہیں ۔ ہاں اگر کوئی عیسائی قانون کی زد میں آ جائے یا کسی حادثہ میں مر جائے تو اُسے مظلوم کہہ کر اپنے سرپرست مُلک کو خوش کرنے یا مالی امداد حاصل کرنے کیلئے طوفان مچا دیں گے
غرضیکہ ہم اب اپنے اسلاف کے قصے کہانیاں سنانے والے مُسلمان بن چکے ہیں ۔ ہم یہ حوالہ بھی دیتے ہیں کہ جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو وہاں کے دانشور مباحث میں مشغول تھے ۔ ہم تاریخ میں بڑے فخر سے پڑھتے ہیں کہ محمد بن قاسم صرف ایک عورت کی فریاد سُن کر دیبل پر حملہ آور ہو گیا ۔ لیکن خود جب کسی غریب پر ظُلم ہوتا دیکھتے ہیں تو تمسخر اُڑانا یا وِڈیو بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں
ایک اور طریقہ بھی ہے کہ ایسی خبر کو نظر انداز کر دیں یعنی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں
ہم اس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں مُلک کی بہترین جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والا نوجوان اپنی ماں کی عمر کے برابر خاتون کے بارے میں (جسے چند گھنٹوں کے لئے اغوا کیا گیا تھا) ٹوِیٹ کرتا ہے ”اس عورت کے لئے جنسی تشدّد ہی بہترین علاج ہے“۔
ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے کے پڑھے لکھے جوان ایک بوڑھی بیمار ماں کی بیماری کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ سفاکانہ طعنے دیتے ہیں اور پھَبتیاں کستے ہیں
یہ درندگی دو دہائیاں پہلے تک تو نہ تھی ۔ جانے کس نے ہمارے معاشرے میں یہ زہرِ قاتل پھیلا دیا اور ہم امرت سمجھ کر پیتے چلے گئے
پھر بھی ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا کلچر بہت خوبصورت ہے ۔ ہم نجانے کس غلط فہمی میں مُبتلاء ہیں ۔ ہمیں بالکل احساس نہیں ہے کہ نفرت اور زہر کے جو بِیج ہم نے اپنے معاشرے میں بو دیئے ہیں اس کے ثمرات ہم نے اور ہماری آئیندہ نسلوں نے سمیٹنے ہیں ۔ ہم تو اُن لوگوں کی اولاد ہیں جن کے پاس کوئی دُشمن بھی پناہ لے لے تو وہ اُس کے محافظ بن جاتے تھے
ہماری اِس بے حِسی کا سبب صرف ایک ہے کہ ہم غور و فکر سے عاری ہو چُکے ہیں ۔ قرآن شریف کی بجائے الیکٹرانک میڈیا (بشمول سوشل میڈیا) ہمارا رہبر بن چُکا ہے ۔ حالانکہ قرآن شریف میں کم از کم 8 بار اللہ نے فرمایا ہے ” تم غور کیوں نہیں کرتے“۔
سورت 6 الانعام آیت 50
سورت 10 یونس آیت 3
سورت 11 ھود آیت 30
سورت 11 ھود آیت 24
سورت 16 النّحل آیت 17
سورت 23 المؤمنون آیت 85
سورت 37 الصّٰفّٰت آیت 155
سورت 45 الجاثیہ آیت 23
واقعی بہت افسوس ہوتا ہے یہ سب دیکھ کر کہ کس ڈگر پر چل رہے ہیں ۔۔ ساری اخلاقیات بھول چکے ہیں بلکہ صرف اخلاقیات کے بھاشن رہ گئے ہیں وہ بھی صرف دوسروں کے لیے اپنے لیے سب جائز سمجھ لیا ہے ۔۔۔ اللہ ہی رحم فرمائے ہم پر ورنہ تو اللہ کے غضب کو دعوت دینے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے