میں آج 2007ء کی تحریر دہرانے پر مجبور ہوا ہوں
اِسے جہالت کہا جائے ہَڈدھرمی کہا جائے یا معاندانہ پروپیگینڈا ؟ میں پچھلے 15 یا 16 سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ملکی اخباروں میں جب بھی قبلۂِ اوّل یعنی مسجدالاقصٰی کی خبر کے ساتھ تصویر چھاپی جاتی ہے تو وہ مسجد الاقصٰی کی نہیں ہوتی بلکہ قبة الصخراء کی ہوتی ہے ۔ قبة الصخراء کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کا بیت المقدس یا القدس سے اصل لگاؤ مسجدالاقصٰی کی وجہ سے ہے جو کہ قبله اوّل تھا اور تو اور جماعتِ اِسلامی جو دین اِسلام کی علَم بردار ہے اور جس میں پڑھے لکھے لوگوں کی کافی تعداد شامِل ہے نے پچھلے دِنوں بیت المقدس کے سلسہ میں احتجاج کیا تو اِس میں جو جھنڈے اُٹھا رکھے تھے اُن پر قبة الصخراء کی تصویر تھی
میں نے 2006ء میں The News اور Dawn جن میں مسجدالاقصٰی کے حوالے سے قبة الصخراء کی تصویر چھپی تھی کے مدیروں کو خطوط لکھے اور ساتھ دونوں مساجد کی تصاویر بھیجیں کہ وہ تصحیح کریں لیں ۔ نہ تو تصحیح کی گئی نہ مستقبل میں اس پر کوئی عمل ہوا اور نہ ہی میرے خطوط مدیر کی ڈاک میں شامل کئے گئے ۔ کچھ عرصہ بعد پھر اخبار میں جب مسجد الاقصٰی کا ذکر آیا تو ساتھ تصویر قبة الصخراء کی چھپی ۔
میں نے اپنے ملک میں کئی گھروں میں قبة الصخراء کی تصویر یا ماڈل رکھا ہوا دیکھا جسے وہ مسجدالاقصٰی بتاتے تھے ۔ یہی نہیں میں نے قبة الصخراء کے پلاسٹک ماڈل سعودی عرب میں معمولی قیمت پر عام بِکتے دیکھے ہیں جو کہ ہند و پاکستان کے زائرین قبلہ اول یعنی مسجدالاقصٰی سمجھ کر خرید لاتے ہیں
خیال رہے کہ قبة الصخراء مسجد نہیں ہے
یہ ہے مسجد الاقصٰی کی تصویر
اور یہ ہے قبة الصخراء کی تصویر
نیچے داہنی جانب قبة الصخراء ہے اور بائیں جانب مسجد الاقصٰی ہے
کیا کریں ہم ‘چمکتی تاریخ’ کے عادی جو ہیں
واقعی میں مسجد کی طرف تو کوئی توجہ نہیں کرتا
Pingback: مسجد اقصٰی اور قبة الصخراء | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I | ღ کچھ دل سے ღ
سیما آفتاب صاحبہ
اساتذہ نے تو پڑھایا تھا
سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سُرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا
لیکن ہم چمک کے پیچھے لگ گئے
کیا خوب شعر ہے 👍
جی ایسا ہی ہے