ستمبر 1965ء میں صوفی تبسم صاحب کی لکھی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی یہ نظم مجھے بہت کچھ یاد دلاتی ہے
تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے بھارت نے 6 ستمبر 1965ء کو آدھی رات کے بعد پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا
صبح صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان کی ریڈیو پر تقریر “پاکستان کے جوان جن کے لبوں پر کلمہ لا الہ الاللہ کا ورد ہے اپنے ملک کی حفاظت کیلئے سرحدوں کی طرف روانہ ہو چُکے ہیں”۔
پاکستانی قوم کا مثالی اتحاد ۔ یگانگت اور جذبہءِ حُب الوطنی
پاکستان آرڈننس فیکٹری میں دن رات کام ۔ میری فیکٹری کے ورکرز کا چھٹی کرنے سے انکار ۔ میرا اُن کو بار بار سمجھانا کہ”بھائیو ۔ کل بھی کام کرناہے ۔ جاؤ اور چند گھنٹے آرام کر کے واپس آؤ“۔ بڑی مُشکل سےمیں نے اُنہیں منایا تھا
کام کے دنوں میں صبح 7 بجے سے سہ پہر 5 بجے تک میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ہی ۔ شام 6 بجے سے اگلے دن صبح 7 بجے تک مجھے سب سیکٹر کمانڈر بنا دیا گیا ۔ میں 15 دن رات فیکٹری میں رہا اور روزانہ ایک وقت کا کھانا کھایا ۔ پہلے 4 دن اور 3 راتیں نہ سویا ۔ چوتھی رات کو ایک فورمین اور ایک اسِسٹنٹ فورمین نے مجھے پکڑ کر میرے دفتر میں سٹریچر پر لٹا کر باہر سے دروازہ بند کر دیا اور فجر سے پہلے کھولا
بازاروں کا یہ حال تھا کہ دودھ والے جو پانی ملاتے تھے اُنہوں نے پانی ملانا بند کر دیا ۔ جو دودھ 10 آنے سیر بیچتے تھے اُنہوں نے 8 آنے بیچنا شروع کر دیا ۔ کھانے پینے کی دوسری اشیاء بھی پہلے سے سَستی بِکنے لگیں
لاہوریئے پلاؤ کی دیگیں پکوا کر ریہڑوں پر رکھ کر واہگہ محاذ کی طرف جانے شروع ہو گئے کہ ہمارے بھائی فوجیوں نے کھانا نہیں کھایا ہو گا
میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں اور دل ہی دل میں کہتا ہوں ”یا رب ۔ میرے وہ پاکستانی بھائی کہاں چلے گئے ؟ ؟ ؟“
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے ۔ ۔ ۔ کی لَب نِیں ایں وِچ بازار کُڑے
اَے دین اے میرے داتا دی ۔ ۔ ۔ نا ایویں ٹکراں مار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
اَے پُتَر وِکاؤ چیز نئیں ۔ ۔ ۔ مُل دے کے جھولی پائیے نِیں
اَے اَیڈا سَستا مال نئیں ۔ ۔ ۔ کِتوں جا کے منگ لیا ئیے نِیں
اَے سَودا نَقَد وی نئیں مِل دا ۔ ۔ ۔ تُوں لَب دی پھِریں اُدھار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
اَے شیر بہادر غازی نیں ۔ ۔ ۔ کِسے کولوں وی ہَر دے نئیں
اَینا دُشمناں کولوں کی ڈرنا ۔ ۔ ۔ اَے مَوت کولوں وی ڈردے نئیں
اَے اپنے دیس دی عزت تَوں ۔ ۔ ۔ جان اپنی دیندے وار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
تَن بھاگ نیں اَوہناں ماواں دے ۔ ۔ ۔ جِنہاں ماواں دے اَے جائے نیں
تَن بھاگ نیں بہن بھراواں دے ۔ ۔ ۔ جِنہاں گودی وِیر کھڈائے نیں
اَے آن نیں ماناں والیَاں دی ۔ ۔ ۔ نئیں ایس دی تینوں سار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ
بلا شبہ 1965 کی جنگ کے واقعات پڑھ کر فخر محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہم ایک قوم تھے پر اب شاید ہم قوموں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور ہر قوم کو دوسری قوم سے نفرت محسوس ہوتی ہے اسی لیے اب ہم میں وہ جذبہ چاہ کر بھی نہیں آتا دکھائی دیتا۔۔ باقی باتیں تو ہم بہت بڑی بڑی کرلیتے ہیں۔
اللہ اللہ کیا یاد کرا دیا آپ نے
میں اس وقت پاکستان میں نہیں تھا مگر وہ نظمیں اور گیت اس زمانےمیں مشہور ہوئے ان سب سے واقف ہوں یہ ہٹّے والا خالص پنجابی لفظ پڑھ کر مزا آیا
صوفی تبسّم مرحوم ہمارے ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ تھے اکثر ان کو کالج جاتے دہکھا کرتے تھے میں بی ایس سی میں تھا جب وہ فارسی کے پروفیسر تھے گورنمنٹ کالج کا میرا بھی بڑا یادگار زمانہ ہے صوفی صاحب کی ایک منفرد شخصیت ہے خصوصا’ حلاقہ شاعری میں -اور میری ان کی نظموں سے محبت بعد میں شروع ہوِئ جب ٹوٹ بٹوٹ اور دوسری نظمیں پاکستان میں زبان زد عام ہو گئیں خصوصا’ سو بار چمن مہکا والی فلمی غزل
علاوہ اس کے مجھے یاد ہے ان کے ایک صاحبزادے ہمارے کامن روم میں ٹیبل ٹینس کھیلنے آیا کرتے تھے
بھائی وھاج الدین احمد صاحب ۔ اسلام علیکم و رحمہ اللہ
نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ لوگ رہے جنہوں نے ہمیں درست طور سے جینا سکھایا ۔ میرے بپچن کے زمانہ کے دو شاعر اوّل حفیظ جالندھری صاحب اور اُن کے بعد صوفی غلام مصطفٰے تبسم صاحب مجھے پسند تھے ۔ ان کے بعد تو کوئی قابلِ ذکر شاعر نظر ہی نہیں آیا ۔
رب کریم سے دعا ہے کہ آپ کو ایمان اور صحت کی سلامتی کے ساتھ لمبی عمر دیں، آپ کے بیان کردہ تجربات خون گرما دیتے ہیں۔
محمد سلیم صاحب
شکریہ ۔ اللہ جزائے خیر دے ۔ آمین