لاہور صوبہ پنجاب کا صدر مقام جسے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے شاہراہ شیر شاہ سوری کے راستے اسلام آباد سے 367 کلو میٹر اور موٹر وے کے راستے 382 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ کہاوت مشہور ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔ اس کے کچھ حصہ کی سیر کیجئے ۔ قدیم لاہور کے دروازے جو زیادہ تر توسیع کا شکار ہو چُکے ہیں
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
بادشاہی مسجد جو 1672ء سے 1674ء تک تعمیر ہوئی مغلیہ شہنشاہ عبدالمظفر محی الدین محمد اورنگ زیب نے تعمیر کرائی تھی اور 1986ء تک یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی ۔ پہلی تصویر کے پیش منظر میں مینارِ پاکستان ہے
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
شہاب الدین محمد خُرّم جس نے 8 نومبر 1627ء سے 2 اگست 1658ء تک شہنشاہ شاہ جہاں کے لقب سے ہندوستان پر حکمرانی کی ۔ اس کی دائی کا نام زیب النساء تھا جو دائی انگا کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ اس نے شاہی خاندان میں بہت عزت پائی ۔ اس کا مقبرہ بیگم پورہ (لاہور) میں شاہراہ شیر شاہ سوری کے کنارے پر ہے
مسجد وزیر خان مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے زمانہ میں 1634ء اور 1641ء کے درمیان لاہور کے دہلی دروازہ کے پاس تعمیر کی گئی
شالامار باغ 1637ء سے 1641ء تک 4 سال میں لاہور میں تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس پروجیکٹ کی منیجمنٹ شہنشاہ شاہجہاں کے ایک درباری خلیل اللہ خان نے مہندس (انجنیئر) علی مردان خان کی مدد سے کی تھی
لاہور کی ثقافت کے آئینہ دار مکانات
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
لاہور میں جدید اضافے
میٹرو بس
منارِ پاکستان انٹر چینج
دیگر انٹر چینج
کلمہ چوک انٹرچینج
بہت خوبصورت ۔ لاہور کی یاد دل میں اکثر چٹکیاں لیتی ہے بس انار کلی کا ذکر نہیں ہے اس میں مگر انٹرچینج ماشا اللہ خوب ہیں شاہ عالمی کے ساتھ اب گیٹ نہیں کہا جاتا
بھاٹی گیٹ کو اب غنڈوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ممکن ہے وہ بھی بدل گیا ہو میں تو اپنے زمانے کی بات کر رہا ہوں مگر وہاں جو تلی ہوئ مچھلیوں کی دکانیں ہیں یا تھین ان کا جواب نہیں ویسی مزیدار مچھلی کہیں اور نہیں ملی انگلینڈ کی فش اینڈ چپس میں بھلا وہ مزا کہاں