رائٹرزکے مطابق بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے دو اضلاع بانسکاناتھا اور مہسانا میں لڑکیوں اور غیرشادی شُدہ عورتوں کے موبائل فون استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔ اب اُنہیں موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ حُکام کا کہنا ہے کہ موبائل فون کی وجہ سے لڑکیاں اپنی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دے پاتیں اور لڑکیاں اور غیر شادی شُدہ عورتیں ہر قسم کی بُری صورتِ حال کا شکار ہوتی ہیں
ایسی پابندی بھارت میں پہلی بار نہیں لگائی گئی ۔ اس سے قبل مشرقی بہار میں بھی یہ پابندی لگائی جا چکی ہے ۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ موبائل فون اُن کی سماجی زندگی پر اثر انداز ہو تے ہوئے جوان عورتوں کے گھر سے بھاگ نکلنے کا ذریعہ بنتے ہیں
خیال رہے بھارت ایک بڑی اور سیکولر جمہوریت کہلاتا ہے ۔ پاکستان میں بیٹھے آزادی اور حقوقِ نسواں کے نام نہاد علمبرادر جو پاکستان اور اسلام کے خلاف بلا وجہ شور مچاتے رہتے ہیں سب اس پر خاموش بیٹھے ہیں ۔ امریکی حکومت جسے پاکستان کے دینی تشخص بالکل نہیں بھاتا وہ بھی اپنے اس پسندیدہ مُلک بھارت کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا
Pingback: لڑکیاں اور غیر شادی شُدہ خواتین ہوشیار « Jazba Radio
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام و علیکم،
جناب عالی ،
ہندوستا ن کے سیکولر ازم کی بات سن کے ہمیشہ میرا خون کھول اٹھتا ہے۔
دنیا میں اس سے بڑا ناٹک شاید ہی کوئی اور ہو۔
میرے ماں اور باپ کے نصف سے زائد رشتے دار ہندوستا ن میں ہی مقیم ہیں۔
جنہوں نے ہجرت نہیں کی اور اب وہ ہندوؤں کے ہندوستا ن میں ہیں جہاں ان کے ہر ہر عمل پہ
کڑی نگا ہ بھی ہے اور قدم قدم پہ پابندیاں بھی ۔
نوکری ، شادی ، کاروبار ان کے لئے کچھ بھی آسا ن نہیں۔
وہاں نوکری کسی صدیقی کو دیتے وقت سو بار سوچتے ہیں
گوپال ، شنکر اور چوپڑہ کو دیتے وقت لمحہ بھر نہیں سوچتے۔
کسی ایک مسلما ن کو صدر بنا دینا صرف ڈھول پیٹنا ہے ۔
لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ اچھا یا کم ازکم برا بری کا سلوک دل گر دے کا کام ہے۔
جو ہندؤکے پاس ہو تا نہیں۔
ان کے ماڈرن اور سیکولر ہونے کے صرف ڈھول ہیں وہ بھی دور کے
جو اکثر سہانے ہو تے ہیں۔
وہاں عورتوں کی حالت پاکستانی عورتوں سے زیادہ ردی ہے۔
انتہا پسندی میں دنیا کا نمبر ایک ملک بھی یہی ہے۔
نام ہمارا بد نا م ہے۔
ع: ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مُفاجات
ع: بد اچھا بدنام بُرا
نوٹ: اگر ہم دوسروں کے گھریلو معاملات میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنے گھر کے مسائل سدھارنے پر توجہ دیں تو شائدحالات میں بہتری آجائے۔
ورنہ بقول غالب : دِل کو خوش رکھنے کو خیال اچھا ہے
عبدالرؤف صاحب
میں نے کسی کے معاملات میں مداخدلت نہیں کی سوائے آپ کے معاملہ کے ۔ یہ تو ایک خبر ہے جسے میں نے اُن پاکستانیوں کی خاطر نقل کیا ہے جو بھارت کی تعریفوں میں رطب اللسان رہتے ہیں
محترم
سلامِ مسنون
آپ نے بہت فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ پڑوسی ملک کے معاشرے کی ایک خوبی کو اپنے کالم میں جگہ دی. اور ہونا بھی یہی چاہیئے کہ جہاں اچھائی ہو اس کا برملہ اظہار کیا جائے.
آپ کی بات کی تائید میں یہاں میں ایک واقعہ کا ذکر کروں گی کہ کسی ایک معرکہ سے واپسی پر ایک صحابی نے اللہ کے نبی صلعم سے دریافت فرمایا کہ دشمن نے جو نیا ہتیار استعمال کیا ہے جس سے ہم واقف نہیں تھے. وہ ہتیار جو توپ کی مانند کا تھا کیا ہم بھی اسے اپناسکتے ہیں. اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا ہاں ہم بھی اسے استعمال کریں گے. اس سے یہ استدلال نکلا کہ اچھی چیز اچھی بات جہاں سے بھی ملے اسے قبول کیا جائے، یہ نہ سوچا جائے کہ کرنے کہنے والا کون اور کیا ہے. موبائل کی اچھائی و برائی سے سب واقف ہیں. ایک غیر مسلم قوم ہوتے ہوئے ان کا غیر مسلم معاشرہ اپنی نسل کے لیئے موبائل کے بےجا استعمال کو زہرے قاتل سمجھتے ہوئے اس پر پابندی لگاتا ہے. جبکہ اس پابندی لگانے کے ہم زیادہ حقدار ہیں کہ اپنی نسل کو ان خرابیوں و برائیوں سے دور رکھیں. ہم کوئی بند باندھ نہ پائے اور ہمارا پڑوسی ہم سے بازی لے گیا. کتنی شرم کی بات ہے ہمارے لیئے.
محترم بینا صاحب یا صاحبہ نے ایک غیر معقول تبصرہ فرمایا ہے. وہ سب کچھ صحیح نہیں جو انھوں نے پیش فرمایا ہے. ایک مسلم ہی کیا سب ہی اس کا شکار ہیں. اونچ نیچ ہر جگہ ہوتی ہے. معزرت کے ساتھ عرض ہے بالفرض کسی جگہ ایک آسامی خالی ہے اور وہاں کا افسر کوئ مہاجر ہو. اس خالی آسامی کے لیئے ایک غیر مہاجر موضوں ترین شخص ہے. اس کا تقرر نہ فرما کر افسر صاحب ایک ادنیٰ درجہ کے مہاجر کا تقرر فرما دیتے ہیں. تو کیا یہ انصاف ہوا. ایک مہاجر ہی کیا آپ کے ہاں کی ہر برادری یہی کرتی ہے. یہی چیز پڑوسی ملک انجام دے تو مورودِ الزام اور ہم خود اسی پر عمل پیرا ہوں تو ہمارے لیئے سب کچھ جائز. امریکہ کو کہتے نہیں تھکتے کہ ڈبل اسٹینڈرڈ اپناتا ہے. آپ بھی تو خود ڈبل اسینڈرڈ اپناتے ہیں اپنوں کے ساتھ. اپنے لیئے حلوہ دوسروں کے لیئے تھو تھو. !
ازراہِ مزاح بینا صاحب/صاحبہ کے آخری بند جس میں Smiley لگی ہے پر عرض ہےــــ آپ لوگ سُدھر جائیں تو انشااللہ اڑوس پڑوس سب سدھر جائیں گے.
نازنین خان
بالکل ٹھیک ۔۔۔ یہ بھی تو بنیادی انسانی حق ( اظہار رائے) پر قد غن لگانا ہوا
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام و علیکم ،
میرا اصول ہے کہ میں کسی بھی بلا گ پر صرف اور صرف ایڈ من سے مخاطب ہو تی ہوں
اور کسی دوسرے ممبر سے برا ہ را ست بحث میں نہیں الجھتی۔
مگر کسی کو یہ حق حا صل نہیں کہ میری پوسٹ کو غٰیر معقول کہے اور اپنی پوسٹ کو
معقول۔
جبکہ میری پوسٹ میں تمام تر استدلا ل موجود ہے ۔
میرے پاس وہ خطوط موجود ہیں جو میرے ماں باپ کو انڈیا سے ان کے رشتے داروں
نے بھیجے اور جو انڈیا کا بھیانک چہر ہ دکھانے کو کافی ہیں
انڈیا کے چھوٹے سے گاؤں سورسنڈ ( نزد نیپال بارڈر) میں فجر کی اذا ن تک پہ پابندی
لگ چکی ہے ۔ وہاں میری چھوٹی پھھو رہتی ہیں۔
ہمارے ڈ بل اسٹینڈرڈ ضرور ہیں مگر ہم خود کو سیکولر نہیں کہتے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ نہیں مانتے۔
ہمارے تو اپنے ہی سارے گندے کپڑے چوراہوں پہ دھوتے ہیں
ہم تو شر مین اور ملالہ کو سر پہ بٹھاتے ہیں جو دنیا بھر میں پاکستان کو گندا کر رہی ہیں۔
محترمہ
بینا صاحبہ
سلام علیکم
آپ کو میری بات ناگوار گزری میں اس کی معافی چاہتی ہوں آئیندہ احطیاط کروں گی. اب مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ کا گھرانہ نیپال بارڈر پر ہے. وہاں کے حالات یقیناً مخدوش ہونگے.
I once again apologise for hurting your feelings.
Nazneen khan
محترمہ نا زنین صا حبہ ،
معذ رت کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں آپ سے نا راض نہیں ہوں۔
دراصل ہندوستان بھر میں پھیلے میرے رشتے دار اس قدر دکھی ہیں
کہ میں جذ باتی ہوجاتی ہوں ہندوستا ن کا نام سن کر۔
بہر حال ، اب ہم اچھے دوستوں کی طر ح بلاگ پہ تبصے کر سکتے ہیں۔
فی امان اللہ
محترمہ نازنین صاحبہ
معذرت کے ساتھ عرضِ خدمت ہے کہ ہر آدمی کو اپنی رائے رکھنے کا اختیار ہے ۔ جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ آپ کے مطابق درست ہے اور جو کچھ محترمہ بینائی صاحبہ نے لکھا ہے وہ اُن کے مطابق درست ہے ۔ اس میں جذباتی ہونے والی کوئی بات نہیں ۔ جب آدمی جذبات کی نذر ہو جاتا ہے تو اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ پاکستان میں موجود کن مہاجروں اور کن برادریوں کی بات کر رہی ہیں ۔ آپ کی اطلاع کیلئے پاکستان میں مہاجر لوگ جن میں بطور ایک بچہ میں بھی شامل تھا بہت ہی کم رہ گئے ہیں لیکن ہم نے اپنے آپ کو کبھی مہاجر نہیں کہا ۔ البتہ ایک سیاسی جماعت مہاجر کے نام سے ہے جن کے سب لوگ 1947ء کے کئی سال بعد پاکستان میں پیدا ہوئے اور جن کا کاروبار بھتہ ۔ ڈکیتی اور اغواء سے چلتا رہا اور کراچی کو اُنہوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ۔ اب اُن کے پروردہ جرائم پیشہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہے تو الا بلا بولنا شروع کیا ہوا ہے
محسوس ایسے ہوتا ہے کہ بھارت میں ذرائع ابلاغ پر پاکستان کے خلاف تواتر سے بہت معاندانہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے جس کا اثر بھارت کے عوام پر بہت ہے کیونکہ عام آدمی کے پاس حقائق جاننے کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے
رہی بات پڑوسی کو دیکھ کر پڑوسی کے بدلنے کی ۔ یہ ایک محلے ایک گلی میں ہوتا ہے ۔ ایک مُلک اور پڑوسی مُلک میں نہیں ہوتا
چچا جان،میرے خیال سے آپ نے میرے مندرجہ بالا تبصرہ میں موجود لفظ “گھر” کو ملک / وطن کے لیئے بطور استعارہ استعمال کرنے کو شائد کسی دوسرے زاویہ پر لے گئے ہیں
محترمہ نازنین صاحبہ و محترمہ بینائی صصاحب. السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اللہ آپ دونوں کو خوش رکھے آمین. آپ نے دل خوش کر دیا ہے. مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں. ایک دوسرے پر مہربان. غلطی یا غلط فہمی کسی کو بھی ہو سکتی ہے. مجھ سے بھی ہو سکتی لیکن اصل چیز سلوک یا رویہ ہے جسے درست رہنا چاہیئے
محترمی
جناب افتخار اجمل صاحب
سلام مسنون
بہت ہی اچھا ہوا کہ آپ نے ہم دونوں بہنوں کو نیک دعائیں دے کر خوش کردیا ورنہ آپ کا پچھلا مسیج پڑھ کر میں تھوڑا ری ایکٹ ہوئی تھی، اور جوابی مسیج بھیجنے آپ کے بلاگ پر آچکی تھی تو نظر پڑی آپ کے خوش گوار مضمون پر.
نازنین خان صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ بَل کھانا چھوڑ دیجئے ۔ یہ صحت کیلئے بہت مُضر ہے ۔ گستاخی کی پیشگی معافی مانگنے کے بعد عرض ہے کہ اصل میں قصور اُس مدرسے کا لگتا ہے جس میں آپ نے تعلیم پائی ۔ وہاں آپ کو دیسی آداب سے ہمکنار نہیں کیا گیا ۔ دو سگی بہنیں ہوں یا ماں بیٹی ہوں ۔ کم از کم تھوڑا اختلاف تو ہوتا ہی ہے ۔ بیٹی سے کِتنا ہی لاڈ پیار کرنے والا باپ ہو ۔ کبھی کبھار بیٹی کی بہتری کی خاطر ڈانٹ پِلا دیتا ہے ۔ بیٹی تھوڑی دیر رو کر پھر باپ کو جا چپکتی ہے ۔ فرنگی کا ماحول کچھ صدیاں قبل ہمارے جیسا ہی تھا لیکن اب وہاں حقیقی محبت دَم توڑ چُکی ہے اور اس کی جگہ مادیت نے لے لی ہوئی ہے ۔ نامعلوم اب دہلی ۔ آگرہ اور لکھنئو کی ثقافت کیا ہے ۔ کسی زمانہ میں میرے دادا دادی دہلی اور آگرہ میں رہتے تھے ۔ میرے دادا 1955ء میں فوت ہوئے ۔ جو کچھ وہ بتایا کرتے تھے بہت لطیف تھای
محترمی
سلامِ مسنون
آپ کا طریقہ اسلوب بہت اچھا ہے. جو کہنا نہ کہنا ہو سب کچھ کہہ گزریں پھر پیشگی معافی.!!
آپ بزرگ ہیں اور میرے استاذ ہیں. استاد نہ ہوئے ہوتے تو شائستگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں بھی کہہ لیتی جو کہنا ہوتا. یہ دوسرا مضمون بھی آپ کا اُسی طرح کا ہے چھیڑخانی والا.
نازنین خان
نازنین خان صاحبہ
آپ کی نوازش ہے کہ معاف کر دیا. آئیندہ ان شاء اللہ محتاط رہنے کی کوشش کروں گا.
محترم
آپ سے پیشگی اجازت لے کر آپ کے بلاگ پر…
عرض ہے میری اچھی بہن محترمہ بینائی صاحبہ کو سلام عرض ہے. جی میں آیا کہ سلام کرلوں.
اچھی نازنین،
وعلیکم السلام،
امید ہے سب خیریت ہوگی۔
آپ کا سلام وصول پایا۔
جواب میں تاخیر کی معذرت ۔ کیونکہ آج دو دن بعد انٹر نیٹ کھولا ہے۔
پھپھا جان کا انتقال ہو گیا تھا، وہاں مصروفیت رہی پھر ایسے میں
کچھ انٹر نیٹ ٹی وی کسی چیز کا دل بھی نہیں چاہتا۔
امید ہے ہم اچھے دوستوں کی طر ح آئندہ بھی اس بلاگ پہ صحتمند
بحث کرتے رہیں گے۔
بینا
محترمہ
بینا بہن صاحبہ
وعلیکم سلام ورحمہ
جی بالکل انشااللہ
اللہ آپ کے پھپاجان کے درجات کی بلندی اور ان کی مغفرت فرمائے. آمین
محترم افتخار اجمل صاحب کی شکرگزاری ادا کرتے ہوئے کہ انھوں نے موقع عنائت فرمایا آپ سے ہم کلام ہونے کا. محترم کے بلاگ پر خوشگوار ملاقات کا یہ آخری مسیج ہے. محترم سوچ میں ہونگے یہ میرا بلاگ نہ ہوگیا بیٹھک خانہ ہوگیا.
وسلام
نازنین خان
الہ آباد
نازنین خان صاحبہ
مجھے بنفسِ خود کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ذاتی باتین بذیعہ چِٹھی یا ٹیلیفون بہتر ہوتی ہیں
دیگر بیٹھک خانہ نہیں ہوتا صرف بیٹھک یا مہمان خانہ یا ڈیرہ یا دالان ہوتا ہے