جو کچھ میں آج لکھنے جا رہا ہوں اگر کوئی قاری اس میں سے کچھ غلط سمجھے یا اس سے متفق نہ ہو یا کچھ سمجھ نہ آئے تو ضرور اپنے خیالات کا اظہار کرے ۔ میں مشکور ہوں گا
کہیں بھی چلے جایئے اگر لوگ گپ شپ کر رہے ہیں تو بات حکومت پہ پہنچنے پر بحث میں تیزی آ جاتی ہے ۔ بالآخر ایک اپنے تئیں مفکّر کوئی صاحب فتوٰی صادر کر دیں گے
”سب ہی چور ہیں“۔
اگر محفل والوں سے میری بے تکلّفی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں ”اگر یہ جُملہ میں کہوں تو آپ کا اپنے متعلق کیا خیال ہے ؟“
حکمران ہماری پسند کے نہ ہوں یا ہمارا کام نہ کرتے ہوں تو اُنہیں ہم چور کہتے ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا اپنا کردار و عمل کیسا ہے ۔ تھوڑی دیر کیلئے بھُول جایئے کہ آپ کیا ہیں پھر اپنے اِرد گِرد نظر ڈالیئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثرلوگ (50 فیصد سے زائد) نیچے درج سب یا اِن میں سے اکثر عوامل کے مالک ہوں گے
1 ۔ کسی کی خدمت یا مدد کرتے ہیں تو اللہ کی رضا کا خیال نہیں ہوتا بلکہ دل میں ہوتا ہے کہ یہ شخص ہمارے کام آ سکتا ہے
2 ۔ مذاق کا نام دے کر کسی کو تکلیف پہنچاتے یا چوری کرتے ہیں
3 ۔ نظر صرف اپنے فائدہ کی طرف رکھتے ہیں چاہے اس سے کسی دوسرے کا نقصان ہو جائے
4 ۔ اپنے مفاد کیلئے دوسرے کا حق یا خُوشی پامال کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اپنی باری لینے کی بجائے دھونس یا تعلق استعمال کرتے ہیں
5 ۔ کوئی دیکھ نہ رہا ہو یا نظر بچا کر اپنے معمولی یا وقتی لُطف کیلئے گُناہ کے مُرتکِب ہوتے ہیں ۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ اللہ ہر جگہ سب کچھ دیکھ رہا ہے
6 ۔ اپنے چھوٹے سے فائدہ یا آرام کی خاطر مُلکی قانون یا دینی حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں مثال کے طور پر کچھ لوگ اپنا غَلَط کام کروانے کیلئے یا درُست کام جلدی کروانے کیلئے رشوت کی پشکش کرتے ہیں اور بہانہ ہوتا ہے ”مجبور ہیں ۔ اس کے بغیر کام نہیں ہوتا“۔
7 ۔ ووٹ دیتے وقت دیانتدار اور مُخلصانہ خدمت کی بنیاد کو چھوڑ کر جذبات اور ذاتیات کی رَو میں بہہ کر ووٹ دیتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان اٹَل ہے اور کسی صورت جھُٹلایا نہیں جا سکتا
سورت 13 الرعد آیت 11 إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (ترجمہ ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دِلوں میں ہے)
سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
Pingback: سب چور ہیں « Jazba Radio
متفق …. دوسرے پر انگلی اٹھانا آسان ہوتا ہے بہ نسبت اپنے گریبان میں جھانکنے کے …. جیسی عوام ویسے حکمران!!!
بے شک، حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم پڑے گا کہ وطن عزیز میں زمینیں سونا اگل رہی ہیں، باغات پھلوں سے لدے ہوئے ہیں، ملک کے طول و عرض میں ہر جانب بہار ہی بہار نظر آتی ہے مگر کہیں برکت ہے نہ سکون، ہر جانب محتاجی و غربت، بدامنی و لاقانونیت، اندھیرے اور مایوسیاں!
آخر کیوں ؟
کیونکہ ایک حدیث ہے کہ “”اعمالکم عمالکم“ یعنی تمہارے اعمال کے مطابق ہی تم پر حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔ اسلیئے اگر حکمران بدنیت و بدعمل ہیں تو ہم عوام کو اپنا جائزہ لینا چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے ہی اعمال کا منطقی نتیجہ ہیں۔
یعنی مجھ سمیت ہم سبھی “چور” ہیں اور یہ چوری صرف روپے یا پیسے کی نہیں ہے بلکہ “کام چوری”، “محنت کی چوری”، “وقت کی چوری”، “اعتبار کی چوری”، “اعتماد کی چوری” اور نجانے کس کس قسموں کی چوریوں میں ہم سبھی مبتلاء ہیں۔
اور خود چوری نہیں کرتے ہیں، وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں، چوری کرنے میں، یا کم سے کم چشم پوشی کرتے ہیں دوسروں کی چوریوں کی، تو سدھار کہاں سے آئے گا؟
سیما آفتاب صاحبہ
پنجابی میں کہتے ہیں ” جیسا منہ ویسی چپیڑ“۔ چپیڑ یعنی تھپڑ
عبدالرؤف صاحب
بالکل درست فرمایا ہے آپ نے
جی
صد فیصد متفق
بہت صحیح فرمایا آپ نے کہ آدمی کو اپنی چوریاں نہیں دکھائی دیتیں کہ وہ خود کیا کرتے ہیں.
آپ اتفاق کریں یا نہ کریں اکثر دیکھا گیا ہے عوام کی اکثریت اگر نیکو کار ہوگی تو حکمران بھی نیکو کار ہونگے. جیسی عوام ویسے حکمران. حکمران ‘امپورٹڈ’ تو ہوتے نہیں عوام ہی میں سے ہوتے ہیں.
جیسا کہ آپ نے بتایا کہ کہنے والے حکومت کو چور کہتے ہیں. اگر وہی کہنے والے جب حکومت میں جائیں گے تو وہ خود بھی وہی کچھ کریں گے جو اپنی سابقہ زندگی میں کرتے رہے ہوں. کوئی شرعیعت تھوڑی نافظ کریں گے…
نازنین خان
نازنین خان صاحبہ
خوش آمدید. آپ نے بالکل درست لکھا ہے اگر اکثریت نیکو کار ہو گی تو حکمران بھی نیکو کار ہوں گے. الله کا فرمان یہی ہے اور میرا اس تحریر لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے
افتخاراجمل صا حب،
السلام و علیکم،
درست فرما یا کہ ہم سب چور ہیں۔
فرق ہے تو اتنا کہ کوئی کروڑ چراتا ہے تو کوئی چند روپے۔
چوری کے طر یقے مختلف ۔ مقصد صرف دوسروں کو کہنی ما ر کے آگے نکل جانا، آگے والے کی ٹانگ کھینچنا اور پیچھے والے کے سامنے کانٹے بچھانا ٹھہرا۔
پھر حکمرانوں کو کیسے ٹھیک کر ے کوئی؟
چور کو جی بھر کے ووٹ دیتے ہیں۔۔۔پھر پیٹ بھر کے کوستے ہیں۔
ایک چور کو ہٹا تے ہیں اس سے بڑا چور تخت پہ بٹھاتے ہیں۔
یہی گردش ہے ایام کی
ان ہی میں گھوم گھوم کے صبح سے شام کی.
بہت خوب فرمایا
بینائی صاحبہ نے
ماشااللہ…
نازنین
نازنین صا حبہ ،
شکریہ۔۔بندی کس قابل ہے ،جو کچھ سیکھا ، کسی نہ کسی اچھے استاد کا فیضان ِ نظر ہے۔
جیسے کہ محترم افتخار اجمل صا حب۔
جو میرے نئے استاد ہیں۔
ہاہاہا وہسے اب تو حکمراں ” چپیڑ” کی ہی طرح ہیں