بعض اوقات انسان جتنا مذہب میں آگے بڑھتا جاتا ہے اپنے تئیں اتنا ہی صحیح اور مُنصف سمجھنے لگتا ہے
ایسا انسان کے اندرونی مسئلے کے سبب ہوتا ہے
مذہبی پیش قدمی رحم و دردمندی پیدا کرتی ہے ۔ عدالت نہیں
اللہ کی یاد میں دل نرم ہوتے ہیں ۔ سخت نہیں
اگر دل سخت ہو رہا ہو تو اس کا مطلب ہے دل میں اللہ نہیں بلکہ خود نمائی گھر کر رہی ہے
البتہ لبادہ مذہب کا اوڑھ رکھا ہے
اللہ کی یاد میں دل میں دل نرم ہوتے ہیں ۔ سخت نہیں ۔۔۔۔۔ بالکل درست فرمایا
Pingback: خود غرضی یا نیکو کاری « Jazba Radio
محترمی
سلامِ مسنون
آپ کی بات صد فیصد درست. پر اس میں کچھ مغالطہ بھی ہوسکتا ہے.
فرض کیجیئے کوئی پروفیشنل ڈاکٹر ہو اور وہ اپنے تئیں اپنے پروفیشن میں خود اعتماد ہو. تو اس کا خود اعتماد ہونا کوئی بُرا تو نہ ہوا. اور اگر وہ اپنی پبلیسیٹی کرہا ہو یا وہ ادارہ جس سے وہ منسلک ہو اس کی اِمیج بنا رہا ہو تب بھی کوئی بری بات نہ ہوئی. ہاں اگر وہ اس اِمیج کا حقدار نہ ہو تو یہ غلط ہوگا.
آپ کا یہ خیال بہت درست ہے کہ مذھبی معاملات میں آدمی اپنی خود نمائی نہ چاہے اور نہ اپنے آپ کو کوئی بڑی اونچی چیز سمجھے. یہ اعمال کو ضایع کرنے والی بات ہوگی. اگر اُس عالم کے معتقدین اُن کو بڑا سمجھتے ہوں تو یہ الزام اُن پر نہیں چسپاں کیا جائے گا. مگر اُس بات سے بھی اُس عالم کو بچنا و پرہیز کرنا ہوگا.
اگر ایک قاضی اور مُفتی اپنی قابلیت کی بنا پر عہدہ سنبھالتا ہے تو اس کی شہرت تو ہوگی. وہ اپنی شہرت سے بچ نہیں سکتا. تو کیا اپنی شہرت سے بچنے کے لئے وہ اپنے منصب سے استعفیٰ دے دے گا.! اگراُس نے استعفیٰ دیا تو جہالت والا کام کرے گا.
کبھی دل کی سختی ایک مزاج ہوتا ہے. وہ سب ہی میں ہوتا ہے ایک عالم ہی میں کیا. اکثر ڈاکٹر حضرات کا حال ہوتا ہے کہ مریض کی نفسیات کی دلجوئی کرتے ہیں تو اچھے ڈاکٹر مانے جاتے ہیں. اکثر نہیں بھی کرتے دلجوئی تو ان کے متعلق بھی مریض یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم کو ڈاکٹر نے دیکھا ہی نہیں ڈھنگ سے، کچھ سوال پوچھا ہی نہیں ہم سے، پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے، اسے اپنے ڈاکٹر ہونے کا تکبّر ہے لگتا ہے. تو یہ انسانی رویّے ہوتے ہیں جبکہ ڈاکٹر میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی. اسی پر ایک عالم کو بھی قیعاس کیا جا سکتا ہے.
معاف کیجئے گا حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بن خطاب کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا. ایک نرم مزاج تھے اور ایک سخت مزاج. دونوں مزاج اللہ کو مطلوب تھے. مزاج کی سختی کوئی عیب نہیں ہوتا اور نہ کوئی گھمنڈ.
میں یہاں پھر کہہ رہی ہوں آپ کے مضمون پر کوئی اعتراض نہیں کر رہی آپ کا پورا مضمون درست ہے.
رہی بات لبادہ اوڑھنے کی تو اگر کوئی عالم ہے تو ظاہر ہے لبادہ مذہب ہی کا تو اوڑھے گا. یا کوئی اور لبادہ ہونا چاہیئے اس کا.!
وسلام
بشریٰ
بشرٰی خان صاحبہ
خیالات کے اظہار کیلئے آپ کا مشکور ہوں ۔ اِن شاء اللہ مُفَصّل جواب سرِ ورق لکھوں گا تاکہ دیگر قارین کی آراء سے بھی مستفید ہو سکوں ۔ آپ سے معذرت کے بعد عرض ہے کہ ہے آپ کی اور میری سوچ میں 180 درجے تو نہیں البتہ 90 درجے کا فرق محسوس ہوتا ہے
ہر انسان کی سوچ کی تعمیر میں مندرجہ ذیل عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
(1) پیدائش سے سکول جانے تک کی تربیت
(2) اساتذہ کا طرزِ عمل
(3) دوستوں یا قریبی ساتھیوں کا طرزِ عمل
(4) گرد و نواح کا ماحول
(5) اپنی محنت
Pingback: میری تحریر کی وضاحت | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I
محترمی
آپ کی نوازش ہے کہ.. ناچیز بندی آپ سے اختلاف رائے میں ۹۰ ڈگری کے ذاویئے پر ہے. شکریہ
آپ نے میرے کمنٹس پر تبصرہ فرماتے ہوئے جو ۵ نکات پیش کیئے ہیں میرے خیال میں ایسا ہونا ضروری نہیں. ہاں ایک سیاسی لیڈر میں تو ہوسکتا ہے کہ اس کا جو سابقہ Background رہا ہو اسی کے حساب سے اس کی عملی زندگی ڈھلی ہو. پر یہ بھی کوئی ضروری نہی.
جبکہ آدمی کی سوچ و فکر اس کے علم کے بنیاد پر ہوتی ہے جو علم اس نے حاصل کیا ہوتا ہے، نہ کہ سابقہ بیک گراونڈ کی بنیاد پر. ورنہ کتنے مفکّر اور بڑے لوگ ایسے گزرے ہیں جن کی سابقہ زندگی بہت مشکل و کسمپرسی میں گزری. مگر ان کی عملی زندگیاں ان کی سابقہ بنیاد پر نہ ڈھل پائیں.
میں پھر یہاں صحابہ کرام کی زندگیوں کا حوالہ دوں گی جن کا بچپن شرک و بربریت کے ماحول میں گزرا تھا. جب ان کو علم کی روشنی نصیب ہوئی تو ان میں سے کتنوں کی عملی زندگیوں میں جاہلیت کے کردار کا ادنہ سا بھی شائبہ پایا گیا ہو.؟ جبکہ جاہلیت ان کی تربیت گاہ رہ چکی تھی پر اس نے ان کے کردار پر کوئی اثر نہ ڈالا. تو پھر کہاں گئیں وہ اسکول و اساتذہ والی باتیں.!
وسلام
بشریٰ
بشرےا بہن اور آپ کی گفتگو پڑھی۔ اوروں کی بات تو نہیں کرتا مگر ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں اس کی ایک اور وجہ بھی یہ ہے کہ میں اس پیشہ کے آداب اور اخلاق کے متعلق بہت کچھ لکھ اور پڑھ چکا ہوں انگریزی مین ایتھکس کہتے ہیں
جب میں میڈیکل کالج -آجکل کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی- میں داخل ہوا تھا تو ہمیں سکھایا گیا تھا کہ نام کی تختی بڑی نہیں ہونی چاہِئے یعنی جب ڈاکٹر بن کر پریکٹس شروع کرو- اس کے علاوہ میں نے حکمت والے گھر میں جنم لیا ہے میرے والد اللہ بخشے حکیم اجمل خان کے شاگرد تھے اور والد صاحب کی ساری پریکٹس والی زندگی میرے سامنے ہے ان کے اصول سخت تھے اور مریضوں کو بھی وہ اصول کے خلاف نہیں جانے دیتے تھے بلکہ ڈانٹ پلاتے تھے اس کے باوجود وہ ایک ہردلعزیز شخصیت سمجھے جاتے تھے
میرے دونوں بڑے بھائ ڈاکٹر تھے اور ان کی زندگیاں بھی میرے سامنے ہیں تعریف نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آجکل کے ڈاکٹروں کی بے حسی اور جیسا لکھا گیا ہے مریض کی جیب پر نظر رکھنا وغیرہ ہمارے درمیان خصوصا’ مجھ سے بڑے بھائ سے گفتگو رہتی تھی ان سے بڑے بھای سب سے بڑے تھے مگر ہم سب نے اپنے والد سے یہ ‘آداب” سیکھے تھے اور ان پر عمل پیرا رہے ہم نے صرف مریض اور اس کے مرض کو دیکھ کر علاج کیا ہے اور جیسا آپ کہتے ہیں اللہ تعالےا نے مہیں خوشحال رکھا ہے گو بےتحاشہ دولت ہمارے پاس نہیں رہی
مختصرا” لکھا ہے مگر میں نے اسلامک میڈیکل ایتھکس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے میرے بھائ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں مگر جو مجھ سے بڑے تھے ان سے ملکر ہمارا اردہ تھا کہ پاکستانی ڈاکٹروں کے لیئے ایک اسی قسم کی کتاب لکھیں گے اردو میں- میرے رٹائر ہونے سے پہلے مگر انھیں ہارٹ اٹیک اس دنیا سےلے گیا اکیلے اب لکھنے کی میں ہمت نہیں پاتا-
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ آپ کا ارشاد بجا ہے ۔ بھی اچھے لوگ موجود ہیں اسی لئے کاروبار چل رہا ورنہ ابلیس کے چیلوں نے جو کچھ اس مُلک کے ساتھ کیا ۔ اللہ کی پناہ ۔ میری بڑی بہن نے 1955ء میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا تھا اُنہوں نے بھی یہ بتایا تھا ۔ مجھے اُمید ہے کہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں اب بھی یہی بتاتے ہوں گے ۔ سکول ۔ کالج اور پھر انجنیئرنگ کالج میں ہمارے اساتذہ نے پڑھانے سے وقت نکال کر ہماری انہی خطوط پر تربیت کی
جی
ڈاکٹر صاحب
آپ نے صحیح بات کہی کہ ڈاکٹر حضرات کی نظر مریض کی جیب پر نہ ہونی چاہیئے. یہ ایک اچھا اصول ہے.
مجھ سے چھوٹے بھائی کی اوپن ہارٹ سرجری جس ڈاکٹر نے کی وہ نیک و شریف مسلمان اور مشہور سرجن ہیں. ایک بار گفتگو میں انھوں نے کہا شہر کے سب سے بڑے اسپتال کی سروس میں نے اس لیئے ترک کی کہ وہاں کا مینیجمنٹ مجھ سے مطالبہ کرتا تھا کہ، ڈاکٹر صاحب آپ ہر ہارٹ پیشنٹ سے کم از کم اتنی رقم تو نکالینگے ہی اور مزید آپ کی صوابدید پر ہے تو پھر ہم آپ کو یہ اور یہ مراعات دینگے. ڈاکٹر صاحب نے کہا مینیجمنٹ مجھ سے Double duty لے لے پر یہ کام میں نہیں کر سکتا کہ مریض کی جیب پر ڈاکہ ڈالوں.
تو کہنے کا مطلب ہے کبھی یہ صورت بھی اختیار کرتے ہیں ڈاکٹر حضرات. اور جو ڈاکٹر اپنا خود کا پرایویٹ مطب چلاتے ہیں تو دھڑلے سے چلاتے ہیں چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو ٹسٹ پر ٹسٹ، کیونکہ Pathology میں ان کا پرسنٹیج فکس ہوتا ہے. مہنگی سے مہنگی دوا لکھینگے مڈیکل اسٹور میں پرسنٹ فکس. چوری کے دس بہانے. بے ایمانی ہر سطح پر ہے شکلیں مختلف. اور جو ڈاکٹر حضرات نیکو کار ہوتے ہیں پر جیسا کہ آپ نے عرض کیا اصول کے سخت اور مریض کو ڈانٹ پلادیتے ہیں تو وہ مفت میں بدنام ہوتے ہیں، ڈاکٹر کوئی سٹھیایہ ہوا تھوڑی ہوتا ہے کہ بلاوجہ ڈانٹ پلاتا رہے مریضوں کو. یہ مریضوں کا رویّہ ہوتا ہے ان کی سمجھ کا فطور.
میں بھی یہی سمجھتی تھی بہت پہلے کہ حکیم جی شاید زہنی مریض لگتے ہیں. جیسے ہی نمودار ہوئے اپنے حجرے سے برس پڑتے تھے.. تمیز سے بیٹھو، اپنا منہ بند رکھو، پاوں کیوں ہلارہے ہو. لگتا تھا کورٹ مارشل ہو رہا ہو مریضوں کا. میں سوچا کرتی عجیب حکیم ہیں Short temper. گھر میں بیوی سے بھی اسی طرح لڑتے ہونگے. تو یہ رویّہ ہوتا ہے اپنا اپنا.
شکریہ
بشریٰ
بشرٰی صاحبہ
آپ کا خیال آپ کا ہے ۔ اس کے متعلق مجھے کچھ کہنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ میں دوسروں کا نہیں اپنا خیال پیش کرتا ہوں جس کی بنیاد میری تعلیم تربیت مشاہدہ اور تجربہ پر ہوتی ہے ۔ رہے سیاسی لیڈر تو ان سے میرا زندگی بھر واسطہ نہیں پڑا ۔ ان کے معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اب ذرا غور فرمایئے میں نے کیا لکھا تھا
ہر انسان کی سوچ کی تعمیر میں مندرجہ ذیل عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ (1) پیدائش سے سکول جانے تک کی تربیت ۔ (2) اساتذہ کا طرزِ عمل ۔ (3) دوستوں یا قریبی ساتھیوں کا طرزِ عمل ۔ (4) گرد و نواح کا ماحول ۔ (5) اپنی محنت
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب سکول جانے اور اساتذہ کے برتاؤ کا ذکر آ گیا تو تعلیم کیا باہر رہ گئی ؟ دوسرے ۔ کیا میں نے لکھا ہے کہ یہ عوامل بنیاد ہیں ؟ یا صرف یہی عوامل کار فرما ہیں ؟ از راہِ کرم اپنی رائے کا اظہار کرنے سے پہلے میرے لکھے کو غور سے پڑھ تو لیا کیجئے ۔
کیا آپ وضاحت فرمائیں گی کہ عِلم کیا ہوتا ہے ؟ اسناد یعنی ڈگریاں یا کچھ اور ؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق آپ نے کس علم کی بنیاد پر یہ سب کچھ لکھا ہے ؟ از راہ کرم کسی مُستند کتاب کا حوالہ دیجئے
اوہو… !!
جنابِ عالی محترم جناب افتخار اجمل صاحب یہ تبصرہ میں نے ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب کے لیئے لکھا ہے ان کے تبصرے پر جو انھوں نے میری تحریر پر کیا تھا.
آپ نے شائید عجلت میں غور نہیں کیا اوپر میں نے “جی ڈاکٹر صاحب” جلی حروف میں لکھا ہے.
تو کیا آپ بھی ڈاکٹر ہیں..!
بشریٰ
جی…
نہیں.. میرا کوئی مطالعہ نہیں ہوا میں لکھتی ہوں، تو حوالہ کس بات کا دوں آپ کو. !
بشریٰ
محترمہ بشرٰی خان صاحبہ
آپ کا ڈاکٹر صاحب کے نام تبصرہ ساتویں نمبر پر جوں کا توں موجود ہے ۔ اس کا جواب ڈاکٹر صاحب دیں گے ۔ آپ نجانے کس حوالے سے بات کر رہی ہیں