ٹی وی چینلز کھُمبوں کی طرح اُبھرے اور جنگلی گھاس کی طرح پھیل گئے ۔ بازی جیتنے کی دوڑ میں خبر ساز ۔ ملمع ساز اور جُگت باز ماہرین بھرتی کئے گئے ۔ اتنے سارے کھیل تماشے یکدم شروع ہوئے تو حضرتِ انسان ان میں کھو کر رہ گیا ۔ اُس کا احساس جاتا رہا کہ جسے وہ جبِلّت یا حظِ مزاح سمجھ رہا ہے وہ انسانی اقدار کی تضحیک ہے ۔ پھر مرغوبیت اتنی بڑھی کہ اس فعل کا دہرانا اپنے ذمہ لے لیا ۔ چنانچہ ٹی وی کے پھیلائے یہ جراثیم پہلے فیس بُک پر پہنچ کر عام ہوئے ۔ پھر واٹس اَیپ اور دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ پر دہرائے جانے لگے ۔ نوبت بایں جا رسید کہ مرض بلاگستان (جو سُنا تھا کہ اُردو زبان کی ترویج یا فلاح کیلئے ہے) پر بھی پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ پھر بجائے اس کے کہ درست رہنمائی کی جائے آفرین و مرحبا کے ڈونگرے برسائے جانے لگے یا پھر تُرکی بہ تُرکی دوسری انتہاء اختیار کی گئی
کوئی پوچھے کہ اللہ کے بندوں اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو ۔ کم از کم قرآن شریف میں اللہ کے واضح طور پر لکھے احکامات کی خلاف ورزی تو نہ کرو
سورت 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو ۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
سورت 49 ۔ الحجرات۔ آیت 11 ۔ اے ایمان والو ۔ مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ۔ ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو بُرے لقب دو ۔ ایمان کے بعد فسق بُرا نام ہے ۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں
Mohtrami
Salam e masnoon
Mashallah aap ne babot achi baat ki taraf rahnumai farmai hai Quran ki Aayat se sabit karke ke ye kitna bada Aybb aur Gunah hai ek Dusre se Jhoot Bolna Ek Dusre ka Mazaq Udana.
Is subject per bahot kuch izhare khyal pesh kiya ja sakta hai.
بہت سے لوگوں کے خیال میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے نقصانات انسان کے اپنے پیدا کردا ہیں. کوئی جزبات کی رو میں کسی جال میں پھنس کر بے وقوف بنتا ہے تو کوئی اسے غلط استعمال کرکے.
آپ نے سہی کہا کہ ٹی وی ہو کہ فیس بک و واٹس اپ ہو برائی ہر جگہ سرائیت کر گئی یے. نیٹ چیٹنگ میں بھی یہی حال ہے کہ زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کو بے وقوف بناتے ہیں اور چیٹنگ میں بات بات پر ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں. اور ایک دوسرے کے اعتماد کو کھو دیتے ہیں. جھو ٹے پیار و محبت کے دعوے کرتے ہیں. یہ ہم لوگ کے لیئے سوچنے و غور کرنے کی بات ہے کہ کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے پھر رہے ہیں محز لطف اٹھانے کے لیئے. حالانکہ جھوٹ بولنا تو مزاق میں بھی منع یے. اور پھر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے جھوٹے قصہ کہانیاں وقت کی بربادی کے سوا کچھ نہہں. یہ سب کیا ہم مسلمانوں کو کیا زیب دیتا ہے.؟
ہمارے لیئے “مسلمان” ہونا بہت اعزاز کی بات ہے. بہ نام خدا اس اعزاز کو، اعزاز ہی رہنے دیں، بدنما داغ نہ بنائیں.
ہمارے نوجوان، ہماری بہو بیٹیاں مقرّب اقلاق مواد انٹرنیٹ سایٹس پر جاکر نہ سرف دیکھتی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے شیر کرتی ہیں. حکومت کو چاہیئے کہ ان سائٹس کو بلاک کرے. ہم تو ہم، حالیہ برتانوی ماہرین نفسیات نے انٹرنیٹ کے زریئے فحاشی اور جنسی رجہان کے فروغ سے نئی نسل کی اقلاقی قدروں کی تباہی کی نشاندہی کی ہے. اور انٹر نیٹ کو بے حیائی کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے. نہ سرف برتانیہ بلکہ میڑیکل سائنس کے ماہرین نے بھی انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کرنے کے جسمانی نقسانات کی تصدیق کردی ہے.
حم نئی نسل کو ان غلاضتوں سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں. ہر بات کا توڑ موجود ہوتا ہے. حکومت کو فکر ہو اپنی نوجوان نسل کی تو وہ انٹرنیٹ پر فلٹر لگا سکتی یے. نئی نسل کو اس عریاں، فحش اور انتہائی گمراہ کن مواد سے بچانا نہایت ضروری ہے.
آپ کے بقول مرض بلاگستان تک پہنچ گیا… جو اردو ذبان کی ترویج و فلاح کا غلغلہ پیش کرتی دکھائی دے رہی تھی. سن کر بہت دکھ ہوا.
یہ آیت بلاگستان کی نظر کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتی ہوں.
” ان الزین یحبون ان تشیع الفا حشہ فی الزین آمنو لھم عزاب الیم فی الدنیا و الاخرہ”
” بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمانداروں میں بدکاری پھیل جائے.. ان کے لیئے دنیا اور آَخرت میًں دردناک عزاب ہے.. ( البقرہ- ۹۱).
” ولا تقر بو الفواحش ماظھر منھا وما بطن”.. ( الانعام)
اور سورہ الاعراف میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ…
” اور بے شرمی کی زبانوں کے قریب بھی نہ جاو، خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی..
کیا ہم اب بھی فحاشی اور بے حیائی کے کاروبار کو جاری رکھیں گے.. ؟؟؟
وسلام
بشرٰی خان
میں بھی صد فی صد متفق ہوں اس بات سے ۔۔۔۔ میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا ثابت کرتا ہے اور کچھ چیزوں کا حد اعتدال سے زیادہ استعمال بھی برائی کا موجب بنتا ہے،
مزاح کیا ہے یہ ہم بھول چکے ہیں ۔۔۔ کسی کا مذاق اڑانا اور جگت بازی کو اب مزاح سمجھا جانے لگا ہے۔۔ اللہ سے ہدایت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے ورنہ یہ طوفان بد تمیزی ہر حد پار کرچکا ہے۔