مجھے بچپن سے سیر و سیاحت کا شوق رہا جسے پورا کرنے کیلئے میں بڑے شہروں کی بجائے دیہات ۔ پہاڑوں اور جنگلات کا رُخ کیا کرتا تھا ۔ اس سیر سیاحت کے دوران میں جانوروں اور ان کی عادات کا مطالعہ بھی کرتا رہا ۔ اس مطالعے کے دوران ہر لمحے دل سے نکلتا رہا ”سُبحان اللہ سُبحان اللہ“ ۔ عام انسانوں کا خیال ہے کہ انسان جانور سے اسلئے افضل ہے کہ انسان عقل رکھتا ہے ۔ عملی مشاہدے سے یہ خیال غلط نظر آتا ہے
کبھی آپ نے پرندوں کو گھونسلہ بناتے متواتر دیکھا اور اُس پر غور کیا ہے ؟ خاص کر ایک چھوٹے سے پرندے بیہا کو جو اپنا گھونسلہ درخت کی ٹہنی سے لٹکا ہوا بناتا ہے ۔ یہ بیضوی شکل کا ہوتا ہے اور اس میں ایک طرف گول سوراخ ہوتا ہے
ایک چوپایا ہے جسے شاید لُدھڑ (Beaver) کہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں سے پانی کے اوپر اپنا گھر بناتا ہے ۔ چھوٹی ندیوں پر بند (dam) بنا کر پانی کی سطح بلند کرتا ہے تاکہ پانی کے بہاؤ کی رفتار کم ہو اور اسے خوراک حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو
مندرجہ بالا پرندہ اور چوپایا تو ہر جگہ نہیں ملتے ۔ گائے تو ہر علاقے میں پائی جاتی ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں ۔ گائے اپنے کمرے سے باہر نکلنے کیلئے کُنڈی کیسے کھولتی ہے ؟ بجلی سے چلنے والا دروازہ کیسے کھولتی ہے ؟ پانی پینے کیلئے ہینڈ پمپ کیسے چلاتی ہے ؟
یہاں کلِک کر کے وڈیو دیکھیئے
اللہ نے ہر جاندار کو اتنی عقل تو دی ہے جتنی اسکے حیات کے لیے ضروری ہے۔ بس انسان بعض معاملا ت میں دیگر مخلوقات سے زیادہ ذہین ہے۔
اورمیرے خیال سے انسان تمام مخلوقات کے درمیان اپنی حیثیت کی وجہ سے افضل ہے کیونکہ تمام مخلوقات کے رب نے اُسے اپنا خلیفہ مقرر فرما کر افضلیت بخشی ہے اور اُس کی تخلیق کے وقت ہی اُس کی یہ حیثیت متعین فرمادی گئی تھی جس کا ذکرقرآن میں کچھ یوں آتا ہے:
“اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ سورۃ البقرۃ – آیت نمبر 33.”
نوٹ: عربی آیت میں نائب کے لیئے لفظ “خلیفہ” استعمال ہوا ہے۔
عبدالرؤف صاحب
میں آپ سے متفق ہوں ۔ البتہ میرے خیال کے مطابق اللہ نے انسان کو ایک وصف عطا فرمایا ہے جو باقی جانداروں کو تفویض نہیں کیا اور وہ ہے اپنی راہ متعیّن کرنے کا اختیار جسے سوچ اور ضمیر کہا جاتا ہے
پهر جنات کس کهاتے میں شمار ہونگے ؟
ؑبدالرؤف صاحب
جنّوں کو دیکھ کر ہی کچھ کہہ سکتا ہوں ۔ ۔ اگر آپ نے دیکھے ہوں تو بتا دیجئے
یہ تو وہ بات ہوگئی بقول شاعر:
ع: عرشِ خُدا کے قائل نہیں ہیں وہ — جغرافیہ میں اُسکا نقشہ نہیں ملتا (اصل شعر بھی کچھ ایسا ہی تھا )
خیر آپ ہی طرح فدوی کو بھی جنات سے ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں ہوسکا ہے لیکن سورۃ الجن میں اِنکا تذکرہ خالقِ کائنات نے کیا ہے، تو عین الیقین کی عدم موجودگی کے باوجود بھی انکے وجود کے بارے میں علم القین اور حق الیقین ہے۔
میرا سوال ابھی جواب طلب ہے
عبدالرؤف صاحب
جواب تو میں نے پیش کر دیا تھا ۔ بات میں زمین کی کر رہا ہوتا ہوں اور آپ سوال آسمان کا پوچھ لیتے ہیں ۔ میں بندہ بشر ہوں اتنی بڑی چھلانگ نہیں لگا سکتا ۔ اور ہاں آپ نے کیسے سوچا کہ جو قرآن شریف میں لکھا ہے وہ میں نہیں جانتا ۔ ویسے جنوں کی تفصیل میں نہ جائیں تو بہتر ہے کیونکہ جو میں نے دیکھا ہوا ہے اگر بتاؤں تو آپ مانیں گے نہیں ۔ اسلئے بتانے کا فائدہ نہیں
حضور نجانے کیوں اردو زبان میں کلام کرنے کے باوجود بهی ہم ایک دوسرے پر اپنا مدعاء واضح نہیں کرپارہے ہیں؟
یا کہیں ایسا تو نہیں کہ سمجه کر بهی سمجھنا نہیں چاہ رہے ہیں.
عبدالرؤف صاحب
کوئی کیا کہہ رہا ہے ؟ اس کی درست سمجھ سب کو آنا شروع ہو جائے تو دنیا میں اختلاف بہت کم رہ جائے ۔ میں نے اس موضوع پر بطور خوش انتظامی کی ایک خصوصیت کے 1964ء سے 1974ء تک عملی تحقیق کی تھی ۔ اس وقت میرے دل و دماغ کام کرنے سے انکاری ہیں ۔ آج صبح قرابت میں ایک وفات ہو گئی ہے اور مجھے جنازہ پر جانا ہے ۔ اِن شاء اللہ اسی ہفتے میں آپ کے سوال کا جواب لکھنے کی کوشش کروں گا
إنا لله وإنا إليه راجعون
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام و علیکم،
گفتگو جانوروں سے جنوں کی جانب مڑ گئی ہے ۔ جس کے بارے میں میری معلومات بہت
ناقص ہیں۔
ہاں ، آپ کے اصل موضوع یعنی جا نور بھی عقل ر کھتے ہیں ، سے سوفیصد متفق ہوں۔
میں نے بہت سی بلیاں پال ر کھی ہیں( قیمتی والی نہیں ، عام بلیاں )
میں انہیں کھانا اور پانی دیتی ہوں
یقین کر یں ، جیسے ہی آفس سے گھر پہنچتی ہوں ، گھر کے کونے کونے سے لپک کے
آتی ہیں اور میری ٹا نگوں سے لپٹ کے میرا استقبال کرتی ہیں۔
پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے ، لالچ مقصد نہیں ہو تا
وہ مجھ سے پیار کرتی ہیں۔
میں اکثر سوچتی ہوں ، یہ معمولی سا جانور جانتا ہے کہ پیار کیسے کر نا ہے؟
ہم اپنے مالک سے کتنا پیار کرتے ہیں؟
یہ لفظ بلیاں ہیں ، جانے کیسے بللیاں بن گیا؟ معذ رت
یہ نہ سمجھیں کہ میں نے کو ئی انوکھا جانور پا ل ر کھا ہے۔
بینائی صاحبہ ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
بی بی پہلے تو بالیان نہین لکھا تھا البتہ اب آپ نے بالیاں لکھ دیا ہے
جناب افتخار اجمل صا حب،
یہ میرے سا فٹ وئیر کی شرارت ہے۔
سوبار لکھا پھر بھی بلیاں نہیں بلیاں لکھا اس نے۔
انسان مشین پہ انحصا ر کر سکتا ہے ، مگر اعتبار نہیں۔
بینائی صاحبہ
آپ میرے بلاگ کے سرِورق میں حاشیئے کے اندر انگریزی میں لکھ ”انسٹال اُردو“ پر کلِک کیجئے اور اُردو فونٹ انسٹال کر لیجئے ۔ موبائل فون پر مندرجہ ذیل انسٹال کر کے اس میں اُردو ۔ عربی اور انگریزی شامل کر لیجئے اور مزے اُڑایئے
Swiftkey Keyboard
میرے خیال سے اللہ تعالٰی نے جتنی بھی مخلوق پیدا فرمائی ہے وہ سب عقل رکھتے ہیں۔
میرے محدود علم و مشاہدہ کے مطابق جانور علم حاصل نہیں کرتے انہیں انکی فطرت کے مطابق علم دے کر بھیجا جاتا ھے ،جبکہ انسان کو پیغمبروں اور کتاب کے ذریعے علم دیا گیا اور انسان کی فلاح وبہبود کے لئیے مزید علوم بھی حاصل کرنے کو کہا گیا “خواہ اسکے لئیے چین بھی جانا پڑے”