” اِتنا تو میں بُرا نہیں “۔ یہ آواز ہے میرے وطن کی جس نے ہمیں سب کچھ دیا ہے لیکن ہم ناقدرے لوگ ہیں
میرا واسطہ 2 درجن سے زائد غیرممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رہا اور ان میں سے آدھے ممالک میں رہائش کا بھی موقع ملا ۔ میں نے ان لوگوں کو کبھی اپنے مُلک یا ہموطنوں کے خلاف کوئی بات کرتے نہیں سُنا ۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت سے آئے ہوئے مسلمانوں کو بھی کبھی اپنے مُلک یا ہموطنوں کے خلاف بات کرتے نہیں سُنا ۔ یہاں تک کہ اگر ان کے مُلک یا ان کے کسی ہموطن کے خلاف کوئی بات کریں تو وہ بلاتوقف اس کا دفاع کرتے تھے
مگر میرے ہموطن جہاں کہیں بھی ہوں اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کے خلاف نہ صرف بلاجواز بولنے لگتے ہیں بلکہ انہیں منع کیا جائے تو تکرار اور بدتمیزی پر اُتر آتے ہیں ۔ یہی نہیں غیرمُلکیوں سے اپنے ہموطنوں کے خلاف یا اپنے وطن کے خلاف باتیں کرنا شاید اپنی بڑائی سمجھتے ہیں
ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ نمعلوم کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنی ہی کشتی میں سوراخ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی ہی آنے والی نسل کا مستقبل تاریک کر رہے ہوتے ہیں ۔ میرے ہموطنوں کے اسی رویئے کے نتیجے میں پہلے متحدہ امارات (یو اے ای) پھر لبیا اور پھر سعودی عرب میں بھی بھارت کے لوگوں نے پاکستانیوں کی جگہ لے لی ۔ سُننے میں یہ بھی آیا ہے کہ امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ متعدد مصدقہ واقعات میں سے نمونے کے طور پر صرف 3 جو کم از کم میری سمجھ سے باہر ہیں قلمبند کرتا ہوں
لبیا کے شہر طرابلس میں ایک پاکستانی سکول تھا جس میں ہماری ٹیم کے بچے بھی پڑھتے تھے ۔ سکول رفاہی بنیاد پر چلایا جا رہا تھا اور اس کا تعلیمی معیار اچھا تھا ۔ سکول کی عمارت کا کرایہ لبیا کی حکومت دیتی تھی ۔ ایک پاکستانی سپیشلسٹ ڈاکٹر جس کے بچے چند سال قبل اس سکول سے فارغ التحصیل ہو کر پاکستان جا چکے تھے کا شاید کوئی ذاتی جھگڑا تھا یا کچھ اور، اُس نے سکول کی انتظامیہ کے ناکردہ گناہوں کا لکھ کر لبیا کی حکومت کو درخواست دی کہ سکول کی عمارت واپس لے لی جائے ۔ اُن دنوں ایک سڑک چوڑی کرنے کیلئے ایک پرائیویٹ لیبی سکول کی عمارت گرائی جانا تھی چنانچہ درخواست سیکریٹری تعلیم کو بھیج دی گئی ۔ ایک پاکستانی خاندان پچھلے 15 سال سے سیکریٹری تعلیم کا ہمسایہ تھا ۔ خاتونِ خانہ مجوزہ گرائے جانے والے سکول کی ہیڈ مسٹرس تھیں ۔ سیکریٹری نے اُن سے ذکر کیا کہ پاکستانی سکول بند ہونے کے بعد وہ عمارت لے لیں ۔ وہ ہمسایہ پاکستانی تصدیق کیلئے ایک پاکستانی آفیسر کے پاس گئے جس کا پاکستانی سفارتخانہ سے تعلق تھا ۔ اس طرح بات سفیر صاحب تک پہنچی اور لبیا کی وزارتِ تعلیم سے رابطے کے بعد اللہ کی مہربانی سے سکول بچ گیا
سعودی عرب میں ایک پاکستانی ڈاکٹر شاہی خاندان کا ڈینٹل سرجن تھا ۔ وزیرِ صحت کے ساتھ اُس کی دوستی تھی ۔ ایک دن وزیرِ صحت نے اُسے بتایا کہ ”ہمارے 2 اعلٰی سطح کے پاکستانی ملازم میرے پاس آ کر ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرتے رہتے تھے چنانچہ میں نے تنگ آ کر دونوں کو فارغ کر کے پاکستان بھجوا دیا ہے“۔
ایک پاکستانی طرابلس کے ایک تاجر کے پاس ملازم تھا ۔ ملازمت ختم ہونے کے بعد وہ لبیا سے یورپ چلا گیا اور اُس لیبی تاجر کو خط لکھا جس کا لب لباب تھا ” میں اَووراِنوائسِنگ کرواتا رہا اور اب لاکھوں ڈالر یورپ کے بنک میں میرے نام پہ جمع ہو گئے ہیں ۔ تم نرے بیوقوف ہو ۔ سب لیبی بیوقوف ہیں ۔ پاکستانی تیز دماغ ہیں اور مال بنا رہے ہیں“۔ اس لیبی تاجر کے ساتھ میری سلام دعا تھی اور اُس پاکستانی سے بھی میری جان پہچان ہو گئی ہوئی تھی ۔ ایک دن میں لیبی کی دکان پر گیا تو اُس نے مجھے بٹھا لیا اور خط دکھا کر کہنے لگا ”میں نہیں جانتا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ۔ یہ مجھے بیوقوف کہتا ہے دراصل یہ خود بیوقوف ہے جو اپنے مُلک کی بدنامی اور سارے ہموطنوں سے دشمنی کر رہا ہے“۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اجمل انکل، آپ کے مضمون کا ابتدائیہ “قومیت پرستی” اور “عصبیت” سے ہوا ہے جبکہ اختتام پاکستانیوں کی عام اخلاقی برائیوں پر۔
تو وطن پرستی کے بارے میں شاعرِمشرق اقبال مرحوم فرماگئے تھے کہ:
انِ تازہ خداؤں بڑا سب سے وطن ہے — جوپیرہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اور عصبیت کے بارے میں اللہ کےآخری بنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفھوم ہے کہ :
جو وعصبیت پر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔صحیح مسلم -کتاب الامارۃ
باقی یہ پاکستانیوں کے بارے میں ایک فرضی و جھوٹا لطیفہ پیشِ خدمت ہے :
ایک آدمی نے خواب میں کسی فرشتے کی معیت میں جہنم کی سیر کی، وہاں اُس نے دیکھا کہ ہر قوم کے لیئے الگ الگ آگ کے گڑھے مخصوص ہیں، اور اُن پر داروغےمقرر ہیں، کہ کوئی شخص اگر باہر نکلنے لگے تو اُسے واپس اندر دھکیل دے، لیکن ایک گڑھا ایسا بھی تھا جس پر کوئی داروغہ مقرر نہیں تھا، اُس آدمی نے حیران ہو کر اپنے گائیڈفرشتے سے اُس گڑھے کےمتعلق دریافت کیا، تو فرشتے کا جواب تھا کہ “یہ گڑھا پاکستانی قوم کا ہے، اور اگر کوئی اِن میں سے باہر نکلنے کو کوشش کرتا ہے تو دوسرے اُسے واپس کھینچ لیتے ہیں، اسِ لیئے وہاں پر کسی داروغہ کو مقرر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔”
یعنی کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
میرا سوال یہ ہے کہ پاکستانی کوئی قوم بھی ہیں کہ بس مختلف اقوام کے لوگوں کا ایک گروہ؟
عبدالرؤف – ایک پاکستانی
نَیفِیو عبدالرؤف پاکستانی صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتُہ
آپ کے تبصرے کا جواب لکھنے کیلئے ضروری ہے کہ مجھے سمجھا دیں کہ “قومیت پرستی” ۔ “عصبیت” اور قوم کا کیا مطلب ہے ؟
’’پانی وچ مدھانی‘‘ اور ’’پاپڑ کرارے‘‘ کے ہر دلعزیز خالق عبدالرشید نے عبیر ابوذری کے قلمی نام سے دنیائے طنز و مزاح میں اپنا سکہ جمائے رکھا۔
اِس غزل میں وہ بھی اہلِ وطن کی بے عملی، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور محنت سے جی چرانے پر نوحہ خواں ہیں.
ہم صورتِ حالات سے آگے نہ جا سکے
گویا کہ اپنی ذات سے آگے نہ جا سکے
غیروں نے ایجادات سے دنیا کو سُکھ دیئے
ہم ہیں کہ مسئلہ جات سے آگے نہ جا سکے
آگے نہ جانے دیں گے، نہ ہم خود ہی جائیں گے
ہم ان بکھیڑا جات سے آگے نہ جا سکے
عبدالرؤف صاحب
باتیں میں بھی کرتا ہوں اور آپ ماشاء اللہ مجھ سے اچھی کر لیتے ہیں لیکن کبھی فرصت ملے تو اس پر بھی غور کیجئے کہ ایسا کیوں ہے اور اسے بہتر کیسے کیا جائے ۔ کوئی عملی کُلیہ ہونا چاہیئے
اجمل انکل، ذرہ نوازی ہے آپ کی، کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے، ورنہ ۔۔۔ خیرعرض کیا ہے کہ:
بات چلی تو نیل گگن کے تارے توڑے لوگوں نے —وقت پڑا تو جان چُرالی جان سے پیارے لوگوں نے
یہی گتھی سلجھانے اور سمجھنے کی کوشش کے ہی سلسلہ میں تو میں نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ پاکستانی کوئی قوم بھی ہیں کہ بس مختلف اقوام کے لوگوں کا ایک گروہ؟
لیکن آپ نے تو۔۔۔ خیر، آپ خود ہی اپنے طرزِ عمل پر غور کیجیئے ، ہم نے کچھ کہا تو شکائت ہوگی
عبدالرؤف صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاۃ
بات آپ کی درست ہے کہ پاکستان میں رہنے والے افراد کا مجموعہ ہیں ۔ اِنہیں شاید یہ بھی عِلم نہیں کہ قوم کہتے کِسے ہیں ۔ عام طور پر قوم سے مطلب ذات پات لیا جاتا ہے
ایک وقت میں نے دیکھا تھا جب پاکستان میں بسنے والے ایک قوم تھے یہ وقت تھا 1947ء سے لے کر 1966ء تک گو اسے گھُن 1954ء میں لگنا شروع ہو گیا تھا جب غلام محمد نے پاکستان کی پہلی آزادانہ طور پر بغیر پیسہ خرچ کئے مُنتخب اسمبلی توڑ دی تھی اور جسٹس منیر نے اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین کی پیٹیشن مسترد کرتے ہوئے ”نظریہ ضروت“ ایجاد کیا تھا
میں نے ”قومیت پرستی“۔ ”عصبیت“ اور ”قوم“ کے معنی اسلئے پوچھے تھے کہ میں کسی غلط چیز پر آپ کا وقت ضائع نہ کروں ۔ میرا تجربہ ہے کہ ان کے مختلف معنی لئے جاتے ہیں ۔ آپ نے وطن کی محبت پر میری سرزنش کی ہے ۔ بسر و چشم ۔ ویسے میں نے جو دو حروف پڑھے ہیں اُن کے مطابق ”عصبیت“ کے معنی ہیں ۔ فيصلہ کُن ذوق ۔ زبردست رجحان ۔ ادراک واقعہ قبل وقوع
دین چونکہ کائناتی یا آفاقی ہے اسلئے آدمی جہاں کہیں بھی ہو اوّل دین ہے ۔ اس کے بعد آدمی جہاں کہیں رہتا ہے اُس زمین سے اُنس ہو جانا بھی فطری عمل ہے اور یہ وطنیت کہلاتا ہے ۔ کیونکہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں سو ہماری قوم ”مُسلم“ ہے اور ہم پاکستان میں رہتے ہیں چنانچہ جب تک ہم کسی اور مُلک کی شہریت اختیار نہیں کر لیتے ہماری وطنیت ”پاکستانی“ ہے
بات پھر وہیں پر آ جاتی ہے کہ درستگی کیسے کی جائے اور اگر ہم خود نہیں تو کون کرے گا ؟
آپ نے لکھا ہے ”آپ خود ہی اپنے طرزِ عمل پر غور کیجیئے ، ہم نے کچھ کہا تو شکائت ہوگی“۔
حضور شکائت کروں تو مجرم ہوں گا ۔ آپ کو جو کجی میرے برتاؤ میں نظر آتی ہے برملا بیان کیجئے ۔ بندہ اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا اور ناکامی کی صورت میں معافی کا خواستگار ہو گا
واقعی ہم لوگ ناقدرے ہیں ۔۔۔۔۔ کوئی دوسرا کیا نقصان پہنچائے گا جب ہم خود ہی اپنے دشمن بنے ہوں تو ۔
اسلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتُہ،
سرجی،یہ ” معذرت، سرزش، کجی” بہت بڑے الفاظ ہیں، آپ میرے لیئے نہایت بزرگ اور قابلِ احترام ہیں، وہ تو یونہی شوخی میں آکر اشعار نقل کیئے جارہا تھا، آپ قطعئ سنجیدگی سے یہ لیں، اُن اشعار کے الفاظ، بلکہ اگر میری گفتگو سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔
اب آپ آتے ہیں، عملی کلیہ کی جانب:
میری ناقص رائے میں ہمیں من حیث القوم “اخلاق” اور “توحید” کی دعوت کی اشد ضرورت ہے، اسلام کے نام و نمائش کی نہیں بلکہ خالص اللہ کی خوشنودی کے لیئے اسلام پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں “تنبیۃ الغافلین “بہشتی زیور”، “احیاء العلوم” اور “تلبیسِ ابلیس” جیسی کُتب کی درس و تدریس کو عام کرنا چاہیئے، قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھنے اور پڑھانے کی کوشیش کرنی چاہیئں۔
سیاسی سطح پر اقبال مرحوم کے فرمان (ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیئے، نیل تا با خا کِ کاشغر) کے مطابق ، ہمیں تمام مسلمین کو یک جان ہوجانا چاہیئے۔اور اپنی یونائٹیڈ نیشنز آف اسلام کی بنیاد ڈالنی چاہیئے، تاکہ نبیِ آخرالزاماں کے اس فرمان کا (مسلم ایک جسم کی مانند ہیں۔۔۔)عملی مظاہرہ ہوسکے۔اور تمام مسلمین اس دُنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹنے لگیں۔
اس بارے میں اپنی قیمتی رائے سے نوازیئے گا۔ وسلام۔
عبدالرؤف صاحب
میرے پڑھے لکھے ہموطن جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اگر قرآن شریف کو ہی مع ترجمہ سمجھ کر پڑھ لیں تو بہت ہے
بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن تمام انسانیت کےلیئے سرچشمہ ہدایت ہے، لیکن قرآن میں تو وطن پرستی یا قوم پرستی کہیں نہیں سیکھائی گئی ہے
عبدالرؤف صاحب
میں نے وطن پرستی یا قوم پرستی کا درس نہیں دیا ۔ دین سب سے اول ہے اور وطن کی حیثیت اپنی جگہ ہے ۔ قرآن شریف میں سورت 2 البقرۃ آیت 191 ۔ انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے ۔ کیا یہاں اپنے وطن سے نکالنے کا حُکم نہیں دیا گیا ؟ دیگر ہجرت کی فضیلت اسی وجہ سے ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں اپنا وطن چھوڑتا ہے ۔ میرا نظریہ جاننے کیلئے مندرجہ ذیل تحریر دیکھ لیجئے
https://theajmals.com/blog/2012/08/30/