بات تو پشاور موڑ کی کرنا ہے لیکن پہلے دو شعر جو پشاور موڑ کے قریب ہی پڑھنے کو ملے
جی 9 مرکز میں یوٹیلیٹی سٹور کے پیچھے والے احاطہ میں قصاب کی ایک دکان پر لکھا ہے
وہ مجھ سے ہو جائیں ناراض ۔ کوئی گِلہ نہیں
خفا ہو کے مجھ سے ۔ میرا شہر تو نہ چھوڑیں
ایک ٹرک کے پیچھے لکھا تھا
سانپ بند کر دیئے سپیرے نے کہہ کر یہ
انسان ہی کافی ہے انسان کو ڈسنے کے لئے
اسلام آباد سکٹرز جی 9 ۔ ایچ 9 ۔ جی 8 اور ایچ 8 کے درمیان شاہراہ کشمیر اور نائنتھ یا آغا شاہی ایونیو جہاں ایک دوسری کو کاٹتی ہیں اس چوراہے ۔ چوک یا چورنگی کا نام پشاور موڑ مشہور ہو گیا ہوا ہے ۔ یہاں ایک انٹر چینج یا شاید سڑکوں کا گورکھ دھندا بن رہا ہے
جن لوگوں نے اسے تعمیر کیلئے بند ہونے سے قبل یعنی 9 ماہ قبل دیکھا تھا ۔ کیا وہ انٹر چینج بن جانے کے بعد اسے پہچان سکیں گے ؟
میں تو سرگرداں ہوں کہ ہفتہ وار بازار المعروف اتوار بازار کیسے جاؤں گا
ماڈل کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگائیے
Same as in Saugoree.
Saturday, January 24, 2015
دیوان ٹرانسپورٹ
عرصہ ہوا مجھے ایک کتاب دیکھنے کا اتّفاق ہوا تھا جس کا عنوان تھا = دیوان ٹرانسپورٹ
اس میں کئ قسم کے اشعار اور ‘مقولے تھے پاستان کے رہنے والوں کے لئے کوئ مشکل نہیں سمجھنے کی کہ تقریبا” ہر شخص نے ٹرکوں اور بسوں پر کچھ نہ کچھ لکھا دیکھا ہوگا جو اچھے پائے کے اشعار سے لیکر فضول قسم کے اشعار تک سب پر مشتمل ہوتا ہے اندازہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو بسوں وغیرہ کی پینٹنگ کرتے ہیں ان کی پسند کی باتیں شعر یا کسی اور قسم کے بول یا مقولے ہوتے ہیں مثال کے طور پر آپ نے لاہور میں اکثر یہ دیکھاہوگا
پّپو یار تنگ نہ کر
یا– پھر ملیں گے
وغیرہ تو قارئین حضرات اس دیوان میں تمام پاکستانی بسوں ٹرکوں وغیرہ پر لکھے ہوئے اشعر کو ایک منچلے صاحب نے جمع کر دیا ہے اور اس لئے اس کتاب کا عنوان ‘ دیوان ٹرانسپورٹ ‘ رکھا گیا
اس کی کے کچھ نمونے پیش کر رہا ہوں
” یہ جینا بھی کوئ جینا ہے – جہلم سے آگے دینہ ہے”
کس قدر خوش نظر آتے ہیں میرے شہر کے لوگ – آج اخبار کسی نے نہ پڑھا ہو جیسے ]راولپیڈی لگتا ہے[
میرے محبوب کا انداز جہاں میں سب سے نرالا ہے – ادائیں بہت شوخ ہیں مگر رنگ ذرا کالا ہے
یہ اگلا اس زمانے کا ہے جب ای میل شروع نہیں ہوئ تھی
–کراچی یا الاہی کیا غضب ہے خط کا آنا بند ہے – یا محبّت کم ہوئ یا ڈاکخانہ بند ہے
کون کہتا ہے ملاقات نہیں ہوتا – ملاقات تو ہوتا ہے مگر بات نہیں ہوتا
یہ ٹرک ضرور پشاور میں بنایا گیا ہوگا
باقی پھر
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
بہت خوب ۔ یہ سب شعر میں نے پڑھے ہوئے ہیں ۔ میں جب بھی ممکن ہو بسوں ۔ ٹرکوں اور ویگنوں کے پیچھے ضرور نظر مارتا ہوں ۔ کچھ سالوں سے لاہور میں کسی پڑھے لکھے آدمی یا گروہ نے رکشاؤں کے پیچھے بہت پُرمعنی عبارات لکھنا شروع کی ہوئی ہیں ۔ 1976ء تک میں بسوں پر سفر کیا کرتا تھا ۔ بسوں میں بھی کئی مزیدار فقرے لکھے ہوتے تھے ۔ ایک بس کے داخل ہونے والے دروازے پر باہر لکھا تھا ”چڑھنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے شاید یہ تیری زندگی کا آخری سفر ہو“۔ اور ایک بس کے اندر لکھا تھا ”میں نے بُلبُل سے پوچھا دردِ محبت کا علاج ۔ وہ گر پڑی ۔ گر کر تڑپی اور تڑپ کر مر گئی“۔